معلوماتی سفرنامہ۔۔۔پچیسویں قسط
Mکی شکل کی آبشار
واپس اوپر آکر ہم پارک میں آگے کی سمت بڑھنے لگے۔ راستے میں تین پل ملے جو بہتے ہوئے پانی کے اوپر بنائے گئے تھے۔ اس کے بعد ایک جگہ نظر آئی جہاں ریلنگ لگی ہوئی تھی اور لوگ یہاں سے کھڑے ہوکر آبشار کو گرتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔ ہم بھی وہاں جاکر کھڑے ہوگئے۔ یہاں سے سامنے کینیڈا نظر آرہا تھا۔ بائیں طرف بڑی آبشار تھی اور دائیں طرف امریکی آبشار۔ اس جگہ سے ہمیں امریکی آبشارکی صحیح ساخت کا اندازہ ہوا۔یہ انگریزی زبان کے حرف Mکی شکل کی بنی ہوئی تھی۔ دو بہت بڑے دھارے نیچے گررہے تھے اور یہی دو دھارے سامنے سے نظر آتے تھے۔ مگر یہاں سے دیکھا کہ ان کے بیچ میں ایک چھوٹا دھارا بھی نیچے گررہا ہے جس نے اسے Mکی شکل دے دی ہے۔ شاید پتھروں یا بلند زمین کے آجانے کی بنا پر دریا کے بہاؤ میں یہ کٹاؤ پیدا ہوگیا تھا۔ یہاں سے اس پوری آبشار کا منظر بڑا اچھا لگ رہا تھا۔ میں نے سوچا کہ خدا کی قدرت ہے کہ ایک طرف بڑی آبشار ہے جو انگریزی کے حرف U کی مانند ہے اور دوسری طرف M بنا ہوا ہے۔
معلوماتی سفرنامہ۔۔۔چوبیسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
گھوڑے کی نعل والی آبشار کا امریکی رخ
یہاں سے ہم آگے بڑھے تو ایک اور چھوٹاسا دھارا آیا مگر دوسروں کی موجودگی میں وہ قابلِ التفات نہ ٹھہرا۔ ہم چلتے چلتے گھوڑے کی نعل یا U کی شکل والی آبشار کے قریب پہنچ گئے۔اس آبشار کا ایک نقطۂ آغاز یا کونا تو کینیڈا کی طرف تھا اور دوسرا یہ تھا جہاں ہم اس وقت موجود تھے۔ یہی وہ حصہ تھا جہاں پانی پورے زور و شور سے نیچے گر رہا تھا۔ کینیڈین سائڈ پرپانی کے نسبتًا آہستہ گرنے کی وجہ یہ تھی کہ وہاں دریا کے بیچ میں خشکی کا ایک جز یرہ سا تھا جس نے پانی کے بہاؤ کا اصل زور توڑ دیا تھا۔تاہم اس طرف پانی اسی جوش سے آرہا تھا جس طرح ہمارا دریائے سوات پہاڑی علاقوں میں تیزی سے بہتا ہے۔ چنانچہ یہاں سے پانی ایک زور دار آواز اور موٹی دھار کے ساتھ نیچے گررہا تھا۔ اتفاق سے عین اس کے نیچے بڑے بڑے چٹانی پتھر پڑے تھے۔ چنانچہ آبشار دریا کے بجائے ان پتھروں پر گرتی تھی۔ جن سے ٹکراکر پانی فضا میں بلند ہوتا چلا جاتا اور جھاگ کا وہ بادل وجود میں آتا جو سیکڑوں فٹ بلند تھا۔ کینیڈا کی سمت سے پانی کی دھند کی بنا پر وہاں سے یہ منظراتنا واضح نظر نہیں آرہا تھا مگر یہاں سے بالکل صاف دکھائی دیتا تھا۔
اس منظر نے ہم لوگوں کو آخری حد تک مسحور کردیا۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ دن بھر کی تیز دھوپ کے بعد اب سورج ڈوبنے کے بالکل قریب تھا اور دھوپ کی تمازت دم توڑ چکی تھی۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ ہر طرف سبزہ تھا جو آنکھوں کو بڑا بھلا لگ رہا تھا۔ ان سب چیزوں کا طبیعت پر اثر ہونا لازمی تھا۔ اس وقت مغرب کا وقت ہورہا تھا۔ سامنے اسکائی لون ٹاور پر لگی گھڑی نو بجارہی تھی۔ اس میں درجۂ حرارت بھی آرہا تھا جو 22ڈگری تھا۔ ہم اس وقت تک امریکی حصے کو بھی اچھی طرح کھنگال چکے تھے۔ میں ریلنگ کے ساتھ لگی نشست پر بیٹھ گیا اور اس حسین منظر سے لطف اندوز ہونے لگا۔ سامنے شور مچاتا ہوا دریاتھا جوکنارے پر پہنچ کر آبشار کی شکل میں نیچے گررہا تھا۔ پانی کی اڑتی ہوئی بوچھاڑ وقفے وقفے سے مجھ پر بھی آجاتی۔ سامنے کینیڈا کی سمت ڈوبنے والا سورج اپنے پیچھے آسمان پر شفق کی سرخی چھوڑگیا تھا۔ ٹھنڈی ہوا، نیلا آسمان، اڑتے ہوئے خوبصورت پرندے، بہتا پانی ،سرسبز درخت اور سارا دن کے گھومنے پھرنے کی تھکن کے بعد یہ آرام دہ لمحات۔ مجھے وقت کی رفتار ٹھہری ہوئی محسوس ہوئی۔ دل نہیں چاہتا تھا کہ یہاں سے اٹھوں۔ مگر جو ٹھنڈی ہوا مجھے بڑی خوشگوار لگ رہی تھی وہ میرے ساتھیوں کو اب ناگوار لگنے لگی تھی۔ جیسے جیسے وقت گزرہا تھا آبشار کا رنگ بھی بدل رہا تھا۔ سفید سے سبزی مائل ہوتا پانی اب اور اچھا لگنے لگا تھا۔ٹھنڈ بڑھتی جارہی تھی اس لیے ہم نے روانگی کا ارادہ کیا۔ مغرب کی نما زپارک میں ہی پڑھی۔ راستے میں ایک جگہ رک کرمزیدار کافی پی اور پھر اپنی منزلِ مقصود کی طرف روانہ ہوگئے۔
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
کینیڈ ا میں موسمِ گرما کا آغاز سرکاری طور پر 21جون سے ہوتا ہے۔ جولائی اور اگست گرمی کے مہینے ہوتے ہیں۔ میں نے یہ معلومات کینیڈا سے متعلق معلوماتی کتابچے میں پڑھیں۔ دوست احباب نے بھی بتایاکہ جب یہاں گرمی ہوگی تو آپ کو بھی گرمی کے مارے مزہ آجائے گا۔ تاہم 21جون آیا اور آکر گزر گیا۔ گو اب موسم سرد نہیں رہا تھا مگر اسے گرم بھی نہیں کہا جاسکتا تھا۔ نیاگرا میں گرمی ضرور لگی تھی مگر اس کی وجہ یہ تھی کہ ہم دھو پ میں گھوم رہے تھے۔ تاہم جس گرمی سے ڈرایا گیا تھا وہ ابھی تک نہیں آئی تھی۔ میں سمجھ رہاتھا کہ یہ لوگ سردی میں رہنے کے عادی ہوگئے ہیں اس لیے معمولی گرمی سے بھی پریشان ہوجاتے ہیں۔
جولائی کے آتے آتے آسمان نے ایک اور رنگ بدلا۔ سال بھر ٹھنڈی ہوا، برف ، بارش اور نمی کی ماری زمین آسمان کے بدلتے چہرے کی تاب نہ لاکر سلگنے لگی۔وہ سورج جو سال بھر سردی کے مارے دن میں بادلوں کی قبااور رات میں اندھیرے کی چادراوڑھے دبکا پڑا رہتا تھا، سردی کے جاتے ہی شیر ہوگیا۔ جس روز وہ بادل کا گھونگٹ الٹ کر دولتِ دیدار تقسیم کرتا لوگ محاورتاًنہیں حقیقتاً پانی پانی ہوجاتے۔ اس پانی کو سکھانے کے لیے ہر جگہ پنکھے اور اے سی چلنے لگے۔ دوسروں کو چھوڑیں مجھے خود پر حیرت ہونے لگی کی کینیڈا آئے ہوئے چند مہینے ہوئے اور یہ گرمی زیادہ لگنے لگی۔
مقامی لوگوں کے لیے گرمی کا موسم گو شدیدہوتا ہے مگر یہ ان کے گھومنے پھرنے اور تفریح کا موسم بھی ہوتا ہے۔ اپریل سے ستمبر تک ہر مہینے ایک لانگ ویک اینڈ ضرور آتا ہے۔ یعنی ہفتہ اتوار کے ساتھ پیر یا جمعے کی چھٹی بھی ہوتی ہے۔جون کے آخر تک تعلیمی اداروں میں چھٹیاں ہوجاتی ہیں اور لوگ گھومنے پھرنے نکل جاتے ہیں۔ اس دوران شہر میں بھی مستقل میلے کا سماں رہتا ہے۔ مختلف تفریحی پرگرام، پریڈ، مقابلے، تہوار اور دیگر تفریحات جاری رہتی ہیں۔ جن کی تفصیل ان بروشرز میں مل جاتی ہے جو بسوں میں موجود ہوتے ہیں۔سال بھر سردی کے ستائے ہوئے لوگوں کے لیے یہ موسم ایساہی ہوتا ہے جیسے گرم علاقوں میں تپتی دوپہر کے بعد کالی گھٹا ابر رحمت برسادے۔ تاہم اس موسم کا نئے آنے والوں کے اخلاق پر بہت برا اثر پڑتا ہے۔ البتہ پرانے لوگوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ان کا اخلاق پہلے ہی خراب ہوچکا ہوتاہے۔ ہمارے ہاں مغرب کی بدنامی کی و جہ یہ بھی ہے کہ وہاں سے لوگ یہاں گرمیوں میں ہی آتے ہیں جب یہ لوگ مکمل طور پر جامے سے باہر ہوتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ آنے والے بھی اس موسم میں یہاں اپنا چال چلن ہی خراب کرنے آتے ہوں۔ اپنے ملک میں تو یہ موقع باآسانی نہیں مل سکتا۔ واپس جاکرگوروں کوبھی برا بھلا کہہ دیتے ہیں تاکہ اپنی طرف سے اعلانِ برأت ہوجائے۔
ایک عالمِ دین کی آمد
گرمیوں کی آمد کے ساتھ ہی جہاں اس خطے میں زندگی کی چہل پہل پورے عروج پر پہنچ جاتی ہے ، وہیں پاکستان سے علماء، شعرا،کالم نویسوں، ادیبوں ، گلوکاروں اور فنکاروں کی آمد بھی شروع ہوجاتی ہے۔ ان لوگوں کو بلانے کا اہتمام وہ پاکستانی کرتے ہیں جو یہاں کافی عرصے سے مقیم ہیں اور مالی استحکام حاصل کرچکے ہیں۔ اس طرح یہ لوگ اپنے وطن اور ثقافت سے جڑے رہنا چاہتے ہیں۔ کچھ لوگ بالخصوص فنکار اور گلوکار کمرشل شوز کے لیے آتے ہیں۔ اب یہ سلسلہ مستقل ہوچکا ہے اور ہر سال بڑی تعداد میں نمایاں پاکستانی شخصیات یہاں آتی ہیں۔
اس سال بھی بڑی تعداد میں لوگ آئے تھے۔ انہی میں پاکستان کے ایک بڑے عالمِ دین بھی تھے۔ وہ امریکا سے ہوکر چند دنوں کے لیے کینیڈا بھی آئے۔ دوسرے لوگوں کی تقریب میں اگر کوئی جانا چاہے تو کافی مہنگا ٹکٹ ہوتا ہے یا کم از کم پاس ضرور لینا پڑتا ہے۔ جبکہ علما کا معاملہ یہ ہوتا ہے کہ یہ لوگ آنے والوں سے کچھ بھی نہیں مانگتے۔ نہ تالیاں، نہ واہ واہ ، نہ حقِ خدمت اور نہ چندہ۔ میں صالح علما کی بات کررہا ہوں۔ یہ بھی ایک ایسے ہی عالمِ دین تھے جن کا پورا خاندان دین کی خدمت کے حوالے سے معروف ہے۔
انہوں نے ٹورنٹو میں تین دن تین مختلف مساجد میں تقریریں کیں۔ میں تینوں میں شریک ہوا۔ مجھے یہ بات بے حد پسندآئی کہ انہوں نے تینوں دن بہت اچھے اور حسبِ ضرورت موضوعات کا انتخاب کیا۔ ایک دن موت اور آخرت، دوسرے دن اخلاق ومعاملات اور تیسرے دن اللہ کا ذکر اور تقویٰ کو موضوع بنایا۔ وگرنہ بہت سے نام نہاد عالم ایسے بھی ہوتے ہیں جو ملک سے باہر آکر بھی اپنے مسلک اور فرقے کی دکان چمکاتے ہیں۔ برطانیہ میں تویہ وبا پھیل چکی ہے مگر یہ خطہ ابھی تک اس مصیبت سے محفوظ ہے۔ انہوں نے مسلمانوں کو وہ اصول بھی بتائے جن کی روشنی میں وہ مغرب میں رہ کر بھی اپنا تحفظ کرسکتے ہیں۔ میرے لیے خوشگوار حیرت کا مقام تھاکہ تینوں دن ، چھٹی نہ ہونے کے باوجود،بہت بڑی تعداد میں لوگوں نے ان محافل میں شرکت کی۔
کینیڈا میں اسلام وعیسائیت کی تبلیغ
یہاں اسلام سب سے زیادہ تیزی سے پھیلنے والا دین ہے۔ مگر سب سے بڑے پیمانے پر دعوتی سرگرمیاں عیسائیوں کی طرف سے کی جاتی ہیں۔ مجھے کئی دفعہ راستے میں چلتے ہوئے عیسائیت سے متعلق تبلیغی لٹریچر تھما دیا گیا۔ بلکہ ایک دفعہ گھر پربھی عیسائی مبلغین آئے تھے۔ ایک سری لنکن جس کے ساتھ میں مقیم تھا اس نے مجھے بتایا کہ یہ لوگ اکثر آتے رہتے ہیں۔ عیسائیوں کے لٹریچر میں معقولیت نام کی تو کوئی چیز نہیں تھی۔ البتہ دو چیزیں اس میں بڑے نمایاں طور پر موجود تھیں۔ ایک یہ کہ ان میں لوگوں کے سطحی جذبات کو بڑی شدت سے ابھارا گیا تھا۔ شرک کی سطحی اپیل ویسے بھی بہت زیادہ ہوتی ہے۔ وہ خداجو علم و ادراک کی گرفت میں نہ آئے انسانوں کے لیے اسے پکارنا کبھی آسان نہیں رہا ، آج بھی نہیں ہے۔ جبکہ ایک انسان جو تصور میں آسکے اس کی دہائی دینا بڑا آسان ہے۔ اقبال نے’’شکوہ‘‘ میں اسی بات کویوں بیان کیا ہے۔
خوگرِ پیکرِ محسوس تھی انساں کی نظر
مانتا پھر کوئی ان دیکھے خدا کو کیونکر
چنانچہ عیسائی لٹریچر میں یہی بات بڑی نمایاں تھی۔ تاہم مغرب میں چونکہ علم و شعور زیادہ ہے اس لیے ان کی یہ جذباتی اپیل وہاں زیادہ مؤثر نہیں ہے۔ اس کی اصل تاثیر افریقہ اور ایشیا کے ان پس ماندہ علاقوں میں ظاہر ہوتی ہے جہاں لوگوں کے دماغ کو پیٹ کے مسائل سے ہی فرصت نہیں ملتی۔ علمی عقلی سوال اٹھانا ویسے بھی غریب اور ان پڑھ لوگوں کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ لہٰذا کسی قسم کی علمی اور عقلی تنقیدکا سوال پیدا ہی نہیں ہوتا۔
دوسرا پہلو اس لٹریچر کا یہ تھا کہ طباعت کا معیار بہت اعلیٰ تھا۔ رسالہ پورا رنگین اورخوبصورت تصاویر سے مزین تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ ان کے پاس پیسے کی کوئی کمی نہیں اسی لیے اس درجے کا لٹریچر مفت میں بانٹتے پھر رہے ہیں۔ بہت سے لوگوں کو شاید اس بات کا علم نہ ہو کہ ان کے ہاں تبلیغ باقاعدہ ایک پیشہ ہے اور بہت منفعت بخش پیشہ ہے۔
کینیڈا میں مسلمانوں کا دعوتی کام بھی دیکھا۔مسلمان یہ کام زیادہ ترانفرادی بنیادوں پر کرتے ہیں۔ البتہ ایک دفعہ ایک مسلمان تنظیم کا ایک بروشر بھی ملا جو عیسائیوں کے ذہن میں اٹھنے والے اعتراضات کے اعتبار سے ترتیب دیا گیا تھا مگر اس میں مناظرے کا رنگ نمایاں تھا۔ یہ انداز مجھے قطعاً پسند نہیں۔ دعوتِ دین ہمیشہ خیر خواہی کے جذبے کے تحت دینی چاہیے۔ نہ کہ دوسروں کو شکست دے کر اپنی فتح کا جھنڈا گاڑنے کے لیے۔
(جاری ہے۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)
( ابویحییٰ کی تصنیف ’’جب زندگی شروع ہوگی‘‘ دور جدید میں اردو زبان کی سب زیادہ پڑھی جانے والی کتاب بن چکی ہے۔انہوں نے درجن سے اوپر مختصر تصانیف اور اصلاحی کتابچے بھی لکھے اور سفر نامے بھی جو اپنی افادیت کے باعث مقبولیت حاصل کرچکے ہیں ۔ ان سے براہ راست رابطے کے لیے ان کے ای میل abuyahya267@gmail.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔)