ایسی سفاک عدالت نہیں دیکھی جاتی۔۔۔
ظلم سہہ لینے کی عادت نہیں دیکھی جاتی
مجھ سے لوگوں کی یہ حالت نہیں دیکھی جاتی
روز گھٹتی ہوئی الفت کا گلہ ہے مجھ کو
روز بڑھتی ہوئی نفرت نہیں دیکھی جاتی
جی میں آتا ہے کہ سینے سے لگالوں ان کو
مجھ سے ماں باپ کی تربت نہیں دیکھی جاتی
نوچ لیتے ہیں یہ انسان ہی انسانوں کو
مجھ سے اب اتنی بھی وحشت نہیں دیکھی جاتی
وہ جو پڑھ لکھ کے بھی لوگوں پہ ستم کرتے ہیں
ایسے لوگوں کی جہالت نہیں دیکھی جاتی
لوگ اک شخص کو کہتے ہیں فرشتوں جیسا
مجھ سے یہ اندھی عقیدت نہیں دیکھی جاتی
جس عدالت کے بکے بیٹھے ہوں منصف سارے
ایسی سفاک عدالت نہیں دیکھی جاتی
جس میں محفوظ نہیں کوئی بھی بچہ یا بڑا
اب وہ مجبور ریاست نہیں دیکھی جاتی
پڑھ کے قرآن یہ اوروں کا برا سوچتے ہیں
مجھ سے لوگوں کی عبادت نہیں دیکھی جاتی
میرے جیسوں کی ہر اک چیز چرا لیتے ہو
تیرے جیسوں کی سخاوت نہیں دیکھی جاتی
تیرا اس دنیا کے ظاہر سے بجا ہو گا گلہ
مجھ سے باطن کی قباحت نہیں دیکھی جاتی
جب ضروری ہو خیانت ہی مصیبت کی گھڑی
تب امانت میں خیانت نہیں دیکھی جاتی
میرے بس میں ہے فقط نظمیں و غزلیں کہنا
مجھ سے اوروں کی ذہانت نہیں دیکھی جاتی
جھوٹ کے زور پہ چلتا ہے یہ دنیا کا نظام
آج کل کوئی صداقت نہیں دیکھی جاتی
کربلا نے یہ سبق ہم کو دیا ہے لوگو
کوئی حق پہ ہو تو طاقت نہیں دیکھی جاتی
جس نے ہر لفظ پرو ڈالا ہو موتی کی طرح
ایسے لوگوں کی کتابت نہیں دیکھی جاتی
مجھ کو دکھ ہے کہ مجھے لوگ برا کہتے ہیں
مجھ سے اپنی یہ ملامت نہیں دیکھی جاتی
تم کسی سچے کی لکنت کا اڑاتے ہو مذاق
مجھ سے جھوٹے کی خطابت نہیں دیکھی جاتی
میرے جیسوں کی کرامت پہ جو حرف آتا ہے
تیرے جیسوں کی یہ حرمت نہیں دیکھی جاتی
لوگ ہر چیز کو ہی زر کے عوض تولتے ہیں
اچھے لوگوں کی شرافت نہیں دیکھی جاتی
جس کوآتا ہو بہت بات بنانے کا ہنر
اس کی کتنی ہے ریاضت نہیں دیکھی جاتی
اے خدا ساری ہی دنیا ہے تری حاجت مند
مجھ سے تیری یہ کفالت نہیں دیکھی جاتی
جو کھڑے رہتے ہیں دھرتی کے محافظ بن کر
دکھ ہے ان سب کی شجاعت نہیں دیکھی جاتی
میرا گھر اجڑا ہے کچھ اس لیے دکھ ہے مجھ کو
مجھ سے یہ باہمی الفت نہیں دیکھی جاتی
زندگی تیرے خزانے میں سبھی کچھ ہے مگر
مجھ سے پوشیدہ یہ دولت نہیں دیکھی جاتی
تیری تکریم ضروری ہے مگر دل کا حسد
اے مبلغ یہ فصاحت نہیں دیکھی جاتی
اے خدا رزق تو ہم سب کا کشادہ کردے
مجھ سے اس دیس کی غربت نہیں دیکھی جاتی
کلام :ثمینہ رحمت منال