پاکستانی سیاست دوراہے پر!

2008ءمیںہونے والے انتخابات میں ملک بھر میں بننے والا سیاسی منظر نامہ یکساں رنگ لئے ہوا تھا ۔ اُس وقت دوسرے صوبے بھی اتنے ہی اہم تھے، جتنا پنجاب.... تاہم اس مرتبہ رنگوں اور رومانوی داستانوں کی اس سرزمین پر ہماری سیاسی تاریخ کا ایک فیصلہ کن باب لکھے جانے کا وقت آگیا ہے۔ دوسرے صوبوں میں ہونے والے سیاسی معرکے بھی اہم ہیں ،لیکن فی الوقت ان کی اہمیت ثانوی ہو چکی ہے، جبکہ تمام نظریں پنجاب میںہونے والی انتخابی مسابقت پر مرکوز ہیں کہ یہاں کیا ہورہا ہے یا کیا ہونے والا ہے، سندھ ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا سیاسی پلڑے میں اپنا وزن بعد میں ڈالیں گے،پہلے یہ دیکھا جانا ہے کہ پنجاب کے سیاسی ترازو پر کس کا کیا وزن ہے، یہ فیصلہ ہونے میں اب زیادہ دیر نہیں، صرف دوہفتے کے قریب وقت رہ گیا ہے.... کہ کیا پھر وہی پرانے ساز ربجتے ہیں یا اس مرتبہ موسیقی کی لے تبدیل ہوتی ہے اور پانچ دریاﺅں ....(جن میں سے اب تین بے آب و گیاہ صحارا کی یاددلاتے ہیں)....کی یہ سرزمین روایتی کھانوں کی لطافت اور نظریہ ¿ پاکستان کی امانت کا بوجھ سنبھالے کس کی حمایت کے لئے دامن ِ دل وا کرتی ہے؟
پنجاب کی پرانی اور روایتی سیاست کے دعویدار رائے ونڈ کے نمائشی شیر ہیں جو اپنی کامیابیوں کی تشہیر کے ساتھ انتخابی میدان میں ہیں۔ ماضی میں ان کو بینکوںکی طرف سے مالی وسائل اور عدلیہ ،انتظامیہ کی طرف سے تعاون کی کوئی کمی نہیں رہی ، تاہم عملی میدان میں ان کا کارنامہ کیا ہے؟.... سستی روٹی، لیپ ٹاپ، دانش سکول اور جنگلا بس سروس وغیرہ ؟گزشتہ پانچ سال کے دوران وہ پنجاب بھر میں انقلابی ترقی برپا کر تے ہوئے پولیس، پٹوار اور دیگر محکموں کے کلچر کو بدل سکتے تھے ، لیکن یہ دور انہوںنے فضول اوربے کار کاموں میں گزارا، جن کا مقصد خود ستائی کے سوا کچھ نہ تھا....اگر ان کو ایک موقع اور ملتا ہے تو وہ ایک بار پھر اسی ”کارکردگی “ کو دہرائیں گے ۔ ان کے بارے میںوثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ جیسے آٹے اور پانی کے ملاپ سے ایک ہی آمیزہ وجود میں آتا ہے ، اسی طرح ان سے بھی ایک ہی طرح کے طرز ِ عمل کی توقع ہے۔ یہ عمل (آٹے میں پانی ملانے کا )ہزار مرتبہ دہرالیں، نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات ہی ہو گا۔
تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ مسلم لیگ (ن) کی سیاسی اہمیت معدوم ہو چکی ہے اور اگر موجودہ سیاسی فضا کو دیکھا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ پنجاب میں اگلی حکومت ان کی ہی بنے گی.... اس وقت نجم سیٹھی نگران وزیر ِ اعلیٰ ہیں۔لیکن تمام بیوروکریسی اور عوامی عہدیداروں کو یقین ہے کہ ایک ماہ سے بھی کم عرصے میں شہباز شریف واپس آجائیں گے، جبکہ اُن کی انگلی پہلے سے بھی زیادہ متحرک ہو گی۔ اس توقع کے ساتھ چھوٹے بڑے تمام سرکاری ملازمین ، پٹوار ی سے لے کر تھانیدارتک، ان کی مژگان کے اشارے کو سمجھتے ہیں۔دراصل مسلم لیگ (ن)کی حالیہ انتخابی مہم کے دوران توقعات کا یہ عنصر اہم کردار ادا کررہا ہے۔ اگر یہاں بھی توقعات کی جگہ بے یقینی کی فضا قائم ہوجائے، جس میں تمام سیاسی جماعتیں برابر ہوں تو پھر شیروں کو حاصل برتری ہوا ہو جائے گی۔
شکار،جاسوسی اور سراغ رسانی کے سدھائے ہوئے کتوں کی قوت ِ شامہ شاید اتنی تیز نہیں ہوتی، جتنی پنجاب کے سیاسی کھلاڑیوں کی جو ہوا کو سونگھ کر آنے والے واقعات کو بھانپ لیتے ہیں، تاہم ہر مرتبہ اُن کا اندازہ اور فیصلہ درست نہیںہوتا، خاص طور پر 1970ءمیں اُن کو اندازے کی غلطی ہو گئی تھی، تاہم یہ دیکھا جانا ہے کہ اس مرتبہ وہ حالات کا ادراک کس طرح کرتے ہیں۔ اس وقت تک مسلم لیگ (ن) یہ سمجھتی ہے کہ تمام پتے اس کے ہاتھ میں ہیں، لیکن 2008ءمیں مسلم لیگ (ق)کا بھی یہی خیال تھا۔ بہرحال 2008ءکے انتخابات دوٹوک تھے، کیونکہ ان میں ایک طرف پرویز مشرف اور اُن کے حامی تھے، جبکہ دوسری طرف نام نہاد جمہوریت کے چیمپیئن.... تاہم اس مرتبہ صورت ِ حال کہیں زیادہ پیچیدہ ہے ، کیونکہ پی پی پی کی مقبولیت کا گراف گر چکا ہے اور بظاہر وہ پنجاب کی انتخابی سیاست میں تیسرے درجے تک محدود ہو چکی ہے۔ اس وقت پنجاب میں مسلم لیگ (ن)کی پوزیشن مستحکم ہے، لیکن اپنے عقربی حجم کی وجہ سے اس پر تھکاوٹ کے آثار نمایاں ہورہے ہیں۔ ایسالگتا ہے کہ کوئی قوی، لیکن تھکاہوا جنگجو ایک نوعمر ،لیکن تازہ دم مدِ مقابل(عمران خان) کے سامنے پسینے سے شرابور، گھبراہٹ کا شکار ہے۔
یہ سیاسی پنجہ آزمائی دائیں اور بائیں بازو کی جماعتوںکے درمیان نہیںہے پاکستان میں بائیں بازو کی جماعتیں کہاںہیں ؟اور پھر پرانی نظریاتی جنگیں بھی قصہ ¾ پارینہ بن چکی ہیں۔ یہ مقابلہ ضیاءالحق اور خفیہ اداروں ، جن کے چیف میرے دوست جنرل حمید گل تھے، کے پروردہ نواز شریف اور سیاسی میدان میں پرانے، لیکن اپنی نئی ٹکسال کرنے کے بعد میدان میں خم ٹھونک کر اتر تے ہوئے تبدیلی کا سندیسہ دینے والے عمران خان کے درمیان ہے۔ یہ دونوں دائیں بازو کی نمائندگی ہی کرتے ہیں۔ نواز شریف کی دوٹوک سیاست ، جس کے لئے ”دودھ کا دودھ ، پانی کا پانی“ کی اصطلاع استعمال کی جا سکتی ہے، کی طرح ہے اور یہ رویہ ان کی پی پی پی کی نااہل حکومت کے ساتھ محاذ آرائی پر مبنی سیاست کے دور میں کامیاب رہا، لیکن اب معاملہ کافی مختلف ہے۔ اب عمران خان اور اُن کی پارٹی کی طرف سے سامنے آنے والے چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے مسلم لیگ (ن)ذہنی طور پر تیار نہیںہے۔
چند روز پہلے لاہور کے کاروباری افراد سے گفتگو کرتے ہوئے عمران خان نے جدید سنگاپور کے بانی اور اس پرتین دھائیوں تک حکمرانی کرکے اسے جدید ترین ریاست میں ڈھالنے والے لی کن یو(Lee Kuan Yew)اور ملائیشیا کے سابق وزیر ِ اعظم مہاتیر محمد کی مثالیں دیتے ہوئے پیشہ ورانہ مینجمنٹ پر بات کی۔ مسلم لیگ (ن) کے افلاطونوںکو اس یونانی (فلاسفی ) کی کوئی شد بد نہیں ہے۔ وہ تو نہایت ادب کے ساتھ نواز شریف صاحب کو ”محترم قائد، محترم لیڈر“ وغیر ہ کے القاب سے پکارنے کے سوا اور کچھ نہیں کر سکتے ہیں۔ ان دونوں جماعتوں کے کلچر میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ شریف برادران آج بھی وہیں کھڑے ہیں ،جہاں وہ ماضی میں تھے، لیکن اب جو ایک نیا پاکستان ابھر رہا ہے، وہ اس کے بدلتے ہوئے معروضات کی تفہیم کرنے سے قاصر ہیں۔ مثال کے طور پر ان کی دوسری نسل کے رہنما حمزہ شہباز کو دیکھیں تو اس کا چہرہ اُس کی شخصیت کے کھوکھلے پن کی غمازی کرتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اُس نے زندگی میںکسی کتاب کا مطالعہ ہی نہ کیا ہو۔ اگر کیا ہوتا توشاید بات قدرے مختلف ہوتی ۔
مسلم لیگ (ن)کی طرف سے لاہور میں کی جانے والی ٹکٹوں کی تقسیم بہت کچھ کہتی ہے۔ این اے 127 میں ٹکٹ وحید اسلم کو ملا ہے اور وہ اُس جج کا بھائی ہے، جس نے مس عائشہ احد کو دس دن کے ریمانڈپر پولیس کی تحویل میں دے دیا تھا۔ہر کوئی اس قسم کی سیاست میں مہارت نہیں رکھتا۔ ماضی میں شریف برادران خفیہ اداروں کا تعاون حاصل کرنے کے لئے اُ ن کے مفادات کا خیال رکھتے تھے اور ان کے اعلیٰ افسران سے ملاقاتوں کے واقعات سامنے آتے رہتے تھے، تاہم جب حالات تبدیل ہوئے تو انہوں نے پیچھے مڑکر بھی نہ دیکھا۔ جب وہ صدر غلام اسحاق مرحوم کے قریب تھے تو انہوں نے کہا کہ وہ اُ ن کے والد کے برابر ہیں، لیکن بہت جلد غلام اسحاق خان نے اُن کو وہ ”بزرگانہ نصیحت “ سے نوازا جو شاید اُن کو کبھی نہیں بھولنی چاہیے تھی، تاہم جب لغاری صدر بنے تو انہوں نے اُن کو محترمہ کے خلاف استعمال کیا۔ فاروق لغاری کا اعتماد جیتنے کے لئے عابدہ حسین اور شاہد حامد کا سہار ا لیا گیا، تاہم مقصد پورا ہونے کے بعد ان تینوںکو فراموش کر دیا گیا۔
اس قسم کی سیاست اُس وقت تک کام دے رہی تھی، جب سیاسی تدبیر(اگر اسے تدبیر کا نام دیا جا سکے)صرف پی پی پی نواز یا پی پی پی مخالف جذبات ہی پیدا کرنے کے لئے کافی سمجھی جاتی تھی، لیکن آج یہ بدل چکا ہے، کیونکہ آج پاکستان ایک قدم آگے بڑھ چکا ہے۔ ایک وقت تھا جب پنجاب پی پی پی کا گڑھ تھا ، لیکن گزشتہ تیس برسوںسے یہ شریف برادران کا سیاسی قلعہ ہے۔ اس قلعے میں پہلی مرتبہ سنگین قسم کا شگاف پڑا ہے، یہ وہ کام ہے جوپرویز مشرف حکومت نہ کر سکی اور مسلم لیگ (ن)خواب میں بھی اس کا تصور نہیں کر سکتی تھی کہ پی ٹی آئی یوں دن دیہاڑے اس کے مقابل آجائے گی۔ اب ہوایہ ہے کہ عمران کے لئے بھی وہی پچ ساز گار ہے، جہاں شریف برادران رنز کے انبار لگاتے رہے ہیں ۔ فرق صرف یہ ہے کہ عمران خان میں جدت کی سوئنگ موجود ہے اور اس کا مسلم لیگ (ن)کے پاس کوئی توڑ نہیں ہے۔ عمران کے ساتھ طلبہ اور نوجوان ہیں، جبکہ مسلم لیگ(ن)کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ ان نوجوانوں سے کیسے نمٹیں؟ وہ زیادہ سے زیادہ یہی کر سکتے تھے کہ ان میں لیپ ٹاپ تقسیم کرڈالیں، لیکن وہ بھول گئے کہ جو خواب عمران خان نے اُنہیں دکھایا تھا وہ دنیا بھر کے لیپ ٹاپ بھی ”ڈاﺅن لوڈ “(لفظی مطلب پر غور کیجیے ) نہیں کر سکتے تھے۔
بہرحال ابھی کھیل ختم نہیںہوا اور نہ ہی شریف برادران کی مقبولیت سے صرف ِ نظر کیا جا سکتا ہے۔ ان انتخابات میں صرف اس بات کا فیصلہ ہونا ہے کہ عمران خان ان کے قلعے میں کتنی نقب لگا سکتا ہے۔ اسی معرکے نے ان انتخابا ت کو ہماری تاریخ کے دلچسپ ترین انتخابات بنا دیا ہے۔ پنجاب میںانتخابی محاذآرائی اس قدر غیر یقینی پن کا شکار ہے کہ فی الحال کوئی بھی سیاسی پنڈت پیشین گوئی کرنے کی پوزیشن میں نہیںہے۔ بہرحال نجومیوں اور جوتشیوں کو پیشین گوئیاں کرنے دیں، ایک بات یاد رکھیں کہ دنیا میں صرف تغیر کوہی ثبات حاصل ہے۔ نشیب و فراز، بننا بگڑنا، آنا جانا ، پانا کھونا، اس دنیا کی اٹل حقیقتیں ہیں۔ ہر لہر نے فراز کے بعد نشیب کی طرف سفر کرنا ہوتا ہے کہ یہی قانون ِ فطرت ہے۔بپا ہونے والے ہنگامہ ¿ فردا میں ایک بات یقینی دکھائی دیتی ہے کہ شریف برادران کے ہاتھ سے وقت کی طنابیں سرک رہی ہیں۔ پاکستان میں تبدیلی کی گھنٹی بج چکی ہے۔ یہ تبدیلی مثبت بھی ہو سکتی ہے اور منفی بھی۔ اس وقت جبکہ ایک صبح ِ نو طلوع کے مراحل میں ہے، پرانی تاریخ کا صفحہ پلٹنا تباہ کن ہو گا۔اب یہ دیکھا جانا ہے کہ کیا گیارہ مئی کی شام کو کوئی سجری سویر طلوع ہوتی ہے یا سلسلہ ¿ روز شب پرانے حادثات کا ہی نقش گر ثابت ہوتا ہے۔
مصنف، معروف کالم نگار اور سیاسی تجزیہ کار ہیں۔
نوٹ ! اس کالم کے جملہ حقوق بحق رائٹ ویژن میڈیا سنڈیکیٹ پاکستان محفوظ ہیں۔ اس کی کسی بھی صورت میں ری پروڈکشنکی اجازت نہیں ہے۔