ایک تیر سے تین شکار
اسلام علیکم پارے پارے دوستوں سنائیں کیسے ہیں امید ہے کہ اچھے ہی ہونگے اور ہم بھی یقینا مزے میں ہیں اور آپ سے گپ شپ کے موڈ میں بھی ہیں اور اسی گپ شپ میں ہم آپ کو اپنے سفر کی داستان بھی سنائے دیتے ہیں جو کہ گزشتہ روز دن بھر کیا اور ایسا حسین و یادگار سفر تھا کہ صبح گیارہ بجے گھر سے بارہ بجے نکلے اور رات گئے ایک ڈیڑھ بجے لاہور واپسی ہوئی اور یہ بھی بتا دیں کہ ہمارے اس خوبصورت و حسین سے سفر میں ہمارے ہمسفر پیارے بھائی مہر جنید نعیم شاہ رمضان جٹ اور جناب اظہر مشتاق تھے صبح لاہور سے بارہ بجے کے قریب گھر سے نکلے اور گاڑی کی ڈراِئیونگ سیٹ ہم نے مہر جنید کے حوالے کر دی اور ہمارے سفر کرنے کا اصل مقصد جو تھا وہ علی پور چٹھہ میں احمد بھائی جو کہ تحصیل رپورٹر بھی ہیں اور طویل عرصہ سے روزنامہ یلغار کی ٹیم کا حصہ بھی ہیں اور احمد بھائی کی طرف سے خاصا دیر سے اصرار کیا جا رہا تھا کہ آپکو فش کھلائیں اور یقینا ہماری بھی خواہش تھی کہ جناب احمد بھائی کی طرف سے فش پارٹی کے مزے لئے جائیں لیکن وقت ہی نا نکل رہا تھا اور اتوار کو پروگرام بن ہی گیا اور لاہور سے مچھلی کھانے کے لئے ہی صبح بارہ بجے گھر سے روانہ ہوئے لیکن علی پور چٹھہ جانے سے قبل ماناوالہ پہنچنا تھا جہاں مہر جنید جو کہ روزنامہ سوہنا پاکستان چلا رہے ہیں اور سوہنا پاکستان کی اشاعت کے دس سال مکمل ہونے پہ مہر جنید کے اخبار کے نمائندے اسلم مغل کی جانب سے سالگرہ کا کیک کاٹنے کے لئے سادہ تقریب کا اہتمام کیا تھا جس میں ہمیں شرکت کرنی تھی اور براستہ موٹروے ہم شیخوپورہ پہنچے اور شہخوپورہ سے ماناوالہ پہنچے جہاں پر اسلم مغل رانا شاہد صادق۔ سلمان بخاری صاحب میاں صاحب اور پریس کلب ماناوالہ کے صدر اور انکے ساتھیوں نے ہمارا پرزور استقبال کیا پھولوں کی پتیاں نچھاور کی گلے میں ہار پہنائے اور پھر سوہنا پاکستان کی دسویں سالگرہ کا کیک کاٹا گیا اور کیک کاٹنے کے بعد مہر جنید کے ساتھ مل کے سوہنا پاکستان کے پنجاب بھر کے نمائندگان کو تعریفی اسناد پیش کی اور پھر تقریب کے اختتام پہ ہم نے اجازت لینی چاہی لیکن اسلم مغل کی طرف سے روک لیا گیا اور زبردستی قریبی ہوٹل میں پرتکلف لنچ کروایا پیٹ پوجا کرنے کے بعد مانولہ سے رخصت ہوئے کیونکہ ہم نے علی پور چٹھہ ہیڈ قادر آباد پہنچنا تھا جہاں احمد بھائی اور انکے ساتھی اور جناب طاہر محمود جو کہ انچارج نمائندگان ہیں ہمارے روں امہ یلغار کے وہ بھی ہمارا انتظار کر رہے تھے لیکن ہمیں دیر ہو رہی تھی اس لئے طاہر صاحب سے ملاقات نا ہو سکی بہر حال شیخوپورہ سے فاروق آباد پہنچے اور فاروق آ باد سے جی ٹی روڈ پہ خانقاں ڈوگراں سے ہوتے ہوئے حافظ آباد اور حافظ آ باد سے پوچھتے پوچھتے سوئیانوالہ پہنچ گئے اور وہاں کے مقامی افراد کی مدد سے ہم اہنی منزل مقصود پہ پہنچنے میں کامیاب ہو گئے جو کہ بھاگٹ مچھلی منڈی تھی جہاں پر احمد بھائی نے ہمارا استقبال کیا اور پہلے ہم نے مچھلی منڈی کا دورہ کیا جہاں پہ ہر طرف مچھلی کے ڈھیر لگے ہوئے تھے اور بڑی بڑی گاڑیوں میں مچھلی سپلائی کے لئے بھیجی جا رہی تھی احمد بھائی نے ہی بتایا کہ یہ بھاگٹ فش مارکیٹ عرصہ دراز بنی ہوئی ہے اور یہ بھی بتایا کہ دو سال سے نئی بلڈنگ بنا رہے ہیں اور نا صرف پاکستان بلکہ پاکستان سے باہر بھی مچھلی بھجوائی جاتی ہے اور یقینا صفائی کے انتظامات بھی بہت اچھے تھے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ فش مارکیٹ میں ابھی تعمیر کا کام جاری ہے دور سے آنے والے بیوپاری حضرات رات بھی گذار سکیں اور احمد نے ہی بتایا کہ پاکستان کی سب سے خوبصورت مسجد بھی تعمیر کی جارہی ہے جسکا نقشہ سعودی عرب سے بنوایا گیا ہے اور بھی بہت سی معلومات حاصل کی اور اسکے بعد ہماری تواضح فش پارٹی سے کی گئی اور جب ہم جناب احمد بھائی کی طرف سے دی گئی فش پارٹی کے مزے لے رہے تھے تو اسی دوران طاہر محمود آرائیں کا فون آ گیا کہ آپ نے واہسی پہ گوجرانوالہ سے جانا ہے تو رستے میں کامونکی جبار انصاری صاحب اور عرفان صاحب آپ کا انتظار کر رہے ہیں اور پیزا پارٹی کا عندیہ بھی دیا گیا لیکن تھکاوٹ اور فش پارٹی کے ذائقے کو برقرار رکھنا چاہتے تھے پہلے انکار کیا لیکن جب معلوم ہوا کہ جناب جبار انصاری صاحب دفتر کا افتتاح کروانا چاہ رہے ہیں تو ہم نے حامی بھر ہی لی کیونکہ رات گئے ہم نے لاہور پہنچنا تھا اس لئے سوچا کہ کامونکی. سے بھی ہوتے جائیں احمد بھائی سے اجازت لی اور جب ہم مچھلی منڈی سے روانہ ہوئے تو احمد نے ہمیں رستہ سمجھایا اور تقریبا آٹھ ساڑھے آٹھ بج چکے تھے اور وہاں سے نکلے تو تقریبا رات گیارہ ساڑھے گیارہ کامونکی پہنچے جہاں سڑک پہ جبار انصاری ہمارا انتظار کر رہے تھے وہ ہمیں لے کے اہنے دفتر پہنچے جہاں ہمارے پہنچنے سے پہلے ہی جبار انصاری نے فیتا لگا رکھا تھا جبکہ عرفان صاحب ہمارے نمائندے ہیں ہاتھ میں پلیٹ پکڑے کھڑے تھے اور پلیٹ میں پھولوں کی جیسے سیج سی بچھائی گئی ہو اور اس سیج پہ قینچی سجائی گئی تھی تاکہ ہم فیتا کاٹ کے جناب عبدالجبار کے دفتر کا افتتاح کر سکیں ہم نے قینچی اٹھائی اور مہر جنید رمضان جٹ نعیم شاہ اور اظہر مشتاق کے ساتھ مل کے فیتا کاٹا جس ہہ جناب جبار انصاری نے ہم پہ پھولوں کی پتیاں برسائیں اور مٹھائی کی جگہ ہماری فرمائش پہ منگوایا گیا پیزا ہمیں پیش کیا گیا اور چند لمحے ہنسنے کھیلنے کے بعد ہم نے جناب جبار انصاری۔ محمد عرفان اور انکے ساتھیوں سے اجازت لی اور لاہور کی طرف واپسی کا رخ کیا اور یقینا جی ٹی روڈ پہ سفر کرنا بھی بہت ہمت و صبر والوں کا کام ہے اور ہم بھی صبر و ہمت سے کام لیتے ہوئے رات ڈیڑھ سے دو بجے لاہو ر واپس پہنچے اور جنید صاحب اور نعیم شاہ موٹر سائیکل پہ رات گئے گھروں کو روانہ ہوئے جبکہ ہم نے تھک ہار کے بستر. پہ چھلانگ لگائی اور کب نیند کی وادی میں کھو گئے تو دوستوں یہ. تھی ہمارے خوبصورت سے مگر تھکا دینے والے طویل ترین سفر کی داستان لوگ تو ایک تیر سے دوشکار کرتے ہیں لیکن ہم نے تو ایک ہی تیر سے تین شکار کر لئے تو بہر حال دوستوں اللہ حافظ ملتے ہیں جلد بریک کے بعد تو چلتے چلتے اللہ نگھبان رب راکھا