لیگل ازم اور اشرافیہ 

لیگل ازم اور اشرافیہ 
لیگل ازم اور اشرافیہ 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

”لیگل ازم“ کا مطلب ہے کہ ہر حال میں قانون کی پاسداری کی جائے اور اِس تعریف سے ہر کوئی ہی واقف ہے۔ چین کے صدیوں پرانے چھ اہم مکاتب ِ فکر میں سے ایک لیگل ازم تھا۔ دو مشہور چینی فلاسفر اور سیاست دان شَن بو ہائی اور شانگ یانگ کو لیگل ازم کا بانی کہا جاتا ہے اور دونوں نے اپنے اپنے انداز سے لیگل ازم پر عملدرآمد کیا۔ چین کی سات اہم جنگجو ریاستیں (قی، وائے، قِن، ہان، یان، جاؤ اور چوؤ) کئی صدیوں سے آپس میں لڑ رہی تھیں، ہر ریاست میں محلاتی سازشوں سے لے کر چھوٹے چھوٹے قبیلوں کے درمیان لڑائی کے ساتھ ساتھ ریاست کے تمام درجوں میں ہر قسم کی برائی موجود تھی، اپنی اپنی سطح پر اشرافیہ من پسند افراد کے پیچھے چلتی اور اْن ہی کی بات کو قانون مانتی تھی۔ اِسی دوران شانگ یانگ نے ریاست ِ ”قِن“ میں سخت میرٹ پر مشتمل اصلاحات متعارف کرائیں، اشرافیہ اور عوام الناس کے لیے ایک ہی قانون لاگو کر دیا گیا۔ حکمران سے لیکر عام آدمی تک سبھی کو قانون کی ایک ہی لاٹھی سے ہانکا جانے لگا، اْس وقت کی باقی تمام ریاستوں کے لیے یہ نہ صرف اچھنبے کی بات تھی بلکہ اْنہوں نے تو اِن ریفارمز کو ظالم قانون کا نام دے دیا لیکن پھر ہوا یوں کہ ریاست قِن صرف دو دہائیوں کی قلیل مدت میں غربت سے نکل کر نہ صرف اپنے پاؤں پر کھڑی ہو گئی بلکہ باقی ماندہ مظبوط اور امیر ریاستوں کے مقابل کھڑی ہو گئی۔ سول انتظامیہ میں میرٹوکریسی کے ساتھ ساتھ بیورو کریسی کے نئے انتظامی درجے متعارف کرائے گئے، دنیا کے سامنے ایک نیا نظامِ حکومت آ گیا جس سے عام آدمی انتہائی خوش تھا کیونکہ اْس کی زندگی آسودہ ہو گئی لیکن اشرافیہ نالاں رہی، اْسے یہ نظام ایک آنکھ نہ بھایا۔ شانگ یانگ کی اصلاحات کی بدولت ریاست قِن مختصر وقت کے لیے ہی سہی لیکن باقی چھ ریاستوں پر غلبہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی اور صدیوں سے منتشر چین میں ایک راج یعنی ”قِن دور“ کا آغاز ہوا۔ شانگ یانگ کا اصل نام وائی یانگ تھا اور وہ ریاست ”وائے“ کی ایک ذیلی علاقائی حکومت کے حکمران گھرانے میں پیدا ہوئے۔

اْنہوں نے قانون کی تعلیم حاصل کی اور وہ وائے ریاست کے وزیراعظم کے ماتحت کام کرتے رہے۔ وائے چھوڑ کر وہ قِن  گئے اور وہاں کے ڈیوک کی مدد سے قِن کے چیف ایڈوائزر بن گئے۔ شانگ یانگ نے ایک غریب ریاست کو ریفارمز کے ذریعے فوجی لحاظ سے مضبوط اور مرکز کے ذریعے ایک قانون کے تحت چلائی جانے والی ریاست بنا دیا۔ بعد ازاں ایک موقع پر شانگ یانگ نے قِن ملٹری کی قیادت کرتے ہوئے وائے کو شکست دے دی، اْنہیں علاقہ شانگ کے 15 شہروں سے نوازنے کے ساتھ ساتھ ”لارڈ آف شانگ“ کا خطاب دیا گیا، جس کے بعد سے وہ وائی یانگ کی بجائے شانگ یانگ کے نام سے مشہور ہوگئے۔ شانگ یانگ نے وفاقی حکومت کا تصور، مظبوط ٹیکسوں کا نظام، ملٹری اور سول ریفارمز کے ساتھ ساتھ لینڈ ریفارمز بھی کیں اور ریاست میں غلامی کے تصور کو ختم کر کے غلاموں کو شہریت دی جس کی وجہ سے اشرافیہ اْنہیں دشمن سمجھنے لگی جبکہ عام آدمی اْن کے لیے ہر وقت جان دینے کو تیار رہتا۔ اْن کے خلاف اشرافیہ کی محلاتی سازشیں جاری رہیں لیکن قِن کے ڈیوک (سربراہ) کے اعتماد کی وجہ سے وہ بچے رہے۔ ڈیوک کے مرنے کے کچھ ہی عرصے بعد اْنہیں ایک معمولی سی لغزش پر سزا وار ٹہرا کر مار دیا گیا۔ شانگ یانگ نے مرتے دم تک ہر کسی سے قانون کی پاسداری کروائی، یہاں تک کہ ڈیوک اور اْس کا خاندان بھی قانون کا پابند تھا۔ خود بھی اِس حد تک قانون کی پاسداری کی کہ ایک آفیشل کو اْس کے معمولی سے جرم کی سزا نہ دینے پر قصوروار ٹہرائے گئے تو قید قبول کی اور موت کو گلے لگا لیا۔ریاست کے اُس وقت کے حکمران نے اْن کے عزت اور احترام میں کمی نہ آنے دی اور نہ ہی اْن کی ریفارمز کو ختم کیا باوجود اِس کے کہ وہ خود قانون توڑنے کی وجہ سے ایک دہائی سے زائد عرصے تک عام آدمی کی طرح انتہائی غربت میں زندگی گذارنے پر مجبور رہا، انتہائی صعوبتیں برداشت کرنے کے باوجود زندہ رہنے میں کامیاب ہوئے تو اْسے شانگ یانگ نے ہی ”قانونی کراؤن پرنس“ ہونے کی وجہ سے دوبارہ ڈھونڈ کر ڈیوک سے حکمرانی کے درجے پرفائز کروایا۔ کئی سال سزا کاٹنے والے اِسی حکمران کی اگلی نسل نے باقی تمام ریاستوں پر غلبہ حاصل کر کے قِن دورِ حکومت کی بنیاد رکھی۔ شانگ یانگ کے ہم عصر اور لیگلسٹ شَن بو ہائی نے ریاست ”ہان“ میں شانگ یانگ کی ریفارمز میں مزید بہتری لا کر اْنہیں اپنایا اور مستقبل میں ایک وقت آیا کہ ہان نے چین کی اْن تمام ریاستوں پر راج کیا۔ شَن بونے  15 سال تک ہان ریاست کے چانسلر کے طور پر کام کیا اور ہان ڈائینیسٹی کی بنیاد رکھی۔ ہان نے کئی نسلوں تک چین پر راج کیا اور بڑے تجارتی روٹ کی تعمیر کی، جو شاہراہ ریشم کے نام سے مشہور ہے۔


سپرپاور کی دوڑ میں شامل چین کے پیچھے برصغیر میں مغلوں کے دور کی طرح کئی صدیوں پر محیط کئی ادوار ہیں اور اِس دوران پیدا ہونے والے ہزاروں ہیروز کی ہوشربا داستانیں ہیں تاہم قانون اور اْس کے ارتقا کا عمل صدیوں تک جاری رہا، اْس میں اْتار چڑھاؤ آتے رہے، خرابی کے ساتھ بہتری کی کوششیں بھی کی جاتی رہیں۔ شانگ یانگ کی قانون سے محبت نے چین کے کئی ادوار کو جِلا بخشی اور دنیا کو سبق دیا کہ قانون کی پاسداری کے ذریعے ہی قومیں ترقی کا سفر کرتی ہیں، اِس کی عمل داری لازم ہے چاہے اپنی جان ہی کیوں نہ گنوانی پڑے۔ پاکستان میں بھی اِس وقت قانون اور عدلیہ ہی زیر بحث ہیں۔ کسی کو از خود نوٹس لیے جانے پر اعتراض ہے تو کوئی اِسے اپنی اور ملک کی بقاء سے منسوب کر رہا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جسٹس منیر سے لے کر نوے کی دہائی میں سپریم کورٹ پر حملے کی کہانیوں تک اور ڈکٹیٹر پرویز مشرف کی ایمرجنسی کے بعد سے لیکر وزرائے اعظم گھر بھجوائے جانے تک ہمارے ہاں وہ سب نہ جانے کتنی ہی بار ہو چکا جسے ملکی سلامتی اور بقا سے منسوب کیا جاتا رہا ہے۔ ہمارے ہاں اپوزیشن کا ”سافٹ ویئر“ بھی راتوں رات بدل جاتا ہے، اپوزیشن حکومت میں آتے ہی وہ سب بھول جاتی ہے جس کا اسے بطور اپوزیشن سامنا رہا ہو۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ مسئلہ کسی ایک سیاسی جماعت کے ساتھ نہیں ہے بلکہ لگ بھگ ہر اہم سیاسی جماعت نے اِس ملک پر کسی نہ کسی صورت میں حکومت کی اور سب  کے سب نے یہی کچھ کیا،اب تویہ سمجھ نہیں آتا کہ اصل میں خرابی ہے کہاں، حکمرانوں میں یا ہمارے نظام میں یا پھر شاید دونوں ہی ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔

اہل ِ سیاست اسی خرابی کی اصلاح کی دہائیاں دے کر، واویلا  مچا کر اور پراپیگنڈا کر کے عوام کے جذبات سے کھیلتے ہیں، انہیں بیوقوف بناتے ہیں اور حکومت میں آتے ہی بھول جاتے ہیں۔ ویسے تو ہر جماعت کوحکومت میں آ کر اپنی مرضی کا سب کچھ یاد رہتا ہے لیکن جو ایک چیز بھول جاتی ہے وہ ہے منشور، جسے انتخابات سے پہلے پورے جوش و خروش سے مرتب کیا جاتا ہے، خشوع و خضوع سے عوام کے سامنے رکھا جاتا ہے، وعدے کئے جاتے ہیں، عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکی جاتی ہے۔ المیہ تو یہ ہے کہ اکثر سیاسی جماعتوں کا ایک ہی وطیرہ ہے، انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ وہ کوئی نہ کوئی کہانی گھڑ کر عوام کی حمایت حاصل کرنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں اور مصیبت تو یہ ہے کہ عوام اْن کے دام میں آ بھی جاتے ہیں، وہ جان کر بھی اِس بات کو سمجھنے کو تیار نہیں کہ ہمارے ہاں سیاسی جدو جہد عوام کے لیے اشرافیہ سے جنگ نہیں بلکہ عوام کو لوٹنے والی اشرافیہ میں شامل ہونے کی دوڑ ہے، جو کوئی بھی جیت کر اْس پار جانے میں کامیاب ہو جاتا ہے وہ حکمرانی اپنا حق سمجھتا ہے اور پھرعوام کے ساتھ وہی سلوک کرتا ہے جو کوئی بھی آقا اپنی خادمہ کے ساتھ کرتا ہے۔ آج کل توویسے بھی آڈیو لیکس کا دور دورہ ہے، ساس، بہو اور سہیلیوں کی کہانیاں زبان زدِعام ہے، لگ بھگ سب کا ہی اندر باہر عیاں ہے، کوئی اپنے ہی بیانات میں الجھ رہا ہے، قول و فعل کے تضاد کا شکار ہے تو کسی کے کچھے چٹھے کھولنے کے لیے آڈیو اور ویڈیوز کا سہارا لیا جا رہا ہے لیکن حیران کن امر یہ ہے کہ عوام کواپنے من پسند رہنما پر اندھا اعتماد ہے، وہ اِس کی اندھی تقلید میں مصروف ہیں، عقل یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ اشرافیہ کی عیاری زیادہ کارآمد ہے یا خادمہ کا بھول پن۔ عوام کی معصومیت کے تو کیا کہنے، حقیقت دیکھنا نہیں چاہتے مفروضوں پر زندگی گزارنا چاہتے ہیں اور ترقی، خوشحالی، آسودگی کے بھی خواہش مند ہیں۔


 نوے کی دہائی میں بھی ایک حکومت گراؤ، دوسری بناؤ کا کھیل کھیلا جاتا رہا، پھر مشرف کا ایک دہائی پر محیط آمرانہ دور آ گیا،اِس کے بعد کے دومختلف ادوار میں دو وزرائے اعظم مدت پوری ہونے سے قبل ہی گھر بھیج دیے گئے، آئندہ کا دس سالہ پروگرام فیل ہوا تو تمام سیاسی جماعتوں کو کسی نہ کسی شکل میں حکومت دے کر عوام کے سروں پر مسلط کر دیا گیا۔ بھلا ہو عمران خان صاحب کا جن کے بقول وہ کسی کے بہکاوے میں نہ آتے تو دو صوبوں میں آج بھی اْن کا راج ہوتا۔ اچھنبے کی بات تو یہ ہے کہ آقا اپنی عوام کو یقین دلا رہے ہیں کہ وہ اْن پر اپنا اپنا سیاسی اثاثہ لٹارہے ہیں ہیں، اپنی کمائی اْن پر نچھاور کر رہا ہے، اْنہیں تو اِس ”آقائی“ کا نقصان ہی نقصان ہے، بھاری قیمت چکانی پڑ رہی ہے۔ جانے وہ کیسی حکومتیں ہوتی ہوں گی اور کیسے حکمران جو عوام کے فائدے کے لیے مسلسل اپنا نقصان کیے جاتے ہوں لیکن وہ اور اْن کے خاندان پہلے سے بہتر پوزیشن میں ہیں اور وہ خود بھی آقاؤں کی فہرست میں بدستور موجود ہیں جبکہ خادمہ بیچاری کبھی کسی کے در تو کبھی کسی کے در بلکہ شاید ہمیشہ ہی سے”در بدر“۔

مزید :

رائے -کالم -