حیرتوں کا سفر
پاکستان ایک عجیب ملک ہے۔
ایک ایسا ملک جسے کانگریس نے اس لئے قبول کیا تھا کہ یہ نہیں چلے گا اور چند سال بعد ہی قائد اعظم محمد علی جناحؒکانگریس سے گڑگڑا کر درخواست کریں گے کہ اسے دوبارہ ہندوستان کا حصہ بنا لیا جائے کیونکہ ہم اسے چلانے سے قاصر ہیں۔ انگریز بھی ہر طریقے سے قائد اعظم کو یقین دلا رہے تھے کہ پاکستان کا منصو بہ ناقابل عمل ہے۔ مگر پھر مسلمانوں کے عزم کے سامنے انگریزوں اور ہندوؤں کو اس یقین کے ساتھ ہتھیار ڈالنے پڑے کہ یہ ملک نہیں چلے گا۔بھارت آج بھی اس دلیل پر قائم ہے کہ پاکستان نہیں چلے گا اور دیار مغرب کے دانشوروں کی تان بھی اس پر ہی ٹوٹتی ہے کہ پاکستان نہیں چلے گا۔مگر پاکستان چل رہا ہے۔ یہ کوئی زبردست طریقے سے نہیں چل رہا، غلطیاں بھی ہوئی ہیں،ہو رہی ہیں۔ بلکہ بہت بڑی غلطیاں ہو رہی ہیں۔ مگر یہ ملک چل رہا ہے۔ دیوالیہ ہونے کا خطرہ بار بار آتا ہے اور چھو کر گزر جاتا ہے۔ مگر بھارت کے اتنا بڑا ملک ہونے کے باوجود اور زبردست خواہش کے باوجود چل رہا ہے۔
لارنس زائرنگ پاکستان پر لکھتے لکھتے مر گئے کہ یہ ملک نہیں چلے گا۔ مگر یہ ملک ان کے انتقال کے بعد بھی چل رہا ہے اور پاکستان، پاکستانی مسلمانوں کو یقینی طور پر ہندوستانی مسلمانوں سے بہتر زندگی دے رہا ہے اور اگر کسی کواس میں شبہ ہو تو بھارتی حکومت کی تیار کردہ سچن رپورٹ کو ہی پڑھ لے۔ امریکی سکالر سٹیفن کوہن بھی پاکستان کے مستقبل کے متعلق پریشان رہتے تھے اور وہ اپنی پوری دانش سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے تھے کہ یہ ملک نہیں چلے گا۔ مگر ان کے تمام تر دانشورانہ تجزیوں کے باوجود یہ ملک ایک ڈھیٹ کی طرح سینہ تان کر چلتا رہا۔
پاکستان دنیا کی پہلی ایٹمی قوت ہے اور دنیا کے ہر ملک میں اس کے تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل ہونے والے اپنی صلاحیتوں کا لوہا بھی منوا رہے ہیں۔ مگر جب بھی پاکستان واپس آتے ہیں تو وہ بھی مغربی دانشوروں کے ہم نوا ہو کر کہتے ہیں کہ یہ ملک نہیں چلے گا۔ مگر پاکستانی دانشوروں کی بھرپور فرمائش اور خواہش کے باوجود یہ ملک چل رہا ہے۔
بھارت سے آنے والے دانشور اس ملک کو حیرت سے دیکھتے ہیں۔ بھارتی دانشور جاوید اختر نے کہا تھا کہ انہوں نے پاکستان میں غربت نہیں دیکھی۔ شاید پاکستان والوں نے غربت کو چھپانے کا اہتمام کیا ہے اور غریبوں کو مخصوص علاقوں تک محدود کر دیا ہے۔ بھارتی اداکارگپی گریوال نے پاکستان کا دورہ کرنے کے بعد بھارت جا کر بتایا کہ انہیں پاکستان میں سڑکوں پر سفر کرتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ وہ کینیڈا میں ہیں۔
پاکستان نے جب حسب خواہش و فرمائش ٹوٹنے اور تباہ ہونے سے انکار کر دیا تو کچھ دیانت دار قسم کے دانشوروں نے تلاش شروع کی کہ آخر یہ ملک ٹوٹتا کیوں نہیں ہے؟ یہاں تباہی کیوں نہیں آتی؟ یہاں لوگ سڑکوں پر مرتے ہوئے کیوں نظر نہیں آتے؟ اور اس کا یہ جواب تلاش کیا گیا کہ پاکستان کے عوام میں قوت مزاحمت بے پناہ ہے اور یہ چھوٹے قصبات اور دیہات میں رہنے والے عوام کی قوت مزاحمت ہی ہے جس کی وجہ سے پاکستان قائم ہے۔
پاکستان واقعی حیرت انگیز ملک ہے۔
ایک ایسا ملک جو سوئی سے لے کر گاڑی تک امپورٹ کرتا ہے اور اس کا سائنس دان اس جدید ٹیکنالوجی سے ایٹم بم تیار کرتا ہے جس پر امریکہ نے بھی کئی سالوں بعد دسترس حاصل کی۔
پاکستان کیوں قائم ہے؟ اور پاکستان کیوں ترقی کرے گا؟ اس کا جواب ہمیں سرگودھا کے ایک حالیہ سفر کے دوران ملا۔ سرگودھا یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر قیصر عباس غیرمعمولی انسان ہیں۔ اگر کسی نے یہ سیکھنا ہو کہ ہفتوں بلکہ مہینوں کا کام گھنٹوں میں کیسے کرنا ہے تو یہ ڈاکٹر قیصر عباس سے سیکھا جا سکتا ہے۔ نرم دم گفتگو اور گرم دم جستجو ڈاکٹر قیصر عباس سرگودھا یونیورسٹی کو ایک نئے دور میں لے گئے ہیں۔ انہوں نے متعدد ایسے ڈیپارٹمنٹ بنائے ہیں جن کو دیکھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ امریکہ کی کسی جدیدترین یونیورسٹی میں ہیں۔ سرگودھا یونیورسٹی کی لائبریری حیران کر دیتی ہے۔ کیونکہ لاہور کی بڑی لائبریریاں جہاں کتابوں کا قبرستان بن چکی ہیں وہاں یہ لائبریری علم اور تحقیق کی منزل کی طرف لے جانے والی ایک خوبصورت شاہراہ ہے۔ ڈاکٹر قیصر عباس کی قیادت میں یونیورسٹی کی عمارت میں ہی جدت نہیں آئی بلکہ فیکلٹی اور سٹاف بھی تھوڑے تھوڑے رویئے میں غیرملکی لگتے ہیں۔
ڈاکٹر سہیل ریاض راجہ صاحب کی قیادت میں صحافیوں اور دانشوروں کے ایک گروپ کو سرگودھا یونیورسٹی مدعو کیاگیا۔ اس میں جناب فرخ سہیل گوئندی، جناب سلمان عابد، جناب دلاور چودھری، بریگیڈیئر غضنفر علی جیسے دانشوروں کے ساتھ میرے جیسا غیردانشور بھی شامل تھا۔
سرگودھا کی طرف سفر کرتے ہوئے اس امید سے بھی ملاقات ہوئی کہ پاکستان کا بجلی کا بحران بہت جلد ختم ہو جائے گا اور واپڈا کا مستقبل پی ٹی سی ایل کی طرح تاریک ہو جائے گا۔ پاکستان تیزی سے سولرانرجی کی طرف جا رہا ہے اور آئندہ چند سالوں بعد سولرپینل ہر جگہ نظر آئیں گے اور اگر حکومت نے سولرانرجی کے فروغ کو روکنے کے لئے جارحانہ اقدامات نہ کئے تو ملک میں واپڈا کی بجلی کی اہمیت اسی طرح ختم ہو جائے گی جیسے پی ٹی سی ایل کے فون اب کوئی لگانے کے لئے تیار نظر نہیں آتا۔
سرگودھا یونیورسٹی میں بہت شاندار وقت گزرا۔ اہل سرگودھا کی خوش قسمتی ہے کہ ڈاکٹر قیصر عباس سرگودھا یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہیں۔ سرگودھا یونیورسٹی کی حالیہ ترقی کے تذکرے کے لئے کئی کالم درکار ہیں۔ جن میں پاکستان کے روشن مستقبل کا راز بھی تلاش کیا جا سکتا ہے۔
زندگی میں عزت اور محبت کرنے کا ہنر سب سے مشکل ہوتا ہے اور سچی بات یہ ہے کہ ڈاکٹر قیصر عباس سے ہم نے یہ ہنر سیکھنے کی کوشش کی۔ سرگودھا کا تذکرہ ڈاکٹر مدثر حسین شاہ اور ڈاکٹر صائمہ کوثر کے ذکر اور شکریے کے بغیر مکمل نہیں ہو گا۔ جہاں ڈاکٹر مدثر کی علمی جستجو حیران کرتی رہتی ہے وہاں ڈاکٹر صائمہ کوثر سے مل کر ہمیشہ یہ احساس ہوتا ہے کہ اللہ نے بیٹی کی محبت کو حیرت انگیز حد تک متاثر کن بنایا ہے۔