بھارتی جارحیت کیخلاف متفقہ قرارداد منظور
چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی کے زیر صدارت سینیٹ کے اجلاس میں بھارتی جارحیت کے خلاف متفقہ قرارداد منظور کرلی گئی۔اِس میں پاکستان کو پہلگام واقعے سے جوڑنے کی مذمت کی گئی اور کہا گیا کہ پاکستان پر کسی حملے کی صورت میں منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔یہ قرارداد نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ سحاق ڈار نے پیش کی۔اُن کا کہنا تھا کہ تمام پارلیمانی جماعتیں اِس معاملے میں ایک صفحے پر ہیں، قرارداد کے متن کا مسودہ اپوزیشن لیڈر کے ساتھ مل کر تیار کیا گیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے وقفہ سوالات ملتوی کرنے کی تحریک پیش کی جسے ایوان نے متفقہ طور پر منظور کر لیا،انہوں نے ایوان کو پہلگام حملے کے بعد بھارتی جارحیت کے حوالے سے منعقدہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے فیصلوں سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ بھارت نے اٹاری بارڈر بند کیاجس کے جواب میں پاکستان نے فوری طور پر واہگہ بارڈر کو بند کر دیا ہے، سارک ویزا سکیم کے تحت پاکستان میں موجود بھارتی شہریوں کو 48 گھنٹے میں ملک چھوڑنے کا حکم دے دیا گیا ہے تاہم سکھ یاتریوں کو اِس سے استثنیٰ حاصل ہے، پاکستان نے بھارت کے لئے ہر قسم کی فضائی حدود بند کر دی ہیں،بھارتی دفاعی اتاشیوں کو ناپسندیدہ شخصیت قرار دیتے ہوئے 30 اپریل تک واپس جانے کا حکم دے دیا گیا ہے،بھارت نے پاکستانی قونصل خانے کے عملے کو 30 تک محدود کیا تو پاکستان نے بھی بھارتی قونصل خانے کے عملے کی تعداد 55 سے30 کر دی ہے۔اُنہوں نے ایوان کو بتایا کہ بھارتی اقدامات کے جواب میں پاکستان نے دو اضافی اقدامات کیے ہیں، بھارت کے ساتھ ہر قسم کی تجارت فوری طور پر بند کر دی گئی ہے، کوئی تیسرا ملک بھی پاکستان کے راستے بھارت سے تجارت نہیں کر سکتا اور تمام بھارتی ائیرلائنوں کے لئے بھی فضائی حدود بند کر دی گئی ہے جس سے بھارتی پروازوں کو نہ صرف دو گھنٹے کی اضافی مسافت طے کرنا ہو گی بلکہ اِس کی لاگت میں بھی اضافہ ہو گا۔ اپنے خطاب میں اسحاق ڈار کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کے بھارتی فیصلے کو مسترد کرتا ہے، پانی کی بندش کو اعلانِ جنگ سمجھا جائے گا، پانی 24 کروڑ پاکستانی عوام کی لائف لائن ہے، پیشگوئیاں ہیں کہ مستقبل کی جنگیں پانی پر ہوں گی۔ سفارتی محاذ سے متعلق اُن کا کہنا تھا کہ 26 ممالک کے سفراء کو دفتر خارجہ میں پاک۔بھارت تنازعے پر بریفنگ دی گئی جبکہ باقی ممالک کو بھی بریف کر دیا جائے گا۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ پاکستان ہر لحاظ سے تیار ہے، اِس کی مسلح افواج ہر قسم کی کارروائی کے لئے تیار ہیں، اگر کسی نے میلی آنکھ سے دیکھا کو اُسے ویسا ہی جواب دیا جائے گا جیسا پہلے دیا گیا تھا۔ اسحاق ڈار نے ایوان کو یہ بھی بتایا کہ موجودہ صورتحال کے پیش ِ نظر اُنہوں نے اپنا دورہ ڈھاکہ منسوخ کر دیا ہے، وہ گزشتہ ہفتے کیے گئے دورہ افغانستان سے بھی ایوان کو آگاہ کریں گے تاہم وہ بتانا چاہتے ہیں کہ افغانستان میں کھڑے ہوکر افغان ہم منصب امیر خان متقی کو باور کرایا ہے کہ دونوں ممالک کی سر زمین ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہیں ہونی چاہئے۔ قائد ِ حزبِ اختلاف سینیٹر شبلی فراز نے اِس موقع پر کہا کہ قرارداد کو منظور کرنا ہمارا فرض تھا، موجودہ صورتحال میں سب کو اکٹھا ہونا چاہئے،بھارت نے ہمیشہ پاکستان سے دشمنی کی ہے۔ پیپلزپارٹی کی سینیٹر شیری رحمان نے پہلگام حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اِس واقعے کی ذمہ داری بھارت کی اپنی سکیورٹی پر عائد ہوتی ہے، بھارت کو اپنی ناکامیوں کا ملبہ دوسروں پر ڈالنے کے بجائے اپنے داخلی مسائل کا سنجیدگی سے جائزہ لینا چاہئے، متفقہ قرارداد اِس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستانی قوم دہشت گردی کے خلاف یک زبان ہے۔ دریں اثناء اقوامِ متحدہ کے ترجمان نے جمعرات کو نیویارک میں صحافیوں سے کہا کہ وہ دونوں حکومتوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ زیادہ سے زیادہ احتیاط برتیں اور صورتحال کو مزید نہ بگڑنے دیں۔امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس نے پریس بریفنگ کے دوران پہلگام واقعے کی شدید مذمت کی اور کہا کہ امریکہ اِس مشکل وقت میں بھارت کے ساتھ کھڑا ہے تاہم اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ اِس حساس وقت میں امریکہ انتہائی محتاط ہے، کسی بھی فریق کی حمایت یا مخالفت کا اعلان نہیں کیا جا سکتا، پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری صورتحال کو امریکہ بہت قریب سے دیکھ رہا ہے اور دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ یاد رہے کہ سندھ طاس معاہدے کے تحت انڈیا کو بیاس، راوی اور دریائے ستلج کے پانی پر جبکہ پاکستان کو تین مغربی دریاؤں سندھ، چناب اور جہلم کے پانی پر اختیار دیا گیا تھا تاہم اِن تینوں دریاؤں (سندھ، چناب، جہلم) کے بھی 20 فیصد پانی پر انڈیا کا حق ہے۔ بی بی سی اُردو کی ایک رپورٹ کے مطابق سندھ طاس معاہدے کے تحت کم از کم سال میں ایک مرتبہ دونوں ممالک کے واٹر کمشنرز کا اجلاس، دریاؤں میں پانی کے بہاؤ کی ڈیٹا شیئرنگ اور دونوں اطراف دریاؤں پر جاری پراجیکٹس پر دوسرے ممالک کی معائنہ ٹیموں کے دورے کرنا شامل ہے۔بھارت گزشہ چار برس سے واٹر کمشنرز کا سالانہ اجلاس منعقد نہیں کر رہا،دریاؤں میں پانی کا ڈیٹا بھی 30 سے 40 فیصد ہی فراہم کر رہا ہے تو ایک طرح سے وہ اس سے روگردانی تو کر ہی رہا تھا۔
المیہ یہ ہے کہ بھارت کا تو یہ وتیرہ رہا ہے، چند برس قبل بھی اس نے پلوامہ حملے کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہراتے ہوئے فضائی حددود بند کر دی تھیں،انڈین فضائیہ کے جنگی طیاروں نے پاکستان کے علاقے بالا کوٹ میں بمباری بھی کی،اِس دوران انڈین ائیر فورس کا ایک طیارہ پاک ایئر فورس کے شاہینوں نے مار گرایا اور اس کا پائلٹ ابھی نندن پکڑا گیا تھا، جسے بعد میں جذبہ خیر سگالی کے تحت چھوڑ دیا گیا تھا، دوسرا طیارہ ہٹ ہو کر بھارتی علاقے میں گرا،اب بھی بھارت کے اندرونی حلقے حکومت سے ہی جواب مانگ رہے ہیں، کانگریس نے تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے، وہاں پر سکیورٹی نہ ہونے پر سوالات اُٹھا رہے ہیں۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ حملے کے صرف تیس منٹ بعد ہی سوشل میڈیا پر پاکستان کے خلاف تحریک شروع کر دی گئی۔ اب بھارتی کرکٹ بورڈ نے پاکستان کے ساتھ نہ کھیلنے کا اعلان بھی کر دیا ہے۔ یہ سب تو بھارت کا رچایا ڈرامہ ہی معلوم ہو رہا ہے، حملہ ہوا، کوئی تحقیقات نہیں ہوئیں، سیدھا پاکستان پر الزام دھر کر فیصلہ بھی سنا دیا گیا۔جتنی آسانی سے اُس نے سندھ طاس معاہدہ معطل کر دیا ہے یہ اتنا آسان کام نہیں ہے، ورلڈ بینک اِس کا ضمانتی ہے۔بھارت کو سیاسی سمجھ بوجھ سے کام لینا چاہئے، ایک ریاست کے انتخابات جیتنے کے لئے وہ کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے۔خوش آئند بات یہ ہے کہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں اِس محاذ پر متحد ہیں اور یہ قرارداد اِس کی عکاسی کرتی ہے۔ پاکستان تو عالمی پلیٹ فارمز پر ثبوت پیش کر چکا ہے کہ یہاں ہونے والی دہشت گردی کی وارداتوں میں بھارت کا ہاتھ ہے، بہت سے دوسرے ممالک میں بھی بھارت لوگوں کا قتل کر چکا ہے۔بھارت کو پاکستان کے خلاف بے بنیاد پراپیگنڈہ سے پرہیز کرنا چاہئے ورنہ اِسے منہ کی کھانی پڑے گی۔