سرد شاموں کی کھوکھلی دنیا

اپنی بے سروپا سیاسی الجھنوں کی شکار، عقائد در عقائد کی پیچیدگیوں میں غلطاں اور ہر آن نجات کی فکر سے بوجھل، لیکن سرمستیوں میں مگن اس عظیم پاکستانی قوم کو کون سمجھائے کہ دنیا ان کے شور شرابے سے بے نیاز اپنا کام کررہی ہے اورکسی کو اس سرزمین پر بپا ہونے والے ہنگاموں، لگائے جانے والے نعروں اور کئے جانے والے تبصروںسے کوئی سروکار نہیںہے.... جس دوران ہم نجات اور انقلاب کے خبط کے دائمی اسیر ہیں، دنیا میں ہونے والی سائنسی ترقی کی ایک جھلک اس پیش رفت سے ملتی ہےبرطانوی سائنسدانوںنے ڈی این اے (خلئے میں پایا جانے والا کیمیائی مادہ جو زندگی کے سربستہ رازوں کا امین ہے)کے انتہائی چھوٹے ٹکرے ، جو ایک خاکی ذرے سے بڑا نہیں تھا، میں عظیم الشان مواد ، جو ستر ہزار خلیوں کے برابر تھا،کو سٹور کرنے کا طریقہ دریافت کیاہے۔ کیا ذہن چکرا گیا ہے یا نہیں ؟ مَیں اس کا ذکر اس لئے نہیں کر رہا کہ یہ کوئی انتہائی انوکھی ترقی ہے، بلکہ اس لئے کہ آج کے اخبارات میں ا س کا ذکر ہوا ہے۔ اس دوران ہمار ا حال یہ ہے کہ ہم حماقتوں کے شاہکار تخلیق کررہے ہیں،بے سروپا انتہاپسندانہ نظریات کو جواز بنا کر ایک دوسرے کو ہلاک کررہے ہیں اور جب اس مصروفیت سے کبھی فراغت ہو تو انقلا ب کے تانے بانے بننے لگتے ہیں۔ جہاں تک اس اسلامی جمہوریہ کی حکومت کا تعلق ہے تو اس کو سوائے پابندیاں لگانے کے اور کچھ نہیں سوجھتی یو ٹیوب پر پابندی لگاتے ہوئے عقیدے کی سربلندی کے لئے یہ بھی اپنا کردار ادا کررہی ہے۔ اگر حماقتوں کا کوئی عالمی مقابلہ ہو تو صرف یہی اقدام ہمیں طلائی تمغہ دلا دے۔ حقیقت یہ ہے کہ ویب کا جال فحاشی یا توہین آمیز مواد کے لئے نہیںہے، اگرچہ ایسا مواد بھی اس میں ڈالا جا سکتا ہے۔ یہ دراصل علم کا وہ خزانہ ہے، جس نے اس زمین کو گھیرے میں لیا ہوا ہے اور ہر کوئی اس تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔ کیا دوردراز ممالک میں واقع عظیم الشان کتب خانوں یا عجائب گھروں میں جا کر علوم کے چشموں سے فیضیاب ہونا آسان کام ہے؟ یقینا نہیں، لیکن سائبر سپیس نے اس کام کو اتنا سہل بنا دیا ہے کہ انگلی کی ایک ادنیٰ سی جنبش آپ کو کسی بھی لائبریری میں لے جاتی ہے، تاہم ہم نے حماقتوں کی حد کر تے ہوئے اس کاایک بڑا اور اہم حصہ خود پر حرام کر رکھا ہے۔ کوئی استدلال یا معقول رویہ اس کا جواز پیش نہیں کرسکتا، لیکن یہ سرزمین استدلال کی گزرگاہ ہے بھی نہیں۔ اداس اور بے کیف شاموں کو جب سرخ انگارہ سورج شفق کو رنگین تر کرتا ہوا مغرب میں اتر جاتا ہے، مگر ہمارے دل اس بے رنگ زندگی ، جس کا ہر دن بقول منیر نیازی ” اج دا دن وی ایویں لنگیا“ کی عملی تصویر بنے خزاں رسیدہ پتوںکی طرح اداس ہوتے ہیں تو کیا یہ بہتر نہیں کہ کسی من پسند مشروب کا گلاس تھامے ایس بی جان کالافانی نغمہ ”تو جو نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے“ .... یا کے ایل سہگل ،لتا منگیشکر، محمد رفیع ، میڈم نورجہاں یا بہت سے دیگر استادوں کی جانفزا آواز کے مدبھرے سمندر میں خود کو گم کرلیں؟ان سب کی ریکارڈنگ یو ٹیوب پر موجود ہے، لیکن واحسرتا!کچھ عرصہ پہلے مجھے ایک فون وصول ہوا” مَیں ایس بی جان ہوں“.... سوچا کہ کوئی مذاق کررہا ہے، مَیں نے بے ساختہ کہہ دیا کہ اگر تم ایس بی جان ہو تو مَیںبھی بڑے غلام علی خان ہوں۔ بہرحال وہ واقعی جان صاحب تھے اور نہایت شفیق اور مہربان تھے۔ ان سے کراچی جا کر ملاقات کرنی ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سی چیزیں ہیں، جن کو فراموش کرنا ممکن نہیں۔جیسا کہ جب مشہور امریکی اداکار اُرسن ویلس (Orson Welles)ویسٹ انڈ میں شیکسپیئر کے لافانی ڈرامے ”اوتھیلو “ میںپرفارم کر ررہاتھا، جبکہ سر ونسٹن چرچل ہال کی پہلی قطار میں بیٹھے ہوئے تھے اور جب ڈرامہ شروع ہوا تو ویلس نے کچھ مدہم سی آواز سنی جو مسلسل اُسے پریشان کرتی رہی۔ پتہ چلا کہ یہ چرچل ہیں جو ڈرامے کی ہر لائن کو ساتھ ساتھ ادا کررہے ہیں ۔ بعد میں چرچل سٹیج کے پیچھے گئے اور پورا ”اوتھیلو “ حرف بہ حرف سنا دیا، خاص طور پر اُن حصوںکی نشاندہی کی، جن کو مسٹر ویلس نے چھوڑ دیا تھا۔ سٹیج اداکاری کے شائقین ویلس کی پرفارمنس کو دیکھیں کہ ان کا تلفظ، لہجہ، ادائیگی، آنکھوں اور چہرے کے تاثرات اور مزاح کس درجے کے تھے۔ دوسری جنگ عظیم میں فتح حاصل کرنے ( جس کو دور ِ جدید کی سب سے بڑی فتح قرار دیا جا سکتا ہے).... مگر انتخابات میں شکست کھانے کے بعد چرچل اپنی بیوی کلے منٹائن کے ساتھ وینس میں تعطیلات گزار رہے تھے ۔ اُس وقت ویلس بھی ایک امریکی فنانسر کے ساتھ یہاں کسی فلم کے لئے رقم جمع کرنے کے لئے آئے ہوئے تھے۔ایک لنچ کے دوران جب وہ امریکی اداکار چرچل کی میز کے پاس سے گزرے تو چرچل نے ویلس کی طرف دیکھ کر سرکو تھوڑاسا جھکایا۔ اس پذیرائی پر اُرسن ویلس خوشی سے دیوانے ہو گئے پھر اُنہوںنے سرونسٹن چرچل کی جیب سے بھی رقم نکلوا لی۔ اگلی صبح جب وہ تیراکی کررہے تھے تو ویلس تیرتے ہوئے چرچل کے نزدیک آئے اور کہا کہ ان کا سلام کرنا اُس کی زندگی کا یاد گار لمحہ تھا۔ اُسی روز لنچ پر جب امریکی اداکار ہال میں داخل ہوئے تو چرچل کرسی سے کھڑے ہوئے اور بہت زیادہ جھکتے ہوئے اُسے سلام کیا۔ اس کا مسٹر ویلس پر کیا اثر ہوا؟ کہنا مشکل ہے۔ رچرڈ برٹن نے بھی سرونسٹن چرچل کے بارے میں ایسا ہی واقعہ بیان کیا ہے....(یہ سب کچھ یوٹیوب پر موجود ہے مگر)کہ جب وہ شیکسپیئر کا ڈرامہ ”ہیملٹ “ کر رہا تھا تو ایک شام ڈرامے کے منیجر نے کہا: ”خیال کرنا، بڑے میاں آرہے ہیں“۔ہر کوئی جانتا تھا کہ ”بڑے میاں “ سے مراد کون ہے۔ اس پر برٹن پریشان ہو گیا۔ اُس نے کہا:” وہ اچھا ہیملٹ ثابت نہیں ہو سکے گا، اگر اُس کا جسم پسینے میں نہایا ہوا ہو اور پریشانی کے عالم میں اُس کے تمام بال کھڑے ہوں.... پھر وہی ہوا جس بات کا ڈر تھا، جب پرفامنس شروع ہوئی تو اگلی قطار میں بیٹھے سرونسٹن چرچل نے ساتھ ساتھ ڈرامہ دہرانا شروع کر دیا۔ برٹن نے اُن کو چکما دینے کی بہت کوشش کی کبھی ادائیگی تیز اور کبھی آہستہ کرتے ہوئے، مگر بے سود۔ جب پہلا ایکٹ ختم ہوا تو سرونسٹن چرچل اپنی سیٹ سے اٹھ کھڑے ہوئے تو اداکاروںنے سکون کا سانس لیا کہ اب ”بڑے میاں “ سے نجات مل گئی ہے، لیکن اچانک برٹن نے اپنے دروازے پر دستک سنی۔ دروازہ کھولا تو سر ونسٹن چرچل نے ادب سے سرجھکا کر کہا”مائی لارڈ ہیملٹ،کیا مَیں آپ کا واش روم استعمال کر سکتا ہوں“؟....بعد میں برٹن کو پتہ چلا کہ ”بڑے میاں “ کو اُس عظیم ڈرامہ نگار کے ایک درجن کے قریب ڈرامے زبانی یاد ہیں.... چنانچہ سر ونسٹن چرچل کو تقریر اور آوازوں کے اتارچڑھاﺅ کا ملکہ ایسے ہی حاصل نہیں تھا۔
اسی طرح پیٹر یسٹنوف (Peter Ustinov) کی لاجواب پرفارمنس بھی یوٹیوب پر موجود ہے۔ ان کی اداکاری اتنی پُر لطف ہے کہ پتھر بھی مسکرا دیں۔ جب وہ دوسروںکی نقلیں اتارنے پر آتے ہیں تو اُن کا کوئی مقابلہ نہیںکرسکتا۔ عظیم روسی موسیقار تشاکوسکی کی دلکش دھنیں دل کو وجد میں لے آتی ہیں۔ مَیں نے اُن کو کبھی پورا نہیں سنا، بس شروع کے کچھ نوٹ اور پھر آرکسٹرا کے ساتھ خود فراموشی کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ بہت سے اطالوی اور ارجنٹائن کے موسیقاروں کو یوٹیوب پر سنا جا سکتا ہے، لیکن ان کی ریکارڈنگ ہم عام مارکیٹ سے حاصل نہیں کر سکتے ہیں۔ جب میری عمر کے لوگ نوجوانی کی حدود میں قدم رکھ رہے تھے تو ہمارے پاس موسیقی کے لئے صرف ریڈیو یا کسی کسی کے پاس ٹیپ ریکارڈر ہوا کرتا تھا، کیونکہ ہر کوئی اُس مہنگی چیز کو نہیں خرید سکتا تھا۔ جب مجھے مشہور موسیقار بیتھوون کی کیسٹ ملی تو مَیں ہمہ وقت اس کو بجایا کرتا تھا، کیونکہ میرے پاس صرف یہی ایک تھی، تاہم آج علم، تفریح اور معلومات کی فراوانی کا عالم دیکھیں!آج کی انٹر نیٹ اور آئی پوڈ کی دنیا پر نظر ڈالیں ، یہ سب ایجادات اور نظام کس کے ہاتھوںانجام پارہے ہیں؟ ”محو ِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی“ اور ایک ہم ہیں کہ عقل پر پڑے پتھر کو ”استقامت “ سمجھ کر نازاں ہیں۔ آج موسیقی اور اداکاری کے شہ پاروں سے لطف اندوز ہونے کے لئے آپ کو دنیا کے بر ِ اعظموں کے چکر کاٹنے کی ضرورت نہیں ، یہ سب کچھ ویب کی دنیا میں موجود ہے۔ مَیں مغربی یا مشرقی موسیقی کا ذوق تو رکھتا ہوں، مگر اس کی گہرائیوںسے نا بلد ہوں ، تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ اس سے لطف اندوز ہونے کے لئے ضروری نہیں کہ آپ اس کے ماہر بھی ہوں۔ اس کے لئے ”صاحب ِ ذوق “ کانوں کا ہونا ضروری ہے۔ مَیں بعض اوقات مسکاگنی کے اوپیرا کی موسیقی نوجوانوں کو سناتا ہوں۔ وہ اس کا فہم نہیں رکھتے، لیکن اسے پسند کرتے ہیں۔ چنانچہ اگر آپ کو موسیقی کی دھنوں یا آلات کا علم نہیں تو بھی اس سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ مغربی کلاسیکی موسیقی کسی ایک ملک یا قوم کی میراث نہیں، بلکہ یہ تمام انسانیت کا ورثہ ہے، تاہم جرمن دوستوں کی نازی موسیقی اس سے سوا ہے۔ اس وقت قوم کی نفسیات جس کرب سے گزر رہی ہے ، اس سے نکلنے کے لئے ضروری ہے کہ دل کے تار موسیقی کے ساتھ بج اٹھیں اور پھر پندار کا صنم کدہ ابھی ویران نہیںہوا ہے۔
نوٹ ! اس کالم کے جملہ حقوق بحق رائٹ ویژن میڈیا سنڈیکیٹ پاکستان محفوظ ہیں۔ اس کی کسی بھی صورت میں ری پروڈکشن کی اجازت نہیں ہے۔مصنف، معروف کالم نگار اور سیاسی تجزیہ کار ہیں۔