غلطی اور غلط بخشی!

غلطی اور غلط بخشی!
 غلطی اور غلط بخشی!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مُدتِ مدید سے غلطی ہائے مضامین، غلط بخشی اور غلطی ہائے اشعار کا سلسلہ کبھی کبھار کے اعتبار سے جاری رکھے ہوئے ہوں۔یہ ایسا کالم نہیں کہ قلم اُٹھایا اور جو مرضی لکھ مارا، اس کے لئے تلاش بسیار کے بعد تحقیق در تحقیق کے عمل میں پِتّہ پانی کرنا پڑتا ہے، خون خشک کرنا پڑتا ہے، آنکھوں کو جلانا پڑتا ہے، پھر کہیں غلطی کی نشاندہی اور تصحیح ہو پاتی ہے۔

تو لیجئے ایک مدت بعد حاضر ہوں قارئین کے پسندیدہ کالم کے ساتھ۔۔۔! ماہنامہ ’’ماہِ نو‘‘ لاہور کی ایک خاصی پرانی اشاعت یعنی ستمبر، اکتوبر2008ء کے شمارہ میں منیر راہی کے ایک مضمون ’’بیدل حیدری کی شاعری‘‘ میں ایک بہت مشہور شعر امید فاضلی کو بخش دیا گیا۔ اس طرح کہ: ’’امید فاضلی نے بچوں کی سنجیدگی کی وجہ غربت یُوں بیان کی ہے:
افلاس نے بچوں کو بھی سنجیدگی بخشی


سہمے ہوئے رہتے ہیں شرارت نہیں کرتے
یہ شعر لکھا تو درست گیا ہے مگر شعر امید فاضلی کا نہیں، قمر صدیقی کا ہے۔۔۔!


ماہنامہ ’’نیرنگِ خیال‘‘ راولپنڈی کے شمارہ مئی 2017ء میں شروع میں ایک مضمون ’’نگارش کدہ، ایک تنقیدی خزانہ‘‘۔۔۔ ڈاکٹر مختار ظفر۔۔۔ خورشید بیگ میلسوری(یہ یقیناً’’میلسوی‘‘ ہو گا) کے نام سے شائع ہوا ہے۔ فاضل مضمون نگار نے ایک مشہورِ زمانہ شعر اپنے مضمون میں میر تقی میر کو بخش دیا ہے:


خشک سیروں تنِ شاعر کا لہو ہوتا ہے
تب نظر آتی ہے اک مصرع ترکی صُورت
جبکہ متذکرہ شعر ہر گز میر تقی میر کا نہیں، حضرت امیر مینائی کا ہے جسے اکثر مولانا الطاف حسین حالی سے منسوب کر دیا جاتا ہے کہ اُن کی ایک غزل اسی زمین میں موجود ہے،جس کا ایک مشہور شعر یُوں ہے:
اپنی جیبوں سے رہیں سارے نمازی ہشیار
اک بزرگ آتے ہیں مسجد میں خضر کی صُورت
اسی غزل کی زمین میں امیر مینائی کی غزل بھی ہے، یُوں امیر مینائی کا شعر حالی کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے مگر ’’ایں گُلِ دیگر شگفت‘‘۔۔۔ خورشید بیگ میلسوی نے یہ شعر حالی نہ امیر مینائی بلکہ میر تقی میر کو بخش دیا۔ ماہنامہ’’ماہِ نو‘‘ لاہور کے شمارہ مارچ2015ء میں صفحہ43 پر ایک چوکٹھا لگا نظر سے گزرا: ’’ماہِ جنوری 2015ء میں شگفتہ سید کے نام سے شائع ہونے والی نظم ’’ہم ایک نسلِ زیاں گزیدہ‘‘ دراصل سحر انصاری صاحب کی تخلیق ہے!‘‘۔۔۔ اس چوکٹھے سے یہ ظاہر نہیں کہ شگفتہ سیّد نے یہ نظم خود بھجوائی یا مُدیران کی غلطی سے ’’حامد کی پگڑی محمود کے سر‘‘باندھی گئی۔ مگر ہمارے ’’ادبِ لطیف‘‘ کے شمارہ اپریل 2017ء میں ایک نظم بعنوان ’’رفعتِ مقام‘‘ ہمیں ای میل کے ذریعے شازیہ ستار نایاب کے نام سے موصول ہوئی جو دراصل مجیدامجد کی تھی۔۔۔ کیا کہا جائے؟ اِس زورا زوری اور چوری چکاری کے بارے میں:
کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں؟


حضرت علامہ اقبالؒ نے ’’بالِ جبریل‘‘ میں اپنی نظم ’’فلسفہ و مذہب‘‘ کے آخر میں ہر عہد پر غالب مرزا غالب کا شعر اس طرح تضمین کر رکھا ہے، انرورٹڈ کوما میں:
’’ جاتا ہوں تھوڑی دیر ہر اک راہرو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو مَیں‘‘


جبکہ ہر مستند ’’دیوانِ غالب‘‘ میں یہ شعر متذکرہ شکل میں نہیں بلکہ اس طرح ملتا ہے:
چلتا ہوں تھوڑی دُور ہر ایک تیز رو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو مَیں
ماہنامہ’’ نیرنگِ خیال‘‘ کے شمارہ اگست2017ء میں ممتاز راشد لاہوری کا انشائیہ ’’اچھی بُری گلیاں‘‘ کے عنوان سے شائع ہُوا اس میں ایک بہت مشہور شعر بغیر شاعر کے نام کے فاضل انشائیہ نویس نے اس طرح تحریر کیا ہے:
قلندروں نے فقیہوں کو کر دیا حیراں
گلی گلی سے وہ نکلے علی علی کرتے
جبکہ پرواز جالندھری کا یہ شعر صحیح اس طرح ہے:
گلی گلی نکل آئے علیؓ علیؓ کرتے
تمام شہر کو حیراں قلندروں نے کیا
اس غزل کے ردیف و قوافی سکندروں، نے کیا، قلندروں نے کیا وغیرہ ہیں۔


اتوار۔20اگست2017ء6-10 پر ارشد شریف (اینکر پرسن) نے چودھری نثار علی کی پریس کانفرنس پر اپنا تبصرہ و تجزیہ پیش کرتے ہوئے ایک مشہورِ زمانہ شعر کا بغیر شاعر کے نام کے سہارا لیا،مگر اس طرح:
بڑا شور سنتے رہے پہلو میں دِل ہے
جو چیرا تو ایک قطرہ لہو کا نہ نکلا
جبکہ یہ شعر متذکرہ غلط سلط شکل میں نہیں ہے بلکہ آتش لکھنوی کا صحیح شعر یُوں ہے:
بہت شور سنتے تھے پہلو میں دِل کا
جو چیرا تو اک قطرۂ خوں نہ نکلا
غزل میں ’’نہ نکلا‘‘ ردیف ہے اور مجنوں، محزوں، خوں وغیرہ قوافی۔


روزنامہ’’نئی بات‘‘ کے20اگست کے ادارتی صفحہ2پر کالم بعنوان ’’پسِ غبار‘‘ کے ذیلی عنوان ’’اپنے اپنے مطلب نے یکجا کر دیا‘‘ کے آخر میں ایک مشہورِ زمانہ شعر۔ بقولِ شاعر: کے یُوں لکھا ہے:
اپنے اپنے مطلب نے یکجا کر دیا
ورنہ مَیں تیرا نہ تھا تُو میرا نہ تھا
اس طرح احمد فراز کے مشہور شعر کا ’’دھڑن تختہ‘‘ کر دیا ہے صحیح شعر اِس طرح ہے:
اپنے اپنے بے وفاؤں نے ہمیں یکجا کیا
ورنہ مَیں تیرا نہیں تھا اور تُو میرا نہ تھا
نیوز چینل ’’بول‘‘ میں 3بجے سہ پہر جمعرات 22دسمبر کو سیاسی گفتگو کے پروگرام میں ایک شریکِ محفل اسرار احمد کسانہ نے بہت مشہور شعر بغیرشاعر کے نام کے اس طرح سنایا:
قرض کی پیتے تھے مَے اور ہم جانتے تھے ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
میرزا اسد اللہ خاں غالب کا متذکرہ شعر یُوں ہے:
قرض کی پیتے تھے مَے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں!
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
سابق وزیراعظم محمد نواز شریف ’’مجھے کیوں نکالا؟‘‘ کے سوالیہ بیانیے کے ساتھ شعر و شاعری کا سہارا بہ کثرت لے رہے ہیں۔صحافیوں سے لندن میں گفتگو کرتے ہوئے ایک بہت مشہور شعر اس طرح سنایا:
زندگی کچھ اس شکل سے گزری
تو ہم بھی کیا یاد کریں گے خدا رکھتے تھے
متذکرہ صورت میں شعر خاصا مجہول ہو گیا ہے، غالب کا یہ مقطع صحیح اس طرح ہے:
زندگی اپنی جب اس شکل سے گزری غالب
ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے
کسی چینل سے ، جس کا نام اِس وقت ذہن میں نہیں آ رہا۔ہفتہ،19 اگست2017ء کو ممتاز سیاست دان اپنی یک نفری پارٹی کے اکلوتے سربراہ و رہنما شیخ رشیداحمد نے دن2-20 ایک مشہور شعر اس طرح بغیرشاعر کے نام کے دورانِ گفتگو سنایا:
یُوں رو رو کے اشکوں کی آبرو نہ گنوا
یہ گھر بات گھر ہی میں رہے تو اچھا ہے
جبکہ میرے اُستادِ گرامی قدر حضرت احسان دانش کا یہ شعر صحیح یُوں ہے:
کسی کے سامنے اشکوں کی آبرو نہ گنوا
یہ گھر کی بات ہے گھر میں رہے تو اچھا ہے

مزید :

رائے -کالم -