’’تارے زمین پر‘‘

آج کا انسان جہاں مادی ترقی کی انتہا ؤں کو چھو رہا ہے وہاں وہ اخلاقی پستی کی دلدل میں دھنس رہاہے۔جدید ٹیکنا لوجی نے دنیا کو گلوبل ولیج میں تبدیل کر دیا ہے تو دوسری جانب اس نے مخلوق کو اپنے خالق اور فطرت سے بہت دور کر دیا ہے۔ہماری نوجوان نسل کے ذہن یہود و ہنود کی اس ثقافتی جنگ کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔آج موبائل، ٹیلی ویژن،انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا نے ہمارے اور ہماری نوجوان نسل کے دل و دماغ پر قبضہ جمایا ہوا ہے،ہماری سوچ،ہمارا عمل،ہمارے رویے،ہماری گفتگو،ہمارا لباس نیز ہمارا چال چلن سب کچھ اس نمونے کے مطابق ڈھل رہا ہے جو رول ماڈل ہمیں نظر آتا ہے یا ہمارا میڈیا اور معاشرہ ہمیں دیکھاتا ہے۔
اسی رو ل ماڈل کو لیکرہم ہیرو کہتے ہیں جس کو دیکھ کر یا پڑھ کر ہماری نوجوان نسل اپنے راستے کاانتخاب کرتی ہے۔ہیروایسے کردار اور شخصیت کو کہتے ہیں جس کی نقالی کی جائے ،جس کو دیکھ کر ان جیسابننے کی خواہش کا اظہار کیا جائے۔آج ہمیں ٹی وی سکرین پر جھوٹے اور فرضی کردار ہیرو کے روپ میں دیکھائے جاتے ہیں۔ ان خود ساختہ یا امپورٹڈ کرداروں میں بہادری،سچائی،سخاوت اور رحم دِلی کوٹ کوٹ کربھردی جاتی ہے مگر مسلمانوں کی تاریخ کونہایت ظالم اوربے رحم بنا کر پیش کیا جاتا ہے،جسے ہم بھول رہے ہیں۔
ہمارے اصل ہیرو کون ہیں؟ آج میڈیا نے ہیروکے لفظ کا معنی ہی بدل کر رکھ دیا ہے ہیرو کا لفظ صرف فلمی اور ڈرامائی کرداروں کے لئے رہ گیا ہے حالانکہ حقیقی ہیروز تو ہمارے وہ اسلاف تھے جن کے بارے ڈاکٹرعلامہ محمد اقبال ؒ نے فرمایا تھا۔
وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہو کر
اور ہم خوار ہوئے، تارک قرآں ہو کر
وہ عظیم لوگ اب کتابوں کے اوراق کا حصہ بن کر رہ گئے ہیں اور ہماری زندگیاں ان کی جھلک سے خالی ہیں ،اس کی وجہ صرف اورصرف یہ ہے کہ ہم نے اپنے اصل ہیروز کو چھوڑ کر غیروں کو اپنا راہ نما اور آئیڈیل بنا لیاہے بقول شاعر
تیرے حسن خلق کی اک رمق میری زندگی میں نہ مل سکی
میں اسی پہ خوش ہوں کہ شہر کے در و بام کو تو سجا دیا
سوال یہ ہے کہ کوئی طاقتور،بہادر،خوبصورت فرضی کردار ہی ہمارا ہیرو ہوگا؟جی بالکل بھی نہیں اگر ہم اپنے اسلاف کی زندگیوں کا بغو ر مطالعہ کریں تو ان میں پانچ اوصاف نمایاں تھے۔ وہ پانچ خوبیاں کچھ یوں ہیں۔پختہ ایمان اورعقیدہ توحید والے ۔علم وحکمت کے طلب گار ۔ باعمل اور با کردار ۔اللہ کی طرف بلانے والے ۔اللہ کے راستے میں لڑنے والے۔اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ان ہیروزکی مبارک زندگیوں کا مطالعہ کریں اور جھوٹے کرداروں کواپنانے کی بجائے ان کو اپنا رول ماڈل بنائیں ۔اسی مقصد کے پیش نظر کتا ب ’’تارے زمین پر‘‘ مرتب کی گئی ہے ناصر محمود بیگ کی یہ کاوش ہماری نوجوان نسل کی کردار سازی میں ضرور معاون ثابت ہوگی۔
ناصرِمحمود بیگ کا تعلق میرے شہر کسووال سے ہے۔ وہ2006ء سے تدریس کے شعبہ سے منسلک ہیں،بنیادی طور پر وہ سائنس کے استاد ہیں ،دو سال قبل اپنے قلم سے مضامین لکھنے کا سلسلہ شروع کیا ، بچوں کے مختلف رسائل اور میگزین میں ان کی تحریریں شائع ہونے لگی،انہوں نے ایک خاص مقصد کے لئے اپنے قلم سے لکھنے آغاز کیا اور آج تک وہ اسی مقصد کو لئے ہوئے مسلسل لکھ رہے ہیں۔ان کا مقصد ہماری نوجوان نسل کے ذہن و قلب سے تصورراتی کردار ہیرو جو کہ آج فلموں ،ڈراموں،کارٹونز گیمز میں جھوٹے اور فرضی کرداروں سے دیکھایا جارہاہے اس کو تبدیل کرنا ہے ،ناصرِمحمود بیگ اپنے اسی مقصد کو لیکر قلم سے جہاد جاری رکھے ہوئے ہیں۔
بچوں اور نوجوانوں کے لئے فلمی، ڈرامائی اور فرضی کرداروں سے پاک سچے اسلامی ہیروزکی زندگی کے سچے واقعات پر مشتمل سچی کہانیوں کی ایک خوبصورت کتاب ’’تارے زمین پر‘‘ پانچ ابواب پر مشتمل ہے ہر باب میں ایک خاص موضوع کا انتخاب کر کے اس آسان الفاظ میں کہانیوں کو شامل کیاگیا ہے ۔پہلے باب میں شمع توحید کے پروانے کے عنوان سے۔دوسرے میں علم و حکمت کے ستارے ۔تیسرے باب میں کردار کے موتی۔ چوتھے باب میں دین حق کے داعی اور پانچویں باب میں اللہ کے بے باک سپاہی کے عنوان سے دین اسلام کے ہیروز کی زندگی کی سچی کہانیوں کو لکھا گیا ہے ۔
کتاب ’’تارے زمین پر‘‘ خوبصورت سرورق کے ساتھ144صفحات پر مشتمل ہے، قیمت انتہائی مناسب رکھی گئی ہے ،مصنف نے انتساب اپنے والدین کے نام کیا ہے ،مقدمہ سابق پروف ریڈر دارالاندلس لاہور سعیدالرحمن نے لکھا ہے جبکہ کتاب میں37مختلف تحریریں شامل ہیں ۔مصنف ناصر محمود بیگ نے صحابہ کرامؓ، محدثین عظام ، ائمہ کرام اسلاف اور تاریخ سے واقعات کومنتخب کرکے ہمارے بچوں اور نوجوانوں کے قلوب و اذہان پر گہرے نقوش چھوڑنے کی ایک کوشش کی ہے۔کتاب ’’تارے زمین پر‘‘ ہر گھر کے لئے مفید ہے ،بچوں اور بڑوں کے لئے کسی خاص تحفہ سے کم نہیں ہے کیونکہ ہمارے بڑے بھی اس کتاب سے استفادہ کر سکتے ہیں ۔کتاب سکولز و کالج سمیت ملک بھر کی لائبریریوں میں موجود ہونی چائیے۔
ہمیں اپنے بچوں کو بچپن سے ہی احکامات دین اسلام کا پابند بنانا چائیے اور ان کی ایسی تربیت کرنی چائیے جس سے آنے والے وقت میں کسی قسم کی شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔آج کے ترقی یافتہ دور میں والدین کی ذمہ داری کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔سن شعور پر سختی کی ضرورت ہوتو وہ بھی کرنی چاہئے سن تمیز شروع ہونے کے ساتھ ہی انہیں بے راہ روی سے محفوظ رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ سائنسی اور ٹیکنالوجی کے دور میں چونکہ بچوں کی اخلاقی تربیت کے بگاڑ میں انٹرنیٹ ،الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کابہت اہم کردار ہے۔ رہی سہی کسر سوشل میڈیا نے نکال دی ،جس میں فیس بک، واٹس ایپ،انسٹاگرام ،ٹوئٹر وغیر ہ سر فہرست ہیں۔
پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے مختلف کارٹونز، ٹارزن، عمرو عیار کے جھوٹے اور فرضی قصے کہانیوں سے بچوں کے قلوب و اذہان کو بگاڑ کر انہیں بزرگوں کے پاس بیٹھ کر اسلاف کے واقعات سننے عالی شان اوقات اور فرصت کو ختم کردیا ہے۔ وقت کے ساتھ اب موبائل اور کمپیوٹر نے ہماری نسل کے قلوب و اذہان کو مزید گدلا کرکے کتاب اللہ ، حدیث نبوی اور اسلاف سے دور کرکے ایک نفسانفسی کی کیفیت برپا کردی ہے۔ ان حالات میں نئی نسل کا اخلاقی و دینی تربیت کے لئے تاریخ اسلام اور اسلاف کے ساتھ ناطہ جوڑنا بہت ضروری ہے۔
ہمارے بڑے بزرگ، آباؤ اجداد اوراساتذہ کرام ہمیں سبق آموز،اصلاحی تاریخی واقعات کے حوالے سے بتایا کرتے تھے۔جس سے ہمارے ذہن و قلوب میں ان ہیروز کے کردار اپنا کر ان پر عمل پیرا ہونے کی ایک تڑپ اور جنون اجاگر ہوتا تھا۔ صحابہ کرام خالد بن ولید،سعد بن ابی وقاص وغیرہ جیسے اہم کرداراور امام ابوحنیفہ، ابن تیمیہ، احمد بن حنبل وغیرہ کے واقعات ایمان کو تازہ کرتے تھے۔ محمد بن قاسم، طارق بن زیاد، صلاح الدین ایوبی، محمود غزنوی، شہاب الدین غوری کی زندگیوں کے خلاصے اسلام کی سربلندی اور ظلم و ستم مٹانے کے لئے اہم سبق دیا کرتے تھے۔ آج اسلام دشمن قوتوں نے ہمارے دل و دماغ پر جدید ٹیکنالوجی سے قبضہ کر لیا ہے۔
ہما رے اسلامی ہیروز نے کس طرح اللہ تعالی کی توحید اور رضامندی کی خا طر بچپن سے جوا نی تک اور جوانی سے بڑھا پے تک اپنی زندگیاں گزاردیں۔ہرظلم وستم بر دا شت کر لیا مگر اللہ کی ذا ت و صفا ت میں کسی کو شر یک کرنا گوا را نہ کیا ۔نہ صر ف انہوں نے خود شرک سے بیزاری ظا ہر کی بلکہ دو سرو ں کو بھی شر ک کی دلدل سے نکا لنے کی پو ری کو شش کی۔اللہ پا ک ناصرِمحمود بیگ کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور ہمیں اپنے ان اسلامی ہیرو ز کے نقش قدم پر چلنے کی تو فیق عطا فر ما ئے ۔آمین
۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں،ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔