ٹریفک کے کچھ مزید مسائل

چند روز پہلے یہ سُن کر بڑی خوشی ہوئی کہ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے تجاوزات کو مستقل بنیادوں پر ختم کرنے کا حکم دیا ہے۔ انہوں نے تمام بڑے شہروں میں انڈر پاسز کے اطراف اور اوورہیڈ برجز کے نیچے گرین بیلٹ بنانے کا حکم دیا،اوورہیڈ برجز اور انڈر پاسز کی بیوٹیفکیشن کی ہدایت کی،تعلیمی اداروں کے سامنے کی سڑکوں پر زبیرا کراسنگ کے ساتھ کیٹ آئیز لگانے کا حکم دیا۔وزیراعلیٰ نے مین ہولز پر پلاسٹک سے بنے ڈھکن لگانے‘ بڑے شہروں میں ماڈل ریڑھی بازاروں کی تعداد بڑھانے کا حکم دیا اور کہا کہ گلی محلوں کی سڑکوں پر گڑھے نظر نہیں آنا چاہئیں اگر مندرجہ بالا سبھی احکامات پر عمل درآمد ہو جائے تو میں پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ پنجاب کے شہر شیشے کی طرح چمکنے لگیں۔
وزیراعلیٰ صاحبہ نے جو احکامات جاری کیے،وہ دراصل صوبائی اور شہری انتظامیہ کی بنیادی ذمہ داریوں اور فرائض میں شمار ہوتے ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جن معاملات کی طرف وزیراعلیٰ صاحبہ نے توجہ دلائی ہے وہ ان کے توجہ دلائے جانے سے پہلے ہی ایک خود کار طریقے سے از خود ہو جانا چاہئیں،لیکن ہمارے ملک اور ہمارے صوبے میں فرائض کی ادائیگی کے حوالے سے ہمارے افسروں کا جو طرزِ عمل ہے اس سے سبھی واقف اور آگاہ ہیں۔ مسائل سامنے نظر آتے ہیں۔ عوام اور میڈیا کی جانب سے ان کی نشاندہی بھی کی جاتی ہے، لیکن مجال ہے کہ ان میں سے کسی کے کان پر جوں تک بھی رینگے۔ بہرحال اب اگر وزیراعلیٰ صاحبہ نے احکامات جاری کیے ہیں تو دُعا کرنی چاہئے کہ ان پر ہی عمل درآمد ہو جائے۔ دعا کی ضرورت اس لئے ہے کہ ہمارے کچھ افسر حکمرانوں کے احکامات کو کچھ زیادہ لفٹ نہیں کراتے۔ صورت حال یہ ہے کہ ایک مسئلے کی طرف توجہ دی جائے تو اس میں سے ہزار دوسرے مسائل نکل آتے ہیں۔ قومی ترقی اور عوامی بہبود کے معاملات پر مسلسل توجہ نہ دیے جانے کا نتیجہ یہ ہے کہ آج آزادی کے77سال بعد بھی پاکستان کے عوام زندگی کی بنیادی ترین سہولتوں سے محروم ہیں۔
اپنے پچھلے کسی پچھلے کالم میں فیروز پور روڈ پر ایس او ایس ولیج کے پاس ایک سکول کے باہر والی سڑک کی نشاندہی کی تھی جو بمشکل تیس چالیس فٹ چوڑی ہو گی اور جہاں سے کوٹ لکھپت اور انڈسٹریل ایریا سے دو رویہ مولانا شوکت علی روڈ کے ذریعے آنے والی تمام تر ٹریفک کو گزارنے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ یہ خوشی کی بات ہے کہ اس سڑک کو کشادہ کرنے کے منصوبے پر کام شروع ہو چکا ہے‘ اور توقع ہے کہ اس پوری سڑک کو دو رویہ بنایا جائے گا تاکہ یہاں پر ٹریفک بلاک رہنے کا سلسلہ ختم ہو جائے، لیکن مسئلہ یہیں ختم نہیں ہو جاتا، اسی ایس او ایس ولیج سے تھوڑا سا آگے جائیں تو جن دو رویہ سڑکوں کی میں نے بات کی، ان کی ایک سائیڈ والی سڑک پر گاڑیاں کھڑی ہوتی ہیں اور دوسری سائیڈ والی سڑک پر جہاں پہ ماڈل ٹاؤن کچہری ہے،وہاں پر سائیکل سٹینڈ پر موٹر سائیکلوں کی بھرمار ہوتی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس سے چند گز کے فاصلے پر اسسٹنٹ کمشنر ماڈل ٹاؤن کا دفتر ہے، شاید انہوں نے کبھی توجہ نہیں دی کہ اس سائیکل سٹینڈ کی وجہ سے ٹریفک کا بہاؤ کتنا متاثر ہوتا ہے۔ عین سڑک کے اوپر سائیکل سٹینڈ کون بناتا ہے؟ ویسے تو طریقہ یہ ہے کہ سڑک پر غلط جگہ پارک کی گئی گاڑی کو متعلقہ محکمے والے اُٹھا کر لے جاتے ہیں اور جرمانہ ادا کیے بنا نہیں چھوڑتے، لیکن حیرت ہوتی ہے کہ اسی سڑک پر بنے سائیکل سٹینڈ کی طرف کبھی کسی کی توجہ نہیں گئی۔یہ صرف محض ماڈل ٹاؤن کچہری کا معاملہ نہیں ہے، لاہور میں اور بھی بہت سے علاقے ہیں اور محض لاہور ہی نہیں یہ تو پنجاب کے تقریباً ہر شہر اور قصبے کا مسئلہ ہے۔
اب لاہور کے کچھ علاقوں میں کچھ خاص نوعیت کی گاڑیوں کا داخلہ بند کیا گیا ہے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق لاہور میں عوام کی حفاظت کے لئے ماڈل روڈ سمیت مختلف اہم سڑکوں پر لوڈر رکشوں کا داخلہ بند کر دیا گیا۔ چیف ٹریفک آفیسر عمارہ اطہر نے بتایا ہے کہ مال روڈ، جیل روڈ، کینال روڈ، مین بلیوارڈ گلبرگ اور کینٹ میں لوڈر رکشوں کا داخلہ ممنوع قرار دیا گیا ہے۔آہنی سامان سے لدے رکشوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ انتہائی خطرناک ہے، لہٰذا آہنی راڈ، سریا، ٹی آئرن اور دیگر سامان باڈی سے باہر لوڈ ہوا تو چالان اور مقدمہ ہو گا۔ انسانی جانوں کے تحفظ پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو گا، ڈرائیور کے ساتھ ساتھ رکشہ مالک کو بھی ایف آئی آر میں نامزد کیا جائے گا۔ اوور لوڈنگ کرنے والوں کے لائسنس بھی منسوخ کیے جائیں گے۔ یہ سارے اچھے اقدامات ہیں،جن کے مثبت نتائج کے بارے میں دو آرا نہیں ہو سکتیں، لیکن میں چیف ٹریفک آفیسر کی توجہ ٹریفک کے حوالے سے ہی کچھ اور ایشوز کی طرف دلانا چاہتا ہوں۔ ٹریفک کو جس طرح سے کنٹرول کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے وہی دراصل ٹریفک کے مسائل بڑھانے کا باعث ہے۔ ٹریفک پولیس والوں کا سارا زور ہیلمٹ پر اور اس بات پر ہوتا ہے کہ گاڑی کی سیٹ بیلٹ باندھی ہے یا نہیں اور گاڑی کے شیشے کالے ہیں یا ٹرانس پیرنٹ۔ یہ لوگ بس اسی کام پر لگے رہتے ہیں اور دوسری طرف لوگ ٹریفک کے اشارے توڑتے ہیں یا جو ون وے کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ یہ خطرناک صورت حال ہے جس پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ٹھیک ہے ہیلمٹ کی پابندی یقینی بنانا بھی ضروری ہے کہ یہ بھی قیمتی انسانی جانوں کا معاملہ ہے، سیٹ بیلٹ پر عمل درآمد کرانا بھی لازم ہے، لیکن صرف یہی دو مسائل نہیں ہیں‘ ٹریفک کے بارے میں اور بھی مسائل ہیں جن پر توجہ دینا انہی ٹریفک وارڈنز کی ذمہ داری اور ڈیوٹی ہے۔ براہِ کرم انہیں یہ ڈیوٹی پوری کرنے کی بھی ہدایت کی جائے۔
ایک اور مسئلہ ٹول پلازوں پر لگی لمبی لمبی قطاریں ہیں جو بعض اوقات کئی کئی کلومیٹر طویل ہو جاتی ہیں۔ان قطاروں کی وجہ سے ایک تو سفر کرنے والوں کو تکلیف دہ انتظار کی زحمت اٹھانا پڑتی ہے، دوسرے سفر کی ساری Excitement ختم ہو جاتی ہے۔ یہ صورت حال سیالکوٹ لاہور انٹرچینج ٹول پلازہ پر سب سے زیادہ مشاہدے میں آتی ہے۔ ایک طرف حکومت ٹیکسز کے اہداف پورے نہ ہونے کا گلہ کرتی ہے، لیکن جہاں سے ریونیو اکٹھا ہو سکتا ہے، وہاں یہ حالات پائے جاتے ہیں۔ لوگوں کو ان طویل قطاروں سے بڑی تنگی ہوتی ہے۔ اربابِ بست و کشاد سے گزارش ہے کہ اس تنگی کو ختم کرنے کے لئے اقدامات کیے جائیں۔
٭٭٭٭٭