p6
شاعری اور موسیقی خداداد عنایات ہیں۔ اب یاد کرتا ہوں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں عنایات سے مجھے بچپن اور لڑکپن میں ہی نواز دیا گیا تھا۔
ہمارا گھر پاک پتن شہر کے اس حصے میں واقع تھا جس کو پہاڑی کی چوٹی کی سطحِ مرتفع کہا جاسکتا ہے۔ اس سطح مرتفع میں دو تین گنجان آباد محلے تھے جن کی گلیوں میں اردگرد کے گھروں کے باسیوں کا آنا جانا لگا رہتا تھا۔
جس بیڈ روم میں ہم سویا کرتے تھے اس کی دو کھڑکیاں باہر کی ایک گلی میں کھلتی تھیں۔ ایک کھڑکی کے دو حصے تھے۔ایک بالائی اور دوسرا زیریں۔ زیریں حصہ تو عموماً بند رہا کرتا تھا۔ البتہ بالائی حصہ، چھت سے تین فٹ نیچے تھا۔ والد صاحب مرحوم صبح 7بجے اس بالائی حصے کو کھول دیا کرتے تھے تاکہ صاف اور تازہ ہوا کی آمد و شد برقرار رہے۔ ہماری آنکھ کھلتی تھی تو گلی میں گزرنے والوں کے گانے ”مفت“ میں سننے کو ملا کرتے تھے۔
جو گیت ہم بھائیوں کو اس گلی میں آنے جانے والوں کی آوازوں کے توسط سے سننے کو ملا کرتے تھے، ان میں درجِ ذیل گانوں کے بول شامل تھے:
1۔ یہ زندگی کے میلے دنیا میں کم نہ ہوں گے…… افسوس ہم نہ ہوں گے……
2۔ہوئے ہم جن کے لئے برباد۔ وہ ہم کو چاہے کریں نہ یاد……
3۔ توگنگا کی موج میں جمنا کا دھارا……
ان سب گیتوں کو جس گلوکار نے آواز ’عطا‘ کی تھی، اس کا نام محمد رفیع تھا۔ اس نام سے ہمارا پہلا تعارف گلی محلے کی ان آوازوں کے توسط سے ہوا۔ دوسرا تعارف اس وقت ہوا جب ہمارے گھر میں ”گرنڈنگ“ نام کا ایک ریڈیو آ گیا۔ والد صاحب شاید خبروں کے لئے یہ ریڈیو سیٹ خرید لائے تھے۔ لیکن ہم رات کو آواز دھیمی کرکے ریڈیو سیلون سنا کرتے تھے جس میں محمد رفیع، لتا منگیشکر، آشا بھونسلے، نورجہاں اور طلعت محمود کے گیت سننے کو مل جاتے تھے۔ جیسا کہ میں نے اوپر ذکر کیا موسیقی سے ہماری رغبت تو خداداد تھی۔ ہم نہ چاہتے ہوئے بھی واش روم میں جا کر ان گیتوں کی نقالی کی ناکام کوشش کیا کرتے تھے۔
پھر جب سنیما بینی کی اجازت ملی تو موسیقی کے اس شوق کو گویا ایک نئی جہت مل گئی۔ محمد رفیع کے گیتوں سے شناسائی اور اس کی آواز میں جو صوتی کشش تھی، اس کو میں آج بھی بیان کرنا چاہوں تو نہیں کر سکتا…… جس طرح موسیقی کی لگن خداداد عنایات میں سے ہے اس طرح صوت و صدا کا بندھن اور پسندیدگی بھی ہر سننے والے کو نصیب نہیں ہوتی اور مجھ پر ہی کیا منحصر، ہمارے سکول کے اکثر دوست بھی اس دور کے محمد رفیع کے گیتوں کی نقالی فرضِ عین سمجھا کرتے تھے۔
1950ء اور 1960ء کے دو عشرے جو انڈین فلموں کا سنہری دور کہلاتے ہیں،ان کی مشہوری میں پلے بیک گیتوں کا تاثر (Impact)از بس نمایاں تھا۔ ریڈیو پر محمد رفیع کے گیت سننا ہمارا محبوب مشغلہ تھا۔ ان گیتوں کی شاعری اور ان کی دھنوں نے ہمارے ذوقِ شعر و ادب کی جس طرح آبیاری کی وہ ایک الگ اور بسیط موضوع ہے۔
محمد رفیع کی سوانح کہ جس کا مطالعہ آپ ان صفحات میں کریں گے،ان کی بہو یاسمین خالد رفیع کے قلم سے ہے، مصنفہ نے اپنے ”ابّا“ کا ذکر جس تفصیل اور جس محبت سے کیا ہے، وہ قارئین کے لئے بھی میری طرح باعثِ دلچسپی ہوگا۔ یہ کتاب انگریزی میں تھی جس کا ترجمہ میں نے اردو میں کر دیا ہے۔ اس ترجمے میں گلوکار محمد رفیع سے میری اپنی دیرینہ تعریف و تحسین کی روح بھی قارئین کو جھلکتی نظر آئے گی اور اس نابغہء روزگار گلوکار کے فن کی وہ صوتی چنگاریاں بھی پڑھنے کو ملیں گی جنہوں نے لاہور کے ایک عام سے لڑکے کو دینائے موسیقی و صداکاری کے ایک اونچے سنگھاسن پر بٹھا دیا تھا۔
(غلام جیلانی خان)