نجانے کس گلی میں زندگی کی شام ہوجائے!
ویسے تو نجانےکس وقت کس گلی،کس موڑ اور کس چوک پرزندگی کی شام ہوجائےمگرآج کل لاہورمیں کچھ زیادہ ہی ڈر لگتاہے،شاپنگ کرنےجائیں تو سانحہ انارکلی میں جلتے لوگ میری آنکھوں کے سامنے آجاتے ہیں اور رونگٹے کھڑےہوجاتے ہیں،لاہور پریس کلب جاکر صحافی بھائیوں کو ملنے کو دل کرے تو حسنین شاہ کا بے دردی سے قتل یادآجاتاہے،کیا کریں؟۔۔کہاں جائیں؟؟؟
امن وامان کی صورتحال ایک عرصے سے خاصی تسلی بخش تھی مگر نجانے زندہ دلوں کے شہر کو کس کی نظر لگ گئی ہے؟لاہور کاذکر ہواور انارکلی کا ذکر نہ ہو تو بھلا کیسےممکن ہےمگر اب جہاں کہیں بھی انارکلی کاذکرہوتاہےتو پھر سانحہ انارکلی کےمختلف پہلوؤں پربات چیت شروع ہوجاتی ہے،یہ کیفیت ،یہ صورتحال اس بازار کیساتھ ہی نہیں،جہاں کہیں بھی جائیں،رش کا یہی عالم ہےاورسیکیورٹی کی صورتحال پر کیا کچھ کہیں؟ہمیں اسی چیز کا ہی سامنا رہتاہےکہ جب کبھی کوئی ایسا واقعہ،کوئی سانحہ رونما ہوتاہے تو سیکیورٹی کےنام پربیرئیر لگ جاتےہیں جو سڑکوں پر ٹریفک کی روانی متاثر کرنےکےسوا کچھ سودمند ثابت ہوتےنظرنہیں آتے،منصوبہ بندی تو بہرحال میں نےیا آپ نےنہیں کرنی،یہ کام بہرحال سیکیورٹی اداروں کاہی ہےاور انہیں کو کرنا ہے۔
دوسری جانب اگر بات کریں نجی چینل کے کرائم رپورٹر حسنین شاہ قتل کی تو یہ انتہائی افسوسناک واقعہ ہےاور خاص طورپر شملہ پہاڑی پریس کلب جیسے حساس مقام پر یوں سرعام گولیوں سے کسی کو بھون دیناکئی سوالات کو جنم دیتاہے،شملہ پہاڑی کے گردونواح میں کئی میڈیا ہاؤسز اور کئی دیگر حساس مقامات ہیں،یعنی کہ یہاں سیکیورٹی کو بقدرے دیگر علاقوں کے زیادہ سخت ہونا چاہیے اور سیف سٹی کے کیمروں کی مانیٹرنگ دیگر علاقوں کی نسبت زیادہ ہونی چاہیے،ایسی صورتحال میں یہاں کسی شہری کو بلا خوف وخطر قتل کرکے فرارہوجانا ذو معنی سی بات لگتی ہے،کیا قاتل اتنے زیادہ طاقتور یا لمبے ہاتھوں والے ہیں کہ انہیں کسی بھی جگہ کسی شخص کو ماردینے سے کوئی ڈر نہیں؟تادم تحریر کچھ مشکوک ملزمان کو پکڑنے کی خبریں ہیں جبکہ پولیس کا دعوی ہے کہ وہ اصل قاتلوں تک پہنچ گئی ہے،اللہ کرے کہ لواحقین کو انصاف ملے اور حسسنین شاہ کے قاتلوں کو قرار واقعی سزاملے تاکہ آئندہ کسی کو جرات نہ ہو کہ وہ کسی معصوم کو یوں بے دردی سے ابدی نیند سلاسکیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ لاہور کی رونقیں بحال کرنے کیلئے سیکیورٹی ادارے اپنے اہلکاروں کو مزید الرٹ کریں،سیف سٹی کیمروں کی مانیٹرنگ سخت ترین ہو اور پٹرولنگ کرنے والے اہلکاروں کے فوری رسپانس اور قبل ازوقت معاملے کی نزاکت کو بھانپنے کی صلاحیت کو بڑھایاجائے تاکہ لاہور میں جرائم کی شرح کم کر کے امن وامان کو یقینی بنایاجاسکے اور انسان اس کیفیت سے باہر نکل سکے کہ نجانے کس گلی میں زندگی کی شام ہوجائے۔۔۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔