سیاست سے ریٹائرمنٹ کی عمر 75 سال نافذ کی جائے
انسان کی زندگی اپنے متعلقہ حالات کے لحاظ سے خوشگوار یا مشکلات سے دو چار ہوتی ہے۔ اِسی طرح عام لوگوں کی صحت اور تندرستی زندگی کی تعمیر و ترقی میں مثبت اور موثر کردار ادا کرتی ہیں جبکہ قدرت کا اصول یہ ہے کہ کسی شخص کی صحت یا عمر کے بارے میں اُسے خود کوئی علم نہیں ہوتا کہ یہ کتنی مدت تک درست رہے گی اور اس آدمی کی عمر کتنی ہو گی؟ یعنی اِس معاملے میں کوئی شخص خود یا کوئی دوسرا فرد اُس کی عمر کم یا زیادہ ہونے کی نسبت بالکل صحیح پیش گوئی یا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ یہ راز اللہ تعالیٰ کی برتر ذات نے اپنے پاس محفوظ کر رکھا ہے کیونکہ اگر یہ اطلاع لوگوں کو معلوم ہو تو اُس فانی دنیا کا نظام امن و اطمینان سے جاری نہیں رہ سکتا۔ غالباً اِسی بنا پر یہ راز اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو قبل از وقت بتانے سے گریز کرنا ہی بہتر تصور کیا ہے۔
یاد رہے کہ انسان کی صحت و قوت بچپن جوانی اور بڑھاپے میں کم زیادہ اور مفلوج ہو جاتی ہے۔ اِن مراحل میں صحت میں بوجہ بیماری اور معذوری تبدیلیاں واقع ہونے سے آدمی کی اپنے شعبے یا ذمہ داری کی کارکردگی متاثر ہو کر کم ہو جاتی ہے جس کے دوران متاثرہ شخص کو کسی معالج یا ذہنی پریشانی کے ماہر مثلاً سائیکالوجسٹ سے رجوع کر کے دوائی لینے یا احتیاط و پرہیز کرنے کی تجویز و تدبیر پر عمل کرنے کی مشاورت اور ہدایت ملتی ہے تاکہ وہ جلد اپنی صحت کے بحال ہونے پر اپنی زندگی کے معمولات حسب ِ مرضی اور خواہش جاری رکھ سکے۔ قارئین کرام آئے روز یہ مقولہ پڑھتے اور سنتے رہتے ہوں گے کہ تندرستی ہزار نعمت ہے۔ اس کی اہمیت اور افادیت پر توجہ دینے سے انسان اپنی صحت کو درست رکھنے کے لئے حتیٰ المقدور اپنی کوششیں اور کاوشیں بروئے کار لانے میں قدرے زیادہ ذمہ داری کا کردار ادا کرنے پر مائل و راغب ہوتا ہے۔
جیسا کہ سطور بالا میں یہ مختصر تذکرہ قارئین کرام کی نظروں سے گزرا ہے کہ جوانی اور بڑھاپے میں انسان کی قوت و ہمت اور استعداد اپنے علم، قابلیت، ذہانت اور تجربے سے بڑھ کر بہتر اور عملی زندگی کے لئے فائدہ مند ہو جاتی ہے۔اِس طرح وہ اپنی پیشہ ورانہ یا ملازمت کی کارکردگی میں اضافہ کر کے اپنے ذاتی یا قومی مفاد کے ثمرات میں بھی تازہ حالات کے تغیرات سے سود مند نتائج حاصل کر سکتا ہے۔
انسان کی عمر مختلف خطہ ارض کے معاشی اور جغرافیائی حالات کے لحاظ سے کم یا زیادہ ہوتی ہے۔ وطن عزیز میں بھی گزشتہ سالوں کی نسبت بتدریج عام لوگوں کی عمر بوجہ متعلقہ حالات کی بہتری سے کئی سال زیادہ ہو گئی ہے۔ موافق حالات اور متعلقہ سہولتوں کی دستیابی سے قوت بخش عمر کے ادوار میں انسان کی یہ ہر ممکن سعی ہوتی ہے کہ وہ اچھی صحت اور تندرستی کے اوقات میں اپنے امور کی کارکردگی کے دوران زیادہ موثر اور بھرپور انداز سے سود مند نتائج اور مفادات حاصل کر سکے جبکہ عمر کے ڈھلنے اور جسمانی قوت کے لاغر ہونے کے مراحل میں مذکورہ بالا بہتر کارکردگی کا حصول خاصا مشکل اور تقریباً نا ممکن سا معاملہ ہو جاتا ہے۔ حقائق بالا کی روشنی میں سیاست کی دنیا میں سرگرم اور زیادہ تر فعال ہمارے رہنماؤں کو اپنے شعبے میں بھی ریٹائرمنٹ کی عمر متعین اور مقرر کرنے پر خلوص نیت سے غور و فکر کرنے پر توجہ دینی چاہئے حالانکہ وہ اِس حقیقت سے بخوبی آگاہ و آشنا ہیں کہ یہاں سرکاری افسران اور ملازمین اعلیٰ تعلیم و تربیت کے باوجود قریباً 60 سال کی عمر میں اپنے فرائض کی انجام دہی سے فارغ کر دیئے جاتے ہیں۔ بیشک اُن میں سے چند حضرات و خواتین کی ملازمت میں مختصر مدت کی توسیع کی جاتی ہے تاکہ اُن کی غیر معمولی صلاحیت اور تجربے سے متعلقہ شعبوں کو بہتر کارکردگی کے مفادات فراہم کئے جا سکیں لیکن عمومی طور پر انسان کی عمر زیادہ ہونے سے اس کی جسمانی اور ذہنی کارکردگی فطرت کے معینہ اصولوں سے احراف کر کے جوانی کے ماہ و سالوں کے تائج تو نہیں دے سکتی۔ اِس لئے ہمارے سیاست کار حضرات کو جلد 72 سے 75 سال کی عمر تک ریٹائر ہونے کی قانون سازی کر کے اُس کا عملی نفاذ کرنا چاہئے۔یہ امر افسوس ناک ہے کہ کئی ممالک کے سیاست کار حضرات اپنے بارے میں اس نوعیت کی قانون سازی سے گریز کر کے اپنی خود غرضی اور کوتاہی ہے۔ اس کار خیر میں پاکستان کو جلد قانون سازی کر کے دیگر ممالک کے لئے اچھی اور قابل تقلید مثال قائم کرنی چاہئے۔