سٹریٹ فائٹرکی ان کہی داستان، اڑتالیسویں قسط
یہ جو وسیم آپ کو دکھائی دے رہا ہے۔اس کے پیچھے حقیقتاً ایک ایسی عورت کا ہاتھ ہے جس کے ہاتھ میں کامیابیوں کی کنجی ہے۔ہما پاکستانی ٹیم کے ساتھ بھی جاتی رہی ہے اور کھلاڑیوں کا مورال بلند کرتی رہی ہے۔وہ گریٹ عورت ہے۔نہایت خوش مزاج اور ذہنی طور پر فٹ عورت۔شوکت خانم میں فری جاب کرتی رہی ہے۔بچوں کی نگہداشت میں بے مثال مال اور شوہر کی خدمت میں بے مثال بیوی ہے۔
وسیم اکرم ایک خوش مزاج جگت باز اور لطیفہ گو انسان ہے۔نہایت برجستہ اور موقع محل کے مطابقلطیفہ سنانے اور لا جواب بات کرنے میں ماہر ہے۔ہمارے مشہور کامیڈین سہیل احمد ،امان اللہ بھی وسیم اکرم کی جگتوں سے گھبرا جاتے ہیں۔ایک بار ہم لوگ نیویارک جارہے تھے۔عمران خان کی موجودگی میں وسیم اکرم ہمیشہ کم بولتا تھا۔اس روز عمران خان ساتھ نہیں تھے۔لہٰذا وسیم اکرم کو ڈھیل مل گئی تھی۔
استاد نصرت فتح علی خان بھی ہمارے ہم سفر تھے۔وسیم اکرم کے لطیفوں نے محفل گرما دی تھی۔وہ بار بار میراثیوں کے لطیفے سنا رہے تھے۔استاد نصرت فتح علی خان کے ساتھ ان کا منیجر اقبال بھی تھا۔ وہ وسیم اکرم کے لطیفے سن کر پریشان ہو گیا اور لڑکھڑاتی آواز میں اس نے ا ستاد نصرت فتح علی خان سے کہا’’خان صاحب وسیم صاحب کو منع کریں جی۔یہ بار بار ہماری برادری کے لطیفے سنا رہے ہیں‘‘۔
خان صاحب نے ہنستے ہوئے اقبال کو سمجھایا’’یار تو خاموش بیٹھا رہ۔تجھے اسکپورز ہونے کی کیا ضرورت ہے۔‘‘
سنتالیسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
وسیم اکرم یار دوستوں کے ساتھ گپ شپ لگانے اور محفل سجانے میں بڑی مہارت رکھتا ہے۔زندہ دل انسان ہے۔اسے اپنی فٹنس کی بھی فکر رہتی ہے۔اس لئے وہ ٹینشن کو خود پر سوار نہیں ہونے دیتا۔
وسیم اکرم کی یہ خوبی ہے کہ وہ تین سال سے شوگر کے مرض میں مبتلا ہونے کے باوجود نہایت محنت کے ساتھ کھیل رہا ہے۔اس حوالے سے وہ دنیا کا واحد کرکٹر ہے جو موذی اور تکلیف دہ مرض میں مبتلا ہو کر ورلڈ ریکارڈ قائم کررہا ہے۔اس کی شوگر کی بیماری بھی میں نے ہی دریافت کی تھی۔1999ء کی بات ہے ۔ایک روز اس نے مجھے فون کیا اور پریشانی سے بتایا۔
’’سڈمجھے پیشاب بہت آنے لگا ہے‘‘۔
میں ڈاکٹر تو نہیں تھا مگر اپنے تجربہ اور مشاہدہ کے مطابق سوال کیا
’’دن میں کتنی بار آرہا ہے‘‘۔
’’دن میں‘‘وہ تعجب سے بولا۔’’مجھے تو ہر دس منٹ بعد پیشاب آرہا ہے۔‘‘
’’تو پھر تم میرے پاس آجاؤ‘‘۔
میرے کہنے پروسیم میرے گھر آیا اور میں نے کہا۔’’تم ڈاکٹر فیصل مسعود سے ملو۔مجھے لگتا ہے تمہیں شوگر ہو گئی ہے۔میں نے تمہارے آنے سے پہلے انہیں فون کر دیا ہے۔‘‘
وسیم گھبرایا۔میں نے اسے تسلی دی لہٰذا وسیم اکرم ڈاکٹر فیصل مسعود کے پاس گیا تو ٹیسٹ کرنے پر معلوم ہوا کہ اسے شوگر ہے اور خاصی ہے۔لہٰذا اسے فوراً انسولین پر لگا دیا گیا ۔تب سے وہ انسولین لے رہا ہے اور سخت محنت کررہا ہے اس کے بغیر وہ چل نہیں سکتا۔لیکن آپ سوچئے کہ بیمار ہونے کے باوجود وہ عام انسانوں اور باقی تمام کرکٹرز سے کس قدر تازہ دم، فٹ اور ممتاز ہے۔یہ تو اللہ کی شان ہے کہ اس نے وسیم اکرم کو عزت اور شہرت دی اور پھر اسے ہر امتحان میں کامیاب کیا ہے۔ہمیں وسیم اکرم جیسے سپر سٹار کی قدر کرنی چاہیے کہ ایسے گوہر آبدار شخصیات پھر نہیں ملتیں۔
جاری ہے۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
دنیائے کرکٹ میں تہلکہ مچانے والے بائیں بازو کے باؤلروسیم اکرم نے تاریخ ساز کرکٹ کھیل کر اسے خیرباد کہا مگرکرکٹ کے میدان سے اپنی وابستگی پھریوں برقرار رکھی کہ آج وہ ٹی وی سکرین اور مائیک کے شہہ سوار ہیں۔وسیم اکرم نے سٹریٹ فائٹر کی حیثیت میں لاہور کی ایک گلی سے کرکٹ کا آغاز کیا تو یہ ان کی غربت کا زمانہ تھا ۔انہوں نے اپنے جنون کی طاقت سے کرکٹ میں اپنا لوہا منوایااور اپنے ماضی کو کہیں بہت دور چھوڑ آئے۔انہوں نے کرکٹ میں عزت بھی کمائی اور بدنامی بھی لیکن دنیائے کرکٹ میں انکی تابناکی کا ستارہ تاحال جلوہ گر ہے۔روزنامہ پاکستان اس فسوں کار کرکٹر کی ابتدائی اور مشقت آمیز زندگی کی ان کہی داستان کو یہاں پیش کررہا ہے۔