گھنٹو اور منٹو
آج بھی یاد ہے کسی زمانے میں روزنامہ اوصاف میں بطور سٹاف رپورٹر کام کرتے رہے اور اس دوران یہ بھی یاد رہا کہ ہمارے بہت سے دوست جو رپورٹنگ ٹیم کا حصہ تھے انکے پاس اکثر بہت سے مہمان آتے تھے اور یہ بات بھی بہت دلجمعی سے نوٹ کی کہ جب ہمارے کسی رپورٹر دوست کا کوئی خاص مہمان آتا تو کینٹین پہ فون کر کے کہتے بیٹا منٹو چائے لے آ اور چائے فورا آ جاتی تھی۔لیکن جب ہمارے دوست کسی مہمان کے لئے کینٹین پہ فون کر کے کہتے بیٹا گھنٹو چائے لے آ تو وہ بے چارہ مہمان جس کے لئے بیٹا گھنٹو چائے کے لئے کہا وہ گھنٹوں بیٹھا رہا پر اسے چائے نا ملی اور بعد ازاں غور کیا تو مطلب سمجھ آ گیا کہ گھنٹو اور منٹو میں فرق کیا ہے۔جی ہاں یہ فرق ہمیں تو سمجھ آ گیا جب رپورٹر بننے کے شوق میں وفاقی دارالحکومت کی گلیوں میں پیدل خاک چھانی اور جس دن جیب گرم ہوئی یعنی تنخوا.ہ ملی تو ٹیکسی اور بس پہ بھی سفر کر لیا ویسے اللہ کا شکر تھا کہ گھر سے بھی کوئی مسئلہ نا تھا جب بھی شامی صاحب یعنی والد محترم سے جو بھی فرمائش کی پوری ہوئی نا پیسے کی کمی رہی نا گاڑی کی۔لیکن اسلام آباد تو ہم اپنے شوق میں گئے تھے یعنی کام سیکھنے کا شوق اور خوش قسمتی کہ اسلام آباد میں جس پہلے اخبار میں کام کیا وہ خبریں تھا اور خوشنود خاں اور ضیاء شاہد. مرحوم دونوں اکٹھے تھے۔یہ غالبا 1997 کی بات ہے جب میں نے لاہور چھوڑا اور سب سے پہلے خبریں میں ہی کام سیکھنے کے لئے گیا اور ڈیسک انچارج شاہد صابر صاحب کی محبت میں بہت کچھ سیکھا۔ محبوب صابر بھی خبریں میں ڈیسک پہ ہمارے ساتھ رہے مصطفی ملک جو ق لیگ کے ہر دلعزیز رہنما ہیں بھی ہمارے خبریں کے ساتھی ہیں اور خبریں چھوڑا اوصاف میں پہنچ گئے اور اوصاف کے بعد اساس سمیت متعدد اخبارات میں بھی کام کیا اور بطور رپورٹر بھی زندگی کے نشیب و فراز دیکھے۔ لیکن اب بات ہو رہی تھی کہ منٹو اور گھنٹو میں فرق تو دوستوں منٹو اور گھنٹو کا فرق ہم تو سمجھ گئے لیکن جناب کپتان تاحال منٹو اور گھنٹو کے فرق کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔جناب خان حکومت کے پیچھے لٹھ لے کے پڑ گئے کہ حکومت انتخابات کروائے اور نئے انتخابات کے لئے یی جناب کپتان شور مچا رہے ہین اور اسی لئے جناب کپتان سمجھ رہے ہیں کہ منٹو کا نعرہ لگا کے یا حکومت پہ دباو ڈال نئے انتخابات کروا لینگے۔لیکن فی الحال حکومت تاحال الیکشن کروانے کے موڈ میں نظر نہیں آتی اور یقینا انتخابات اپنے وقت پہ ہی ہونے چاہئیے اور ویسے بھی الیکشن الیکشن کا کھیل اپنے وقت پہ ہی کھیلا جائے تو اچھا لگتا ہے اور دیکھا جائے کہ اگر الیکشن ہونے ہوتے تو معزز عدالت اسی وقت الیکشن کروا دیتی۔ جب جناب کپتان نے حکومت چھوڑی اور عدالت کی طرف سے الیکشن کمیشن کے نمائندے معزز عدالت میں طلب کئے گئے جنھوں نے معزز عدالت کو یہ جواب دیا کہ وہ سات مہینے تک الیکشن نہیں کروا سکتے اور اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے الیکشن کروانے کی بات کرنے والے جو ہیں انکا حال بالکل ویسا ہی ہے جیسے کھسیانی بلی کھمبا نوچے۔ جی ہاں یقینی اس وقت نئے انتخابات کا مطالبہ بے معنی ہے اور گر دوسرا خیال یہ ہے کہ اگر توحالات خراب کر کے فوج کودعو ت کو دعوت اقتدار دی جارہی ہے تو یہ بات بھی محض قیاس آرایئاں ہی ثابت ہو ں گی۔کیونکہ آرمی چیف جو اب سابق ہونے والے ہیں اور انکی جگہ نئے آرمی چیف آنے والے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ نیا چیف کون ہوگا اور اس حوالے سے نئے ناموں کی سمری جناب صدر کو بھج دی گئی ہے اور اب یہ با ت بھی جلدی سامنے ہو گی۔لیکن فی الحال تو جناب باجوہ نے واضح کر دیا تھا کہ فوج سیاسی معاملا ت میں عمل دخل نہیں دے گی لیکن ملکی سالمیت و بقاء کے لئے بھی کسی کسم کے اقدامات سے پرہیز نہیں کیا جانا چاہئے اور دیکھنا تو یہ بھی ہے کہ آئندہ میدان سیاست میں پیادے شاہ کو مات کرنے کے لئے کیا چال چلیں گے کچھ نہیں کہا جا سکتا اور یہ بات تو رہی کہ ایک طرف تو یہ بات اور دوسری طرف رہی دباؤ کی بات تو جناب خان نے حکومت پہ دباو ڈالنے کے لئے ہی لانگ مارچ کا آغاز کیا اور دنیا نے دیکھا کہ لانگ مارچ نے خونی مارچ کا روپ دھار لیا ایک خاتون صحافی بہن فرائض کی سرانجام دہی میں دنیائے فانی سے کوچ کر گئیں ایک شہری شہید ہو گیا اور سب سے بری خبر کے جناب کپتان بھی گولی لگنے سے زخمی ہو گئے اور اسکے بعد جناب خان کو لانگ مارچ ادھورا چھوڑنا پڑا بلکہ جناب کپتان کو لانگ مارچ بالکل ہی ختم کرنا پڑا اور اب جناب کپتان نے اپنے کارکنوں کو ایکک دفعہ پھر پنڈی پہنچنے کی ہدایت جاری کی ہیں اور حکومت کی طرف سے سکیورٹی الرٹ بھی جاری کر دیا گیا ہے اور حکومتی ترجمان کی طرف سے پی ٹی آئی کو ممکنہ امن و امان میں نقص عامہ کی اطلاع کر دی گئی تو بہر حال اب دیکھتے ہیں کہ آئندہ سیاسی پس منظر کیا ہو گا کون چت ہو گا کون پٹ یہ بات بھی وقت ہی بتا سکتا ہے تو فی الحال اجازت دوستوں ملتے ہیں جلد ایک بریک کے بعد تو چلتے چلتے اللہ نگھبان رب راکھا۔