بنگلہ دیش میں بلدیاتی انتخابات

بنگلہ دیش میں بلدیاتی انتخابات
بنگلہ دیش میں بلدیاتی انتخابات
کیپشن: hafiz

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


اس وقت بنگلہ دیش میں بلدیاتی انتخابات کا عمل شروع ہوگیا ہے۔ ان غیر جماعتی انتخابات میں دل چسپ حقائق سامنے آرہے ہیں۔ بنگلہ دیش میں گزشتہ عام انتخابات میں اپوزیشن پارٹیوں کے اتحاد نے حسینہ واجد کی سینہ زوری اور غیرجانب دار عبوری حکومت کے قیام سے انکار کی وجہ سے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا۔ حسینہ واجد نے یک طرفہ ٹریفک چلا کر پورے ملک بلکہ تمام عالمی اداروں کے احتجاج کے باوجود اپنی حکومت قائم کرلی۔ اس حکومت کو بنگلہ دیشی عوام نے اب تک تسلیم نہیں کیا۔ بنگلہ دیش میں بلدیاتی انتخابات کا بڑا لمبا پروسیجر ہوتا ہے۔ سردست تحصیلی سطح پر بلدیاتی انتخابات کا آغاز 19 فروری سے ہوگیا ہے۔ یہ انتخابات بظاہر غیرسیاسی ہوتے ہیں مگر عملاً ان میں حصہ لینے والے امیدواران سیاسی پارٹیوں ہی سے متعلق لوگ ہوتے ہیں۔ جب بنگلہ دیش پاکستان سے الگ ہوا تو اس کے 17 اضلاع تھے۔ اب بنگلہ دیش میں 64 اضلاع ہیں اور 500 کے لگ بھگ تحصیلیں ہیں۔ انھیں سب ڈسٹرکٹ یا اُوپا ضلع (Upazila) کہا جاتا ہے۔

500 تحصیلوں میں پانچ مرحلوں میں انتخابات مکمل ہوں گے۔ پہلے مرحلے میں 102 تحصیلوں میں انتخابات ہونے تھے۔ پانچ چھ تحصیلوں میں مختلف وجوہات سے انتخابات منعقد نہ ہوسکے۔ باقی 97 یا 96 تحصیلوں میں یہ 19 فروری کو منعقد ہوچکے ہیں۔ ان انتخابات میں براہِ راست انتخاب کے ذریعے ہر تحصیل کا چیئرمین اور دو وائس چیئرمین منتخب کیے جاتے ہیں۔ وائس چیئرمینوں میں ایک مرد اور ایک عورت کا انتخاب ہوتا ہے۔ چونکہ یہ انتخابات غیرسیاسی ہیں اور سابقہ زمانے کے متفقہ ضوابط کے مطابق یہ منعقد ہورہے ہیں، اس لئے سب پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے امیدواران ان میں حصہ لے رہے ہیں۔ ان 97 بلدیاتی کونسلوں کے نتائج جو سامنے آئے ہیں الیکشن کمیشن نے ان کا اعلان کردیا ہے۔ ان کی تفصیلات درج ذیل ہیں۔
خالدہ ضیاءکی BNP ملک کی سب سے بڑی پارٹی ہے۔ اس کے 43 چیئرمین،32 مرد وائس چیئرمین اور 34خواتین وائس چیئرپرسن منتخب ہوئیں۔ دوسرے نمبر پر عوامی لیگ ہے، جس کی حاصل کردہ سیٹوں کے بارے میں ہر شخص سوچ رہا ہے کہ یہ بدترین دھاندلی کے نتیجے ہی میں حاصل گئی ہیں ورنہ عوامی لیگ کا سیاسی اور عوامی گراف اس وقت بہت نیچے ہے۔ نتائج کے مطابق عوامی لیگ کے 34چیئرمین، 24مرد وائس چیئرمین اور 34خواتین وائس چیئرپرسن منتخب قرار دی گئی ہیں۔ تیسرے نمبر پر جماعت اسلامی ہے جس کے چیئرمینوں کی تعداد 13، مرد وائس چیئرمین23 اور خواتین 10ہیں۔ سابق صدر ارشاد محمد حسین کی جاتیو پارٹی کو ایک چیئرمین، تین وائس چیئرمین مرد اور ایک خاتون کی نشستوں پر کامیابی ملی ہے۔ باقی پانچ چیئرمین غیرجانب دار اور غیرسیاسی لوگ ہیں۔
پہلے مرحلے میں بوجوہ جن تحصیلوں میں انتخاب منعقد نہ ہوسکے، ان میں 24 فروری کو انتخاب کرائے گئے۔ ان تحصیلوں میں سے ایک پیرگنج بھی تھی، جو حسینہ واجد کے انتخابی حلقے کا حصہ ہے۔ یہاں کانٹے دار مقابلہ تھا۔ عوامی لیگ کا امیدوار برائے چیئرمین ساری دھاندلی کے باوجود ستر ہزار ووٹ حاصل کرسکا، جب کہ اس کے مدمقابل BNP کے امیدوار نے چوہتر ہزار ووٹ لے کر یہ نشست جیت لی۔ اس دوران BNP کے عہدیداران نے ایک پریس کانفرنس میں جو ڈیلی نیو ایج (Daily New Age) میں چھپی ہے۔ اس خدشے کا اظہار کیا کہ اپنی شکست دیکھ کر عوامی لیگ حکومت اگلے مراحل میں انتخابی نتائج چرانے کا منصوبہ بنا چکی ہے۔ اگر ایسا کیا گیا تو ملک خانہ جنگی کی بدترین دلدل میں پھنس جائے گا، جو پہلے ہی شدید بحران کا شکار ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اپوزیشن اتحاد سے تعلق رکھنے والے امیدواروں کو پولیس گرفتار کرکے جیلوں میں ڈال رہی ہے جس کے خلاف اپوزیشن نے شدید احتجاج کیا ہے۔

الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ پہلے مرحلے میں مجموعی طور پر ووٹوں کا ٹرن آ¶ٹ تقریباً 60فیصد رہا ہے، جب کہ ان تحصیلوں کے گذشتہ انتخابات میں یہ ٹرن آ¶ٹ 68.32فیصد تھا۔ ایک عجیب بات یہ ہے کہ BNP سے تعلق رکھنے والے 17 امیدواروں نے آٹھ تحصیلوں کے اندر دھاندلی اور بے ضابطگی کے خلاف انتخاب کے بائیکاٹ کا اعلان کیا۔ اس کے باوجود ان میں سے تین کامیاب قرار پائے۔ جماعت اسلامی کے قائم مقام سیکرٹری جنرل ڈاکٹر شفیق الرحمن اور BNP کے سیکرٹری جنرل روح الکبیر رضوی نے اپنے الگ الگ اخباری بیانات اور پریس کانفرنسوں میں اخباری نمایندوں کو مختلف علاقوں کے واقعات بتاتے ہوئے کہا کہ ان انتخابات میں عوامی لیگ نے بے شمار جعلی ووٹ بھگتائے ہیں۔ اخباری نمایندوں نے تعجب ظاہر کیا کہ چیف الیکشن کمشنر مسٹر عبدالحفیظ اتنی ساری دھاندلی اور جعل سازی کے باوجود بہت مطمئن ہیں کہ انتخابات کا یہ مرحلہ مکمل ہوگیا ہے۔ عام لوگوں کو امید نہیں تھی کہ عوامی لیگ اتنی نشستیں حاصل کرلے گی۔ بہرحال یہ پہلا مرحلہ تھا۔ باقی کے چار مراحل بھی 28 مارچ تک مکمل ہونے ہیں۔ بنگلہ دیش میں سیاسی بحران اس وقت تک حل نہیں ہوسکتا جب تک ملکی انتخابات میں مسلمہ اور متفقہ قومی موقف کے مطابق غیرجانب دار عبوری حکومت کا قیام اور اس کے تحت انتخابات عام منعقد نہیں ہوتے۔

مزید :

کالم -