خدا خیر کرے……
ان دنوں ملکی حالات کا جائزہ لیا جائے تو یہ سوال پھَن پھیلائے سامنے کھڑا ملتا ہے کیا ہم جمہوریت کے قابل ہیں؟
شاعر مشرق علامہ اقبال نے کہا تھا کہ
جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم صرف اور صرف اپنے مفاد کے غلام ہیں اگر گنتی میں ہم آگے ہوں تو گنتی کا عمل شفاف ورنہ دھاندلی۔ جو لوگ ہمیں ووٹ دیں وہ تو بندے ہیں باقی انسانیت سے فرو تر۔ یہی رویہ ہمارا اداروں کے بارے میں ہے۔ اگر ملکی تحفظ کے ضامن ادارے ہماری پشت پر ہوں تو سب اچھا، اگر یہی ادارے ذرا فاصلہ کر لیں، غیر جانبداری اختیار کر لیں تو پیشہ ورانہ شناخت کھو کر حب الوطنی سے ہی خارج قرار دیئے جانے لگتے ہیں۔ کسی زمانے میں عدلیہ کا کردار شکوک و شبہات سے بالا تر سمجھا جاتا تھا۔ اس کے فیصلوں کو ہدف تنقید نہیں بنایا جاتا تھا مگر اب صورتحال مختلف ہے۔ فیصلہ ہمارے حق میں آ جائے تو حق سچ کی فتح قرار پاتا ہے ورنہ عدل و انصاف کے تقاضوں سے متصادم کہنے میں بھی کوئی عار نہیں۔ اگر کسی ایوان کا کوئی رکن کسی وجہ سے فلور کراس کر کے ہماری طرف آ جائے تو اس کا ضمیر جاگ جانے کا فتویٰ جاری کر دیا جاتا ہے اور اگر ہماری طرف کا کوئی بندہ دوسری طرف چلا جائے تو وہ آئین شکن، جمہوریت دشمن اور ضمیر فروش قرار پاتا ہے۔ اگر گنتی ہمارے حق میں آ رہی ہو تو اس کے لئے اختیار کردہ ہر حربہ جائز اور مثبت ہنر کا آئینہ دار ہے اگر ہمارے خلاف جا رہی ہو تو ہم سارا زور اسے ناکام بنانے پر لگا دیتے ہیں۔ اگر گنتی میں ہم کچھ حاصل نہ کر سکیں تو تکنیکی مہارتوں سے دوسرے کو کامرانی سے دور کرنے میں ذرا نہیں ہچکچاتے۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی اگر مروجہ نظام پر چلتے ہوئے ہمارے ارمان پورے ہو رہے ہوں تو نظام اعلیٰ و ارفع قرار پائے گا ورنہ اس نظام کا وجود ہی نا قابل قبول کہلائے گا اور اس کو بیخ بن سے نکلوانا عینِ ثواب ہوگا۔ ہمارے ہاں طویل تجربات کے بعد پارلیمانی نظام پر اتفاق ہوا۔ 1973ء کے آئین کی بنیاد اس نظام پر رکھی گئی۔ دو ایوانی (قومی اسمبلی اور سینٹ) متفقہ تجویز ہوئی اختیارات بالواسطہ طور پر منتخب وزیر اعظم کے حصے میں آئے۔ صدر مملکت کو ریاست کا علامتی سربراہ قرار دیا گیا۔ قومی و صوبائی اسمبلیاں براہ راست یا بلاواسطہ منتخب ہونے لگیں۔ سینٹ میں رکن کا انتخاب متعلقہ صوبائی اسمبلی سے ہونا قرار پایا۔ طویل غور و خوض اور بحث مباحثے کے بعد یہ آئین متفقہ طور پر وجود میں آیا تقریباً تمام اراکین نے اس پر دستخط کر کے اسے وطن عزیز کا دستور قرار دیا۔ ملکی نظام صدارتی سے پارلیمانی ہو گیا۔ صدر ذوالفقار علی بھٹو اسی اسمبلی سے منتخب ہو کر وزیر اعظم بن گئے۔ یہ پاکستان کا پہلا اور واحد آئین ہے جو نصف صدی سے لاگو ہے۔ اس میں وقت کے ساتھ ساتھ ترامیم ضرور ہوئیں مگر کسی فوجی آمر (جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف) نے بھی اسے منسوخ کرنے کی جرأت نہیں کی۔ عبوری اقدامات سے اپنا کام چلایا اور ملک پھر آئین کی پٹڑی پر آ گیا۔ اس کے تحت عوام اپنے ووٹ سے قومی اور صوبائی اسمبلیاں منتخب کرتے ہیں۔ یہ اسمبلیاں ایوان بالا، سینٹ، وزیر اعظم اور وزرائے اعلیٰ کا انتخاب کرتی ہیں جبکہ تمام اسمبلیاں اور سینٹ مل کر صدر مملکت منتخب کرتی ہیں۔ اسی نظام کے تحت ذوالفقار علی بھٹو، بینظیر بھٹو، نوازشریف، یوسف رضا گیلانی، عمران خان اور اب شہباز شریف وزیر اعظم بنے۔ اسی آئین میں منتخب صدر، وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ کو ہٹانے کے لئے ایک طریقہ کار دیا گیا ہے جو عدم اعتماد کہلاتا ہے۔ وزیراعظم اور وزیر اعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد کا طریقہ یکساں ہے البتہ صدر مملکت کو ہٹانے کا طریقہ مختلف ہے۔ ملکی تاریخ میں قبل ازیں کبھی کسی وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب نہیں ہوئی۔ دوبار پیش ضرور ہوئی تھی۔ مگر کامیاب نہ ہو سکی اب تیسری بار پیش ہوئی تو کامیاب ہو گئی۔ یہ چیز اس لحاظ سے تو اچھی نہیں کہ اس سے چلتے نظام میں خلل آتا ہے۔ تسلسل مجروح ہوتا ہے مگر کیا کیا جائے کہ دنیا بھر کی جمہوریتوں میں منتخب حکمرانوں کو قبل از وقت تبدیل کرنے کا یہی طریقہ رائج ہے۔ جمہوریت میں اعتماد ہی حکمرانی کی بنیاد ہے اگر کسی بھی مرحلے پر اعتماد متزلزل یا ختم ہو جائے تو حکمران حق حکمرانی کھو بیٹھتا ہے۔ صدر مملکت اگر محسوس کرے کہ وزیر اعظم ایوان کا اعتاد کھو بیٹھا ہے تو وہ اسے اعتماد کا ووٹ لینے کی ہدایات کر سکتا ہے۔ ناکامی کی صورت میں اسے کرسی چھوڑنی پڑ سکتی ہے، اسی طرح اگر ایوان کے اراکین کی اکثریت عدم اعتماد کر دے تب بھی وزیر اعظم اپنے منصب سے ہٹ جاتا ہے۔ اس بار یہی دوسرا طریقہ اختیار کیا گیا۔ اس میں تکنیکی رخنے ڈالنے کی کوشش کی گئی تو عدلیہ نے مداخلت کر کے عمل مکمل ہونے کی راہ ہموار کر دی۔ یہ تو آئینی کارروائی تھی جو آئین کے مروجہ طریقوں کے مطابق تھی۔ مگر برسرِ زمین حقائق یہ ہو گئے ہیں کہ عوام کا بہت بڑا حصہ اس کارروائی اور اس کے نتیجے میں بننے والی حکومت کے حق میں دکھائی نہیں دیتا۔ اس کی مخالفت میں ہونے والے جلسوں میں شرکاء کی تعداد اور ان کا جوش و جذبہ بتا رہا ہے کہ ایوان کے اندر ہونے والے فیصلوں اور ایوان سے باہر پائے جانے والے جذبات میں ہم آہنگی نہیں ہے۔ ایک طرف عمرانی حمایت کے ریلے اسلام آباد کی جانب بڑھنے کو تیار ہیں تو دوسری طرف بجلی کی لوڈشیڈنگ، ڈیزل کی قلت اور روزمرہ اشیاء کی قیمتوں میں اضافے سے جنم لینے والے بحران ہیں جو نوزائیدہ حکومت کے لئے خطرے کی گھنٹی ہی نہیں تباہ کن سونامی کا انداز لئے ہوئے ہیں۔ ایک ہفتے میں ہی حکومت کے حلیف مولانافضل الرحمن نے عمران خان کے فوری انتخابات کے مطالبے کی حمایت کر دی ہے۔ وزیر اعظم میاں شہباز شریف بھی سوچتے ہوں گے کہ
دیکھا جو تیر کھا کے کمین گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی
اب دیکھیں کیا ہوتا ہے؟ نظام اپنے اندر سے ہی کوئی حل نکال لے تو نکال لے ورنہ حالات تو اچھے نہیں ہیں، خدا خیر کرے۔