وزیر اعلیٰ پنجاب اور جعلی مولاجٹ 

  وزیر اعلیٰ پنجاب اور جعلی مولاجٹ 
  وزیر اعلیٰ پنجاب اور جعلی مولاجٹ 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 سرسید احمد خان کے علی گڑھ کے عظیم تعلیمی ادارے نے برصغیر کے مسلمانوں کی تقدیربدلنے میں شاندار کردار ادا کیا مگر خود سرسید کہتے تھے کہ اللہ کے ہاں وہ اپنی بخشش کے لئے یہ استدعا کریں گے کہ انہوں نے الطاف حسین حالی سے مسدس لکھوائی ہے۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ چوہدری پرویزالٰہی بھی اپنی بخشش کے لئے خدا کے حضور ریسکیو سروس کے قیام کو پیش کر سکتے ہیں۔ ریسکیو سروس نے پنجاب میں جتنے لوگوں کی جان بچائی ہے اس کا شاید درست اندازہ لگانا بھی مشکل ہے۔ اس سے پہلے لوگ سڑکوں پر حادثات میں بروقت طبی امداد نہ ملنے کی وجہ سے ہلاک ہو جاتے تھے۔ لوگ زخمیوں کو دیکھتے گزر جاتے تھے کیونکہ انہیں ہسپتال پہنچانا ایک بڑا رسک ہوتا تھا جو بے شمار قانونی مسائل پیدا کر سکتا تھا۔ چوہدری پرویزالٰہی نے اس مسئلے کا ادراک کیا اور اسے ایسے احسن طریقے سے حل کیا کہ یہ دنیا میں ایک شاندار مثال بن گیا۔
ہمارے محترم بزرگ مصطفی صادق صاحب کے چوہدری ظہور الٰہی کے ساتھ قریبی تعلقات تھے۔ وہ اکثر چوہدری صاحب کی جرائیت، دوست نوازی، سخاوت اور وضع داری کے قصے سنایا کرتے تھے۔ مجیب الرحمن شامی صاحب کے قومی ڈائجسٹ کی ادارتی ذمہ داریوں کے دوران ”چوہدری ظہور الٰہی شہید“ نمبر نکالا۔اس دوران ایسے بے شمار لوگوں سے ملاقات ہوئی جن کو چوہدری ظہور الٰہی کے ساتھ رہنے کا اتفاق ہوا تھا۔ انہوں نے چوہدری ظہور الٰہی کے ایسے چشم دید واقعات کی گواہی دی جس سے پتہ چلا کہ اس وطن عزیز کے گلشن کو سنوارنے کے لئے چوہدری صاحب جیسے لوگ قربانیاں دیتے رہے ہیں۔


چوہدری پرویز الٰہی اپنی خاندانی روایات کو لے کر آگے بڑھ رہے ہیں۔ انہوں نے اپنی پہلی وزارت اعلیٰ کے دوران بے شمار ترقیاتی کام کئے۔ وہ عزت کرنا اور عزت کروانا جانتے ہیں جو پنجاب کے لوگوں کے کلچرکا حصہ ہے۔ چوہدری صاحب کے متعلق ایک ہی گلہ کیا جاتا ہے کہ وہ بے شمار خوبیوں کے مالک ہیں مگر جٹ ہیں۔ کئی دوست کہتے ہیں کہ اگر آپ جٹ نہیں تو ان کے حلقہ احباب تک آپ کی رسائی نہیں ہو گی۔مگر میں ذاتی طور پر ایسے بے شمار احباب کو جانتا ہوں جو جٹ نہیں ہیں مگر چوہدری صاحب کے ساتھ ان کے قریبی تعلقات ہیں۔ اقبال چوہدری صاحب چوہدری پرویزالٰہی کے قریبی ساتھی ہیں۔ اب وہ ماشاء اللہ پریس سیکرٹری ہیں۔ پریس سیکرٹری بننے کے بعد انہوں نے چوہدری کے ساتھ تارڑ لگا کر اپنے باقاعدہ جٹ ہونے کا اعلان کیا ہے۔ ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ کیونکہ اپنے نام کے ساتھ تارڑ لگا کر انہوں نے جو حرکت کی ہے وہ ہم اپنے نام کے ساتھ ڈوگر لگا کر برسوں سے کرتے رہے ہیں۔ اقبال چوہدری نے پنجاب کے صحافیوں کے لئے ایک بہت بڑا کام کیا ہے اور وہ ہے صحافی کالونی۔ جس سے ہزاروں صحافیوں کو چھت میسر آئی ہے سنا ہے کہ وہ اب اس سلسلے میں مزید کام کر رہے ہیں، ہمیں ان کے تارڑ کا اعلان کرنے پر اعتراض نہیں ہے مگر ہماری طرح بہت سے صحافی دوست یہ ضرور شکایت کر رہے ہیں کہ وہ اب فون نہیں سنتے۔ یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ اس کی وجہ ان کا پریس سیکرٹری بننا ہے یا تارڑ ہونے کا اعلان کرنا۔
پنجاب میں ایک لطیفہ مشہور تھا کہ ایک صاحب نے اپنے سید ہونے کا اعلان کیا اور اپنے قریبی دوست سے اس سلسلے میں گواہی طلب کی تو اس نے برجستہ کہا کہ جناب آپ کے سید ہونے پر کیسے شک کیا جا سکتا ہے؟ آپ کے سید ہونے کا تو میں چشم دید گواہ ہوں۔ پنجاب میں جٹ بہت معزز قوم ہے اور یہ اپنی روایات اور تاریخ پر بجاطور پر فخر کر سکتے ہیں۔ مگر ہمارے علم کی حد تک پنجاب میں ”مولاجٹ“ کو معروف کرنے والے سلطان راہی جٹ نہیں تھے اور آج کل ایک نئی فلم میں بھی مولاجٹ کو پیش کرنے والے جٹ نہیں ہیں، گویا پنجاب میں غیر جٹ، جٹ کا ایک نیا امیج قائم کر رہے ہیں۔


برادرم آصف چودھری صاحب ہمارے برسوں پرانے دوست ہیں۔ نرم دم گفتگو اور گرم دم جستجو رپورٹنگ کرتے ہیں اور رپورٹنگ کا حق ادا کر دیتے ہیں۔ انہوں نے لاہور کے ہسپتالوں میں مریضوں کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک کی جو داستانیں بیان کی ہیں اس پر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ملتان کے نشتر کالج میں انسانی لاشوں کے ساتھ جو سلوک ہو رہا ہے ایسا کام چنگیز خان اور ہلاکو خان کے لئے بھی کرنا شاید مشکل ہوتا مگر اخبارات جو داستانیں سنا رہے ہیں ان سے کسی بھی دوسری جگہ سے زیادہ ظلم ہسپتالوں میں ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے۔پاکستان کے میڈیکل شعبے میں اچھے لوگوں کی کمی نہیں ہے۔ ایسے ڈاکٹر بھی موجود ہیں جو دامن نچوڑیں تو فرشتے وضو کرنا اعزاز سمجھیں مگر اس مقدس شعبے میں ایسے لوگ گھس آئے ہیں کہ ان کے لئے ڈاکٹر کا مقدس لفظ استعمال کرنا ڈاکٹر کی توہین نظر آتا ہے، ان کے لئے مولاجٹ کا لفظ زیادہ مناسب محسوس ہوتا ہے۔
بی بی سی والے چوہدری پرویزالٰہی کو مجبور وزیراعلیٰ قرار دیتے ہیں مگر ان کا ماضی گواہ ہے کہ وہ جرأت کے ساتھ فیصلے کرتے ہیں اور ان پر عمل درآمد بھی کراتے ہیں، وہ طاقت کے نشے میں پاگل نہیں ہوتے، وہ حکمت کے ساتھ مستقل مزاجی کا مظاہرہ کرتے ہیں، پنجاب کے ہسپتالوں پر مولاجٹ قابض ہو گئے ہیں جو جعلی جٹ ہیں ان میں رحم اور انسانیت نہیں ہے،  ان کا اول و آخر مقصد صرف اور صرف دولت ہے سرکاری ہسپتال ان کی شکار گاہیں ہیں، ان کے ایجنٹ مریضوں کو ڈراتے ہیں اور پرائیویٹ ہسپتالوں میں جانے کی ترغیب دیتے ہیں۔ ہمیں چوہدری پرویزالٰہی سے یہ امیدوابستہ کرنے میں کوئی حرج نظر نہیں آتا کہ وہ اس مافیا کے خلاف اقدامات کریں گے، سرکاری ڈاکٹروں کے پرائیویٹ ہسپتالوں میں کام کرنے پر پابندی ہونی چاہیے۔ وہ ڈاکٹر جن میں انسانیت کا جذبہ ہے، جنہوں نے اپنی زندگی سرکاری ہسپتال کے لئے وقف کر رکھی ہے انہیں ترقی اور عزت کا موقع ملنا چاہیے، مگر سچی بات یہ ہے کہ اگر دردمند دل رکھنے والے ڈاکٹروں کی بات سنیں تو وہ بتاتے ہیں کہ  مافیا نے کس طرح انہیں یرغمال بنا رکھا ہے؟ وہ ہسپتالوں میں صفائی کا اہتمام نہیں ہونے دیتے تاکہ لوگ گندگی سے گھبرا کر پرائیویٹ ہسپتالوں کا رخ کریں، پرائیویٹ ہسپتالوں میں مریض کم ہو جائیں تو سرکاری ہسپتال میں ہڑتال کرا دی جاتی ہے، کام بند کر دیا جاتا ہے، صحت کارڈ ایک بڑی سہولت اور کارنامہ ہے، اس کو جس طرح پرائیویٹ ہسپتالوں کے ذریعے استعمال کیا جا رہے وہ ایک بڑا مالیاتی سکینڈل بنتا ہوا نظر آ رہا ہے۔


وزیراعلیٰ پنجاب اگر صرف جنرل ہسپتال لاہور کے متعلق خفیہ اداروں سے رپورٹ لیں تو پریشان کن حقائق ان کے سامنے آئیں گے۔ مولانا مودودی صاحب نے اپنے کچھ دوستوں سے کہا تھا کہ میں یہ نہیں کہتا کہ آپ نے میرے خلاف سازش کی ہے لیکن اگر آپ سازش بھی کرتے تو نتائج کچھ ایسے ہی ہوتے۔ لاہور جنرل ہسپتال میں بہت اچھے ایڈمنسٹریٹر رہے ہیں جو مریضوں کی فلاح پر غیرمعمولی توجہ دیتے تھے مگر جنرل ہسپتال کے موجودہ پرنسپل سردار الفرید ظفر کے متعلق تو لوگ کہتے ہیں کہ ڈاکٹر الفرید ایک بہت اچھے گائناکالوجسٹ ہیں مگر ایڈمنسٹریشن ان کے بس کا روگ نہیں ہے۔ وہ ہسپتال کے مسائل کو بھی گائنی کے مسائل سمجھ کر حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ اتنے زیادہ مصروف ہوتے ہیں کہ ان کے پاس ہسپتال کے لئے کام کرنے کے لئے وقت نہیں ہوتا۔ وہ خواتین اور ان کے طبی مسائل کے حل کے لئے بہترین ہیں مگر لاہور جنرل ہسپتال ان کے ہاتھوں میں اسی طرح کراہ رہا ہے جیسے ڈینٹل سرجن کو دیکھ کر گائنی وارڈ کے مریض خوفزدہ ہوسکتے ہیں۔ چند روز قبل علاج کے لئے آنے والی گرین ٹاؤن کی لڑکی ہسپتال سے غائب ہو گئی اور گائنی وارڈ میں بچے پیدا کرنے والی خواتین کو درد سے یہ فکر زیادہ ستاتی رہتی ہے کہ ان کے بچے کو پیدا ہونے کے بعد غائب کر دیا جائے گا۔ جس وارڈ میں مردوں کے داخلے پر پابندی ہوتی ہے وہاں بچے اغوا کرنے والوں کو ہر ممکنہ سہولت فراہم کی جاتی ہے مگر ہسپتال کے ایئرکنڈیشنڈ کمرے میں بیٹھ کر انہیں نہ تو مریضوں کی کراہیں سنائی دیتی ہیں، نہ ان کا ذوق نفیس انہیں گندگی پر توجہ دینے کی اجازت دیتا ہے اور نہ وہ ڈاکٹروں سے بازپرس کرتے ہیں بہت سے تلخ حقائق  فی الحال اس کالم میں خوف فساد خلق سے بیان نہیں کئے جا رہے ہیں۔ تاہم میں ان رپورٹوں کو تحقیق و تفتیش کے لئے برادرم آصف چوہدری کے سپرد کر رہا ہوں۔یہ ہسپتال حکومت کے لئے ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے۔

مزید :

رائے -کالم -