تنازعہ کشمیر: سلامتی کونسل اہل کشمیر کو آزادی دلائے
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے مقبوضہ جموں و کشمیر پر بھارتی آئین کے آرٹیکل 370کو ختم کر کے کشمیر کو بھارت میں شامل کرنے کی سراسر غیر قانونی کارروائی کو مہذب دنیا، تمام انصاف پسند اداروں،انسانی حقوق کے تحفظ پر مامور غیر جانبدار طبقوں اور حلقوں میں شب و روز جنوبی ایشیا کے امن و استحکام کے لئے بہت خطرناک اور تباہ کن قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ امر فوری طور پر قابل توجہ ہے کہ گزشتہ 5 اگست سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں مسلسل کرفیو اور لوگوں کے گھروں سے باہر جانے پر تا حال سخت پابندیاں عائد ہیں۔ لداخ کے علاقے پر بھی قابض ہونے کے بعد پابندیاں اسی روز سے عائد کی گئی ہیں، جس پر چین کی حکومت بھی بھارت کی اس کارروائی پر اپنا سخت اور مسلسل احتجاج جاری رکھے ہوئے ہے۔مقبوضہ جموں و کشمیر کا علاقہ 1948ء سے متنازعہ چلا آ رہا ہے، جب بھارتی حکمرانوں نے اس پر، زبردستی اپنی مسلح افواج کے ذریعے حملہ آور ہونے کی بنا پر، اپنا غیر قانونی اور ناجائز تسلط ظاہر کرنا شروع کر دیا تھا۔
بعد ازاں بھارتی وزیر اعظم، پنڈت جواہر لال نہرو کی خواہش پر معاملہ ہذا کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں برائے مناسب، تصفیہ یا حل پیش کیا گیا تھا۔ اس عالمی ادارے کی سلامتی کونسل نے کئی بار، مقبوضہ جموں و کشمیر کے حالات پر بحث و تمحیص کر کے، گیارہ قراردادیں منظور کی تھیں۔ ان قراردادوں کے مطابق، اہل جموں و کشمیر کو اپنی آزاد مرضی اور خواہشات کے مطابق پاکستان یا بھارت کے ساتھ الحاق کرنے کی آزادی، بذریعہ آزادانہ اور منصفانہ حق رائے دہی کے استعمال کے لئے دی گئی تھی، لیکن اس معاملے میں قابل تشویش بات یہ چلی آ رہی ہے کہ بھارت نے اہل کشمیر کو،جو آج کل کم و بیش ایک کروڑ اور 40 لاکھ افراد ہیں، مسلسل غیر قانونی اور جابرانہ حربوں سے، بھارت کی 8 لاکھ فوج کی پُرتشدد اور ظالمانہ کارروائیوں سے، اپنی آزادی کی جدوجہد کو جاری رکھنے کی سہولتوں سے محروم کر رکھا ہے۔ حریت پسند راہنماؤں، سید علی گیلانی، عمر فاروق اور دیگر متعدد سرکردہ قائدین کو جیلوں میں پابند اور نظر بند کر رکھا ہے اور یہ مدت عرصہ دو سال تک جاری رکھنے کے اعلانات کئے جا رہے ہیں۔ لوگ اپنے گھروں سے نکلنے سے قاصر ہیں۔ اس طرح وہ اپنی خوراک، ادویات، اپنے کاروبار، بچے اپنی تعلیم کے حصول، ملازمین اپنے دفاتر میں حاضری سے محروم اور عوام کے مسائل و معاملات پر غور و خوض کرنے سے عاجز و قاصر ہیں۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے دو ہفتے قبل کے ایک اجلاس میں بھارتی حکومت کی اس غیر انسانی کارروائی پر غور کیا تھا۔ بعد ازاں بھارت کی بہیمیت اور جارحیت کے باوجود، معاملہ مذکور پر مزید کارروائی کے لئے کوئی مختصر وقت کی تاریخ مقرر نہیں کی گئی، حالانکہ حالات کی شدت اور سنگینی کا عالم یہ ہے کہ وہاں ایک روز لوگوں نے کرفیو کی پابندیاں توڑ کر اپنے جذبات کا اظہار کیا اور آزادی کے فلک شگاف نعروں کے درمیان یہ مطالبہ کیا کہ بھارتی فوج کو وہاں سے نکالا جائے، کیونکہ بھارت کی فوج وہاں لوگوں پر شب و روز فائرنگ اور لاٹھی چارج سے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑتی رہتی ہے۔ فوجی افراد، خواتین کی بے حرمتی کرنے سے بھی کوئی گریز نہیں کرتے۔ سلامتی کونسل کے 5 مستقل اراکین اور دیگر 10 ممالک کے نمائندوں نے اپنے اس ادارے کی قبل ازیں منظور کردہ قراردادوں پر عمل درآمد کے لئے اپنی 72 سالہ کارکردگی کا جمود توڑ کر اقوام متحدہ کے منشور پر اس کے بنیادی مقاصد کی تکمیل کے مطابق اپنا مثبت اور منصفانہ کردار نبھا کر، اہل کشمیر کو جلد ان کی خواہشات کے تحت آزادی دلائی جائے، ورنہ یہاں ایٹمی جنگ کی تباہی بھی پھیل سکتی ہے،جو پورے خطے کے لئے انتہائی تباہ کن ہو گی۔