تقریر قائد 11اگست رموز مملکت کی انسائیکلوپیڈیا

تقریر قائد 11اگست رموز مملکت کی انسائیکلوپیڈیا
تقریر قائد 11اگست رموز مملکت کی انسائیکلوپیڈیا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 "آپ کا تعلق کسی مذہب، ذات یا عقیدے سے ہو، مملکت سے اس کا کوئی واسطہ نہیں ہے ". قائد اعظم کے اس فرمان سے سیکولرزم کبھی مت تلاش کرنا. مذہب, ذات اور عقیدہ کروڑوں مختلف الخیال انسانوں کی داخلی ذہنی کیفیات ہوا کرتی ہیں. ریاست کا کسی کی سوچ سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا. مملکت کے لوگ ہندو, سکھ, مسیحی وغیرہ ہو سکتے ہیں، ریاست سب کو ساتھ لے کر چلتی ہے۔ یاد رہے کہ ہندو سکھ، مسیحی وغیرہ کسی کو کوئی سروکار نہیں ہوتا کہ پاکستان اسلامی شریعت پر چلے یا لا دینی رخ پر رہے۔ بلا سود اسلامی بینکاری پچھلے چار پانچ عشروں سے مسلسل روبہ ارتقا ہے۔ بتائیے،کسی ایک قابل ذکر ہندو، سکھ یا مسیحی کی مخالف آواز آپ نے سنی ہو؟ میں نے تو نہیں سنی, آپ نے سنی ہو تو بتائیے, میں رجوع کر لوں گا۔ اسلام اور شعائر اسلام کی جو تضحیک پیدائشی نام والے مسلمان کرتے دیکھے، عام غیر مسلموں کو ہمیشہ اس کے برعکس پایا۔ یہ حقیقت البتہ مسلمہ ہے کہ پیدائشی نام والے مسلمان اور مذہبی اقلیتوں کی قیادت بڑی حد تک ہمارے انہی "مسلمانوں " جیسی ہے. یہ دونوں باہم شیر و شکر رہ کر اسلام کی تضحیک کرتے ہیں۔

چنانچہ قائد کا یہ فرمان اسلامی تعلیمات کے عین مطابق ہے کہ مملکت کو آپ کے مذہب، ذات یا عقیدے سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ ریاست کی اپنی سوچ ہوتی ہے جس کا اظہار قائد نے اسلامی معیشت کے حوالے سے یکم جولائی 1948 کو صریح الفاظ میں کر دیا تھا کہ میں اسٹیٹ بینک کے شعبہ تحقیق کے کام کا بے چینی سے منتظر رہوں گا جو وہ مغربی تصورات کو اسلام کے سماجی و معاشی تصورات سے ہم آہنگ کرنے کے لیے کرے گا، اس تقریر سے سیکولرزم نکال کر دکھائیے؟ سیکولرزم کا الزام قائد پر بڑا بہتان ہے، بس چلے تو یہ بہتان تراشنے والوں کے خلاف میں ازالہ حیثیت عرفی کا دعوی کر دوں کہ یہ لوگ بابائے قوم جیسی عظیم ہستی کی کردار کشی کر رہے ہیں،ایک اس 11 اگست والی تقریر ہی پر کیا موقوف, قائد کا ہر لفظ مطبوعہ شکل میں دستیاب ہے، کبھی پڑھیے تو سہی، آپ کو لفظ لفظ سے اسلام کا پرچم لہراتا ملے گا۔ قائد کے مذکورہ الفاظ پر ذرا غور تو کر لیجئے۔ "آپ کے مذہب, ذات یا عقیدے سے ریاست کا کوئی واسطہ نہیں ". ان کے الفاظ کا یہ مفہوم کیوں نہیں لیا جاتا کہ آپ ہندو، سکھ، مسیحی ہیں تو بھلے ہوتے رہیے، ہم نے ملک اسلام کے لیے بنایا تھا اور ہماری تمام ریاستی پالیسیاں اسلام ہی کے گرد رہیں گی۔ آپ  کے مخاطبین مختلف النوع ہیں لہذا ریاست کو ان معنوں میں آپ سے کوئی سروکار نہیں ہے۔

11 اگست کی تقریر قائد سے سیکولرزم نکالنے والے یقیناَ فہمیدہ انسان ہیں لیکن ملک کی محافظت، اسے بنانے، سنوارنے اور چلانے کے لیے مختلف رویے درکار ہوتے ہیں۔ تیمور لنگ نے بایزید یلدرم کو شکست دی تو اسے پنجرے میں قید رکھ کر پنجرہ ہمیشہ اپنے ساتھ رکھا لیکن اپنی مفتوح اور غیر مسلم رعایا کے ساتھ اس کا رویہ تزک تیموری میں ملاحظہ ہو: "اپنے مفتوحہ علاقوں کے لوگوں کے لیے میں نے ملازمت اور روزگار کا بندوبست کیا. ان سے حاصل مال غنیمت سے انہی کی مدد کی، ان کے ٹیکسوں سے ان کے غربا, مساکین, فقراء کے وغیرہ کے لیے وظائف مقرر کیے تاکہ وہ تنگ دستی اور در در کی ٹھوکریں کھانے سے محفوظ رہیں." مزید ملاحظہ ہو: "میں نے دوست اور دشمن سے یکساں سلوک کیا." اب ذرا بتائیے کہ ملک کے اندر لاکھوں غیر مسلموں اور تقریبا 25 فیصد غیر مسلم کانگرسی ارکان دستوریہ کے ساتھ کیا قائد وہی لب و لہجہ اختیار کرتے جو تقسیم سے قبل نہرو, گاندھی, ابوالکلام آزاد جیسے کانگریسیوں سے کیا کرتے تھے؟ ایسا کہیں ممکن نہیں ہوتا،تقسیم سے قبل کے تمام متحارب لوگ تقسیم کے بعد ریاست کے محترم شہری بن چکے تھے۔ جن کی دل جوئی کرنا ہر ریاستی عہدے دار کا فرض تھا۔ قائد نے اس تقریر میں یہی فرض ادا کیا۔

نیلسن منڈیلا کی طرف چلتے ہیں۔ 1990 تک جنوبی افریقہ پر تقریباً 4 فیصد گوری اقلیت کی حکومت رہی، یہ گورے حاکم کالی آبادی کو حیوان جیسی اہمیت نہیں دیتے تھے،گوروں کے ہوٹلوں، کلبوں، ریستورانوں، ہوٹلوں، اسکولوں اور ہسپتالوں میں کسی کالے نے قدم رکھا نہیں کہ اس کی چمڑی ادھیڑ دی جاتی تھی۔ تعلیم، صحت، علاج معالجہ یہ سب کچھ گوروں کے لیے تھا۔ بیسویں صدی میں غلامی کی بدترین شکل اس ملک میں تھی۔ سیاہ فام رہنما نیلسن منڈیلا 28 سال حوالہ زندان رہے۔ اندرونی اور بین الاقوامی دباؤ پر بالآخر کالوں کی اپنی حکومت قائم ہوگئی۔ اب ان سیاہ فاموں کے بابائے قوم یعنی قائد اعظم کے بنائے دستور 1996 کے الفاظ ملاحظہ ہوں: ہم ان (سیاہ فاموں) کا احترام کرتے ہیں جنہوں نے عدل اور اپنی سرزمین کے لیے مصیبتیں جھیلیں۔ ان (گوروں) کی قدر کرتے ہیں جنہوں نے ہمارے ملک کی ترقی کے لیے کام کیا،اب جنوبی افریقہ ان سب کا ہے جو یہاں رہتے ہیں (یعنی کالے اور گورے دونوں)، ملاحظہ ہو دیباچہ دستور جنوبی افریقہ 1996۔

معلوم نہیں 11 اگست کی اس ایک تقریر کے محض چار چھ جملوں سے احباب کو وہ کون سی انوکھی کیمیا مل گئی جہاں انہیں سیکولرزم نظر آتا ہے۔ معروضیت سے خالی ہر مطالعہ، ہر سوچ اور ہر عمل گمراہی کی طرف جاتا ہے۔ اب آخر میں قائد کو سیکولر راہنما سمجھنے والوں سے سوال ہے کہ کیا وہ انہی کو حتمی رہنما مانتے ہیں، اگر ایسا ہے تو قائد کی تمام تحریریں خالی الذہن ہو کر پڑھیے، آپ کو قائد کی شخصیت میں ایک مکمل مسلم رہنما ملے گا، ان کی چھپی ہوئی تحریریں اور تقریریں کبھی پڑھیں تو سہی۔ یہاں ناکامی پر آپ لازماً جمہوریت کی شہر پناہ میں آئیں گے۔ خوش آمدید! تمام پاکستانی عوام نے اپنے لیے ایک متفقہ دستور تیار کر لیا ہے۔ اس پر وہ 50 سال سے عمل کر رہے ہیں۔ تقریر قائد 11 اگست، آزاد خیالی اور سیکولرزم سب ماضی کی دھند میں گم ہے۔ ملک میں متفقہ جمہوری دستور نافذ ہے، اس کا احترام کیجیے، عوام کا احترام کیجئے، نہیں تو اپنے مسیحی چیف جسٹس کارنیلیس سے ہی کو پڑھ لیجئے، ان کی ہر تحریر، ہر سطر اور ہر شوشے سے اسلام کا نور پھوٹتا ہے۔ ان کی پیروی کر لیجئے۔ وہ پسند نہ آئیں تو جسٹس رانا بھگوان داس پسند کر لیجئے۔

قارئین کے لیے آخری بات جو مجھے جسٹس ڈاکٹر غازی رحمہ اللہ نے سنائی تھی کہ جنرل ضیا نے مجھے کہا کہ "غازی صاحب، کوئی ایسا منصوبہ بنائیے جس سے فرقہ واریت ختم ہو جائے "۔ عرض کیا: "جناب، کسی منصوبے کی چنداں ضرورت نہیں۔ ساری معلومات آپ کے پاس موجود ہیں, باہر سے آیا پیسہ بند کرا دیں، فرقہ واریت ختم ہو جائے گی۔ ضیا صاحب نے بات کا رخ بدل دیا"۔ قارئین کرام، آج این جی او کی شکل میں فرقہ واریت کے چند نئے کھلاڑی معرض وجود میں آ چکے ہیں۔ آپ سمجھدار ہیں۔ مزید خود قیاس کر لیں کہ قائد اعظم کو متنازعہ فیہ بنانے کے لیے مواد کہاں سے آتا ہے۔

مزید :

رائے -کالم -