سخت سیاسی فیصلے
موجودہ حکومت کووفاق اور پنجاب میں اقتدار میں آئے ساڑھے تین ماہ گذر چکے ہیں، سندھ میں پہلے ہی تقریباً پندرہ سال سے پیپلز پارٹی کی حکومت ہے۔ میاں شہبازشریف کی وفاقی حکومت کو عالمی کساد بازاری اورآئی ایم ایف کی طرف سے سخت شرائط ورثہ میں ملیں، 10 اپریل کو جب میاں شہباز شریف نے وزیراعظم کا منصب سنبھالا تو ان کے سامنے دو راستے تھے، پہلا یہ کہ مشکل اقتصادی فیصلے کرکے اقتصادی بھنور سے نکلنے کی کوشش کرتے اور دوسرا یہ کہ اسمبلیاں تحلیل کرکے نئے انتخابات کا اعلان کرتے تاکہ عمران خان کی چار سالہ حکومت کی ناقص کارکردگی کا ملبہ نہ اٹھانا پڑتا، حکومتی اتحاد پہلے ایک دو ہفتہ شش و پنج میں رہا لیکن بالآخر اس نے پہلے راستہ کا انتخاب کیا۔ ان دوہفتوں کے دوران حکومتی حلقوں میں رائے منقسم رہی کہ دونوں میں سے کس راستہ کا انتخاب کرنا ہے جب حکومت نے فیصلہ کر لیا تواگلا مرحلہ ملک کی پہلے سے ڈوبتی معیشت کو سنبھالنا تھا۔ وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل پہلے دن سے ہی آئی ایم ایف سے مذاکرات میں انگیج ہو گئے، وزیر اعظم شہباز شریف نے دوست ملکوں سعودی عرب، چین اور ترکی وغیرہ سے رجوع کیا اگر عمران خان حکومت نے ہاتھوں سے معاشی گرہیں کھولی ہوتیں تو شہباز شریف حکومت کو دانتوں سے کھولنے کی ضرورت نہ پڑتی لیکن جیسا شیخ رشیدپہلے ہی کھل کر بتا چکے ہیں کہ عمران خان جان بوجھ کرآنے والی حکومت کے لئے بارودی سرنگیں بچھا کر گئے۔ آئی ایم ایف کی شرائط سخت سے سخت تر ہوتی گئیں کیونکہ یہی اس کا ہمیشہ سے وطیرہ رہا ہے کہ وہ یہ دیکھتا ہے کہ کون سا ملک کتنا پھنسا ہوا ہے۔ دنیا پہلے ہی روس اوریوکرائن جنگ کی وجہ سے عالمی کساد بازاری کا شکار ہے (تیل اور خوراک کی ریکارڈ بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے دنیا کے اکثرممالک میں شدید ہنگامے بھی ہو رہے ہیں)، پاکستان کا بھی اس سے بچنا ناممکن تھااس لئے وہ بھی نہ صرف شدید مہنگائی کی زد میں ہے بلکہ روپے کی قدر بھی فری فال گراوٹ کا شکار ہے، ان معاشی حالات کا پنجاب کے ضمنی انتخابات پر بھی براہ راست اثرپڑا اور تحریک انصاف بیس میں سے پندرہ سیٹیں جیت گئی۔ حکومتی اتحاد لوگوں کو بتاتا رہ گیا کہ وہ سیاست نہیں بلکہ ریاست بچانے نکلے ہیں لیکن مہنگائی سے تنگ عوام نے اپنی فرسٹریشن کا اظہار بہر حال کرنا تھا اور وہ کیابھی۔
یہ درست ہے کہ شہبازشریف حکومت سخت معاشی فیصلے کرکے عمران خان کی بچھائی ہوئی سرنگوں کو صاف کرنے، اور گرہوں کو دانتوں سے کھولنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن سیاسی طور پر وہ لوگوں کو یہ باور کرانے میں ناکام نظرآتی ہے کہ مسائل کی اصل وجہ عمران خان کی چارسالہ ناکام حکومت ہے پہلی بات تو یہ کہ اگر عمران خان نے 2019 میں کئے گئے آئی ایم ایف سے تین سالہ معاہدہ پر کامیابی سے عمل کیا ہوتا تو 2022 میں اس کی توسیع کی ضرورت نہ پڑتی جیسے میاں نواز شریف حکومت نے 2013 میں آئی ایم ایف سے تین سالہ معاہدہ پر کامیابی سے عمل کیا تھا اس لئے 2016 میں توسیع کی ضرورت نہیں پڑی تھی۔شہبازشریف حکومت اپنی تمام تر کوششوں اور نیک نیتی کے باوجودموثرکمیونیکیشن سٹریجی بنانے میں اب تک ناکام رہی ہے جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس نے سخت معاشی فیصلے توکئے ہیں لیکن سخت سیاسی فیصلے نہیں کئے۔ اگر کمیونیکیشن سٹریٹجی موثرہوتی توعوام پر یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوتی کہ تمام خرابی عمران خان کی ناکام حکومت کی نا اہلی، بری گوورننس اور ریکارڈ کرپشن کی وجہ سے ہے۔ عوام کی یادداشت انتہائی مختصرہوتی ہے اور وہ بھول جاتے ہیں کہ پچھلے دورمیں کیا کچھ ہوتا رہا۔ یہ شہباز شریف حکومت کی ذمہ داری تھی کہ عمران خان حکومت کا تمام کچا چٹھا عوام کے سامنے لاتی، پہلے دن سے ہی حکومت کرپشن کیسز کو بے نقاب کرنے کے لئے متحرک ہوتی اور سخت سیاسی فیصلے کرتی۔ اگر اس میں مقتدرہ رکاوٹ ہے تو پھریہ حکومت لینے کا فائدہ ہی نہیں تھا۔ عمران خان حکومت کی نالائقیوں کا بوجھ اپنے سر پر اٹھانے کا مطلب اپنی ہی سیاسی موت ہے ہو سکتاہے مقتدرہ ڈبل گیم کر رہی ہو اوراگرایسا ہے تو حکومت لینے کا فیصلہ ہی غلط تھا کیونکہ عمران خان تو اپنی نااہلی کی وجہ سے سیاسی موت کی طرف بڑھ رہا تھا اور اگلے عام انتخابات تک وہ اتنا غیر مقبول ہو جاتا کہ بیس تیس سے زیادہ سیٹیں نہ لے پاتا، اسے سیاسی شہید بنانے کا الٹا نقصان ہوا اوروہ امریکی سازش کے ایک جھوٹے بیانیہ کے سہارے دوبارہ سے کھڑا ہو گیا ہے جس کا ثبوت پنجاب کے ضمنی انتخابات میں سامنے آچکا ہے۔ تحریک انصاف اپنی حکومت کے دور میں بارہ میں سے گیارہ ضمنی
انتخاب ہار گئی تھی اورکنٹونمنٹ بورڈز کے الیکشن میں اس پر جھاڑو پھر گیا تھا۔ پاکستان کی تاریخ میں عدلیہ کا کردار ہمیشہ متنازعہ رہا ہے۔ لگ بھگ 70 سال پہلے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس منیر نے ”نظریہ ضرورت“ کا شرمناک فیصلہ دیا تھا، لیکن ایک ایسی نظیر سیٹ ہو گئی کہ بہت سے مواقع پر اعلی عدلیہ کے ججوں نے آئین، قانون، اخلاقیات اور انصاف کے خلاف فیصلے دئیے۔ سینکڑوں کتابیں اورہزاروں مقالہ جات موجود ہیں جن میں ان فیصلوں کی دھجیاں ادھیڑی گئی ہیں۔ عدلیہ گاہے بگاہے وہ جوڈیشل ایکٹوزم بھی دکھاتی رہتی ہے۔ موجودہ حکومت کو بھی اعلی عدلیہ کا سامنا ہے۔ پورا پاکستان معترض ہے کہ تحریک انصاف کے ہر کیس میں مخصوص جج کیوں ہوتے ہیں؟جو اپنے ہی دئیے گئے فیصلوں کی نفی کرتے رہتے ہیں۔ اس کا واحد حل اہم سیاسی مقدمات میں فل کورٹ ہے۔ شہباز شریف حکومت کی بقا مشکل سیاسی فیصلے کرنے میں ہے۔ اسے لیٹنے کی بجائے سخت سٹینڈ لینا ہوگا اور سیاسی طورپر سخت فیصلے کرکے عمران خان حکومت کی تمام کرپشن بے نقاب کرنا ہوگی۔ آفتاب سلطان کی بطور چئیرمین نیب تقرری خوش آئند ہے کیونکہ ان کا ٹریک ریکارڈ ہے کہ وہ کسی کے سامنے نہیں جھکتے۔وہ جنرل مشرف سمیت کبھی کسی کے دباؤ میں نہیں آئے۔ سکندر سلطان نے بھی ثابت کیا ہے کہ وہ کوئی دباؤ خاطر میں نہیں لاتے۔ ان دونوں ”سلطانوں“ کے ہوتے ہوئے بھی اگر شہباز شریف حکومت سخت سیاسی فیصلے نہیں کر پاتی، اپنی کمیونیکیشن سٹریٹجی بہتر نہیں بناتی اور پچھلے دور کی تمام کرپشن بے نقاب کرکے مجرموں کو قرارواقعی سزانہیں دلواتی تو اسے سیاست چھوڑ دینی چاہئے کیونکہ اسے دوسراچانس نہیں ملے گا۔