مینگو ڈپلومیسی
وزیراعظم نواز شریف نے اپنے بھارتی ہم منصب نریندر مودی کو آموں کا تحفہ بھجوایا ہے۔ گزشتہ سال وہ آموں کا ایسا ہی تحفہ بھارتی وزیراعظم، صدر اور سونیا گاندھی کو بھجوا چکے ہیں۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اقتدار سنبھالنے کے بعد سے خاصے کڑوے بیانات دے رہے ہیں۔ اکثر بھارتی حکمران پاکستان کا تذکرہ کرتے ہوئے بدمزہ ہوتے رہے ہیں، مگر نریندر مودی کے لہجے کی کڑواہٹ سے ہندو انتہا پسندوں کی نفرتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔
آم کو پھلوں کا بادشاہ قرار دیا جاتا ہے۔ امید کی جا سکتی ہے کہ میاں نواز شریف نے نریندر مودی کو جو آم بھجوائے ہوں گے وہ خاصے شیریں ہوں گے اور وہ نریندر مودی کے کڑوے لہجے میں مٹھاس پیدا کریں گے۔ مگر نریندر مودی کے بہت سے مشیر انہیں پاکستانی آم کھانے سے منع کر سکتے ہیں اور انہیں آموں کی تباہ کاریوں پر یقین کرنے کے لیے آمادہ کرنے کے لیے بتا سکتے ہیں کہ پاکستان میں جنرل ضیا الحق کے طیارے کو آموں کے ذریعے تباہ کیا گیا تھا۔ اس لیے پاکستانی آموں کے ’’کردار‘‘ پر بہت زیادہ اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ ایسے لوگ پاکستان کے دشمن بھی ہو سکتے ہیں اور آم کو ناپسند کرنے والے بھی۔ مرزا غالب آموں کے بہت شوقین تھے۔ ان کے ایک دوست کو آم کچھ زیادہ ہی ناپسند تھے۔ ایک دن مرزا غالب آم کھا کر اس کے چھلکے پھینک رہے تھے، اتنی دیر میں ایک گدھا آیا اور اس نے آم کے چھلکوں کو سونگھا اور آگے چل پڑا۔ اس پر مرزا غالب کے دوست نے کہا ’’دیکھو مرزا صاحب آم تو گدھے بھی نہیں کھاتے‘‘۔۔۔ اس پر مرزا غالب نے برجستہ کہا ’’ہاں گدھے واقعی آم نہیں کھاتے‘‘۔
آم گدھے نہیں کھاتے، مگر باذوق لوگ ضرور کھاتے ہیں۔ نریندر مودی اگر آم کھاتے ہوتے تو ان کے لہجے میں اتنی کڑواہٹ نہ ہوتی۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ نریندر مودی انتہاپسندی کی سیاست کے ذریعے وزارت عظمی تک پہنچے ہیں۔ ان پر مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے کا الزام بھی ہے۔ اور کہا جاتا ہے کہ مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد مسلمانوں کے خلاف انتقامی کارروائیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ’’گھر واپسی‘‘ کے نام سے بھارت کے طول و عرض میں جاری مہم کے ذریعے مسلمانوں کو ہندو بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ بظاہر نریندر مودی نے کبھی ان کی حمایت نہیں کی ،مگر انہوں نے ایسی کوششوں کے خلاف کبھی ایک جملہ بھی نہیں کہا۔ بھارت میں جمشیدپور میں فلم ’’بجرنگی بھائی جان‘‘ دیکھ کر باہر نکلنے والی تین مسلمان لڑکیوں سے بدتمیزی کی گئی۔ اس پر ہنگامہ ہو گیا۔ ہندو مسلمانوں کی املاک کو نذر آتش کر رہے ہیں۔ سلمان خان کی فلم بجرنگی بھائی جان ایک خوبصورت پراپیگنڈہ فلم ہے جس میں ایک بھارتی نوجوان ایک پاکستانی بچی کو اس کے گھر پہنچانے کے لیے بے شمار صعوبتیں برداشت کر تا ہے۔ جمشید پور کی یہ تینوں مسلمان لڑکیاں بھی اس فلم کی شہرت سن کر فلم دیکھنے گئی ہوں گی۔وہ سلمان خان کی اداکاری سے متاثر ہوئی ہوں گی۔ پاکستانی سیکیورٹی اداروں میں سلمان خان پر ہونے والے تشدد نے انہیں رلا دیا ہوگا، مگر جب وہ سینما سے نکلیں تو انہیں خوفناک حقیقت کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے سکارف چھین لیے گئے۔ انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اور اس واقعے سے ان انتہا پسند ہندوؤں کو موقع مل گیا جو ہمہ وقت مسلمانوں پر حملہ کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ مسلمانوں کی کپڑے کی مارکیٹ جلا دی گئی۔ مسجد پر پتھراؤ کر دیا گیا۔ اور یہ کام ہندو تنظیموں ، ہندو پریشد اور بجرنگ دل کے کارکنوں نے کیا۔ بجرنگ دل کا ایک بھگت سلمان خان کی صورت میں ایک گونگی پاکستانی بچی کو اس کے گھر پہنچانے کے لیے ایثار کی غیر معمولی مثالیں قائم کرتا ہے، مگر حقیقت کیا ہے اس کا مشاہدہ پوری دنیا مسلم کش فسادات کی صورت میں کرتی رہتی ہے۔
بھارتی میڈیا نے وزیراعظم نواز شریف کے آم بھجوانے کو مثبت قرار دیا ہے۔ سب سے پہلے پاکستانی و زیراعظم لیاقت علی خان نے بھارتی وزیراعظم جواہر لال نہرو کو آم بھجوائے تھے۔ اس کے بعد سے یہ روایت برقرار رہی ہے۔ اس سال انہوں نے سونیا گاندھی کے علاوہ سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کو بھی آم بھجوائے ہیں۔ تاہم یہ آم اس وقت بھجوائے گئے ہیں جبکہ چند روز قبل پاکستانی رینجرز نے واہگہ بارڈر پر بھارت کی طرف سے عیدالفطر کی وہ مٹھائی قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا جو ہر سال بھارتی بطور عیدی دیتے ہیں۔ اس سے پہلے ورکنگ باؤنڈری اور کنٹرول لائن پر بھارت کی وحشیانہ بمباری سے بھی جذبات خاصے مشتعل تھے۔ پاکستان نے اس ڈرون طیارے کو بھی مار گرایا تھا جس نے بھارتی حدود سے نکل کر جاسوسی کرنے کی کوشش کی تھی۔
میاں نواز شریف نے کچھ عرصہ قبل نریندر مودی کی والدہ کے لیے ایک قیمتی ساڑھی بھجوائی تھی جس پر نریندرمودی نے خوشی کا اظہار کیا تھا۔ نریندر مودی ایک مشکل سیاستدان ہیں۔ ممبئی کی میئر سنہال امبیکر نے تو مودی کو ہٹلر قرار دیا ہے کیونکہ ان کے مطابق بھارتی وزیراعظم میں اختیارات کا غیر معمولی ارتکاز ہو چکا ہے۔ اور جن ہندو انتہا پسندوں نے انہیں وزارت عظمی کی کرسی پر پہنچایا ہے وہ ان سے بلندوبالا امیدیں وابستہ کئے ہوئے ہیں۔ ان حالات میں مودی کو کچھ نہ کچھ کرنا ہے۔ بھارت میں ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں ہے جو مودی سے اقتصادی معجزوں کی آس لگائے بیٹھے ہیں۔ عالمی مبصرین اس پر متفق ہیں کہ اگر مودی جھگڑوں میں الجھ گیا تو پھر اس کے لیے اقتصادی میدان میں کچھ کرناممکن نہیں ہوگا۔
پاکستان میں بہت سے لوگ نریندرمودی کو انتہاپسند قرار دیتے ہیں۔ امریکہ میں بھی ان کے متعلق کچھ اچھے جذبات نہیں رہے ہیں۔ وال سٹریٹ جرنل کی ایک رپورٹ کے مطابق نریندر مودی امریکی تاریخ کے وہ واحد شخص ہیں جنہیں امریکہ کے مذہبی آزادی کے قانون کی بنیاد پر ویزہ دینے سے انکار کیا گیا تھا۔ سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے انہیں 2005ء میں بھارتی ریاست گجرات میں مسلم کش فسادات روکنے میں ناکامی پر ویزہ نہ دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ ان کے برسراقتدار آنے کے بعد اب وہ امریکہ کا دورہ کر سکتے ہیں کیونکہ وہ بھارت کے وزیراعظم ہیں۔ امریکہ کی خارجہ پالیسی میں بھارتی اہمیت میں اضافہ ہو چکا ہے۔ بعض مبصرین بھارت اور امریکہ کے گٹھ جوڑ کو پاکستان کے خلاف قرار دے رہے ہیں۔ اس صورت حال میں پاکستان کے چونسہ اور سندھڑی آموں سے بھارتی حکومت کے مزاج میں کسی بڑی تبدیلی کی توقع نہیں کی جا سکتی تاہم جس طرح بھارتی میڈیا نے پاکستانی وزیراعظم کے آموں کے تحفے کی پذیرائی کی ہے اس سے یہ اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں ہے کہ بھارت میں بھی حالات کو بہتر بنانے کی امید لگانے والے کم نہیں ہیں اور وہ مینگو ڈپلومیسی سے ایسی امیدیں وابستہ کر رہے ہیں جو کسی دور میں کرکٹ ڈپلومیسی یا بیک چینل ڈپلومیسی سے وابستہ کی جاتی رہی ہیں۔