خالی گھر کی بالکونی میں مری ہوئی عورت پھر دکھائی دینے لگی

خالی گھر کی بالکونی میں مری ہوئی عورت پھر دکھائی دینے لگی
خالی گھر کی بالکونی میں مری ہوئی عورت پھر دکھائی دینے لگی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

عمر کے ساتھ انسان کے نظریات بدلتے رہتے ہیں ،بچپن میں اسکی سوچیں کچھ ہوتی ہیں اور جوانی میں کچھ،بڑھاپا آتا ہے تو سوچیں انقلاب کی دہلیز پار کرچکی ہوتی ہیں۔لیکن بچپن کی بہت سی باتیں بڑھاپے تک یاد رہتی ہیں ۔
میری عمرتیس سال ہے۔میں سمجھتا ہوں میں عملی انسان ہوں۔میں اکثر ہارر موویز دیکھتا ہوں اور یہ مجھے اچھی لگتی ہیں۔حالانکہ یہ میری فطرت کے خلاف ہے۔میں ایسی پراسرا ر باتوں پر کوئی یقین نہیں رکھتا۔بس تفریح کے لئے ایسے قصے سن لیتا ہوں یا موویز دیکھ لیتا ہوں۔میں جو بھی کہہ لوں ۔بے شک ان چیزوں یا ان دیکھی مخلوق اور بدروحوں کو جھٹلا نہیں سکتا کیونکہ مجھے ایک ایسا تجربہ ہوبھی چکا ہے۔
اس وقت میری عمر دس سال تھی ۔گرمیوں کے دن تھے ،ہمارے ہاں گرمیوں میں سب لوگ چھت کی بالکونی میں سونے کے عادی تھے۔ہمارے گھر کی بالکونی کے سامنے والا گھر مدتوں سے خالی تھا ۔یہاں ایک ریٹائرڈ سکول ٹیچر رہتی تھی ۔اس کا چند سال پہلے انتقال ہوگیا تھا اور اسکے بعد سے یہ گھر بند تھا کیونکہ اسکی اولاد نہیں تھی،شادی ہوئی تو شوہر اولاد نہ ہونے کی وجہ سے چھوڑ گیا تھا اور وہ اکیلی اس گھر میں زندگی یوں گزارتی رہی کہ شام ہوتے ہی وہ گھر کی بالکونی میں آجاتی اور کچھ نہ کچھ پڑھتی رہتی ۔

دنیا کا وہ واحد آسیبی ہسپتال جہاں 138سال سے بدروحوں کا راج ہے
میں نے اسے نہیں دیکھا تھا ،بس اسکی باتیں سنی تھیں اور یہ بھی سنا تھا کہ مرنے کے بعد بھی اسکی روح اسی گھر میں رہ رہی تھی ۔کئی لوگ تو اس کا دعویٰ بھی کرتے تھے کہ اس نے انہیں آواز دیکر بلایا بھی ہے۔۔۔
ایک رات جب میں بالکونی میں سورہا تھا کہ اچانک مجھے پیاس محسوس ہوئی اور میں فریج سے پانی لیکر باہر نکلا تو نگاہ سامنے والے گھر پر پڑی ۔ٹانگیں کانپنے لگیں ،پانی کا گلاس میرے ہاتھ سے گر گیا ۔سامنے والی بالکونی میں ایک بوڑھی عورت کھڑی دکھائی دے رہی تھی جو گلاس گرنے کی آواز سنتے ہی غائب ہوگئی۔یہ چند لمحے کا منظر تھا جو ہمیشہ کے لئے میرے ذہن کی سکرین پر منتقل ہوگیا ۔میں آج بھی اس بات کو یاد کرتا ہوں تو لاکھ سائنسی توجیہات کے باوجود آنکھوں دیکھی حقیقت کو جھٹلا نہیں پاتا ۔

۔

نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والی تحریریں لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔