قربانی اور اس کے مسائل!

قربانی اور اس کے مسائل!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

عیدالاضحیٰ کے مبارک دن کو عید قربان بھی کہتے ہیں قربانی ایسی عبادت ہے جسے مسلمان بغیر کسی اختلاف کے ہر سال عید الاضحی کے موقع پر مذہبی فریضہ سمجھتے ہوئے بڑے جوش و جذبے ادا کرتے چلے آرہے ہیں یہ وہ مقدس دن ہے جس میں اللہ کی رحمتیں لوٹ کر آتی ہیں اور اللہ اپنے بندوں کوانعام و اکرام سے نوازتا ہے عید قربان ایک ایسے واقعہ کی یادگار ہے جو ہزاروں سال پہلے کا ہے حجاز مقدس کے ریگستان پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے 90 سال بے اولادی میں گزر گئے شب و روز اللہ کی بارگاہ میں نرینہ اولاد کے لیے دعا فرماتے رہے اور بڑھاپے کی عمر میں حضرت اسماعیل علیہ السلام عطا ہوئے اور ساتھ ہی امتحانات شروع ہو گئے حکم ہوااپنی بیوی حضرت ہاجرہ سلام اللہ علیہا اور اپنے بیٹے سیدنا اسماعیل کو اللہ کے حکم کے مطابق صحرا میں چھوڑ آؤ جہاں آبادی کا نام و نشان تک نہ تھا بہت گرم گرم پہاڑ. صحراھی صحرا. پانی کا دور دور تک نشان نہ تھا یہ اللہ کی طرف سے امتحان تھا سیدنا ابراہیم علیہ السلام ماں بیٹے کو چھوڑ کر واپس آئے مشکیزے کا پانی ختم ہو گیا سیدہ ہاجرہ پانی کی تلاش میں صفا مروہ پر دوڑ رہی تھی پیاس کی شدت تھی بچے کی فکر تھی بہرحال ہزاروں ارمانوں سے ماں اپنے فرزند کو پال رہی تھی اور حضرت اسماعیل کام کاج کے قابل ہو چکے تھے کئی سالوں بعد پھر سیدنا ابراہیم علیہ السلام سے ان کے بیٹے سیدنا اسماعیل علیہ السلام کی ملاقات ہوئی باپ بیٹے نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ امتحان میں کامیابی حاصل ہوگی مگر آج ایک انوکھا اور نرالا امتحان آگیا آٹھ. نو. دس. ذوالحج کو رات کے وقت مسلسل حضرت ابراہیم نے ایک خواب دیکھا کہ اللہ کی طرف سے خواب میں اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کا حکم ملا اور اپنے بیٹے سے کہا کہ میں تمہیں اللہ کے حکم سے ذبح کر رہا ہوں تو بتا تیرا کیا خیال ہے تو سیدنا اسماعیل علیہ السلام نے جواب دیا کہ اگر اللہ کا حکم ہے تو فورا تعمیل کیجئے میں حاضر ہوں آپ مجھے صابر پائیں گے میں اللہ کی بارگاہ میں امتحان دینے کے لئے تیار ہوں صابر و شاکر باپ بیٹا پیکرِ وفا و تسلیم و رضا بن کر مقررہ جگہ پر پہنچے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو پیشانی کے بل لٹا دیا یا فرشتے یہ نظارہ دیکھ رہے ہیں باپ نے چھری کو تیز کر لیا آنکھوں پے پٹی باندھ لی اور باپ نے اللہ کی رضا کی خاطر بیٹے کی گردن پر چھری چلا دی بیٹے نے اللہ کی خوشنودی کے لئے اپنی گردن کٹنے کے لیے جھکا دی……. یہ فیضان نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی... سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی... حضرت ابراہیم چھری کوچلنے کا حکم دیتے ہیں اور رب جلیل روکنے کا حکم دیتا ہے بار بار ابراہیم علیہ السلام نے چھری کو چلایا اور بار بار جبرئیل علیہ السلام نے چھری کو ہٹایا اور اللہ تعالی فرماتا ہے ہم نے آواز دی اے ابراہیم تم نے خواب کو سچا کر دکھایا یعنی اے ابراہیم ہم نے تمہیں مشکل امتحان میں آزمایا تم نے فوراً حکم کی تعمیل کر کے اپنے بیٹے کو راہ خدا میں میں ذبح کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تو ہم نے اسے بچا لیا اور تم باپ بیٹا اس امتحان میں کامیاب ہوگئے اور ہم اسی طرح بدلہ دیتے ہیں محسنوں کو……. قرآن میں قربانی کا حکم……) ترجمہ اے رسول تم کہہ دو میری نماز میری قربانی میری زندگی اور میری موت صرف اللہ رب العالمین کے لئے ہے جس کا کوئی شریک نہیں مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے اور میں مسلمانوں میں پہلا مسلمان ہیں اس آیت میں صلا? یعنی نماز کے بعد نسک کا ذکر ہے جس کے عام طور پر قربانی کے معنی ہیں صلوٰ? کے ساتھ نسک کے لئے بھی امرت کا حکم دیا گیا ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ صلوٰ? کے ساتھ قربانی بھی مشروع ہے... دوسری آیت کریمہ سورہ کوثر میں ھے کہ اپنے رب کے لئے نماز پڑھ اور قربانی کر نحر کا عام مفہوم بھی قربانی ہے اور یہ ایت بھی قربانی کرنے کا ثبوت دیتی ہے یہ بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ یہ دونوں آیات اس وقت نازل ہوئی جب حج فرض نہیں ہوا تھا اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ قربانی کا حکم پوری امت مسلمہ کے صاحب ثروت لوگوں کو ہے حضور کا یہ حکم کے پہلے نماز پڑھی جائے پھر قربانی کی جائے اسی آیت پر مبنی ہے حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عید کے دن سب سے پہلا کام نماز کے بعد قربانی کا ہے اور جس نے نماز کے بعد قربانی کی اس نے ہماری سنت کو پا لیا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا دسویں ذی الحج میں ابن آدم کا کوئی عمل اللہ کے نزدیک قربانی سے زیادہ پیارا عمل نہیں قربانی کا خون زمین پر گرنے سے قبل بارگاہ الہی میں قبول ہو جاتا ہے لہذا قربانی خوش دلی سے کرو…… قربانی کا پس منظر…….. ظہور اسلام سے قبل دنیا کفر و شرک کی تاریکی میں گم تھی کہیں چاند سورج اور کہیں شجر و حجر کو معبود بنا کر ان کی پرستش کی جارہی تھی عبادت و بندگی کے جتنے طریقے رب العالمین کے لیے ہو سکتے ہیں وہ سب معبودان باطل کے لیے مخصوص ہو گئے تھے مشرکین نے مالی وبدنی عبادتیں بتوں کے لیے مقرر کر لی تھی جس میں قربانی اور سجدہ کو بڑی اہمیت حاصل تھی کفار بتوں کو سجدہ کرتے اور معبودان باطل کے اصنام اور ہیکلوں پر قربانیاں چڑھاتے دین اسلام جس کی بنیاد خالص توحید پر ہے جب وہ آیا تو اس نے مالی و بدنی عبادتوں کا رخ پھیر کر صرف ایک خدا کی طرف کردیا اور توحید خالص کے قیام اور بت پرستی کے خاتمہ کے لئے عبادت و بندگی کی جتنی صورتیں خدا کے شایان شان تھیں اور مشرک قوموں میں رائج تھیں ان کو اللہ کے لیے خاص کر دیا چنانچہ اسلام نے اسی حکمت عملی کے تحت نماز پنجگانہ مقرر کی جو عبادت بدنی کے تمام شعبوں اور متعدد شعائر دین کا مجموعہ ہے اور مالی عبادت کے نمایاں پہلو معبودان باطل کے نام پر جانور ذبح کرنا کو بتوں سے ہٹا کر خدا کے لئے خاص کر دیا اور ہدایت دی کہ مشرکوں کی نماز عبادت اور قربانی بتوں کے لئے ہوتی ہیں اور مسلمانوں کی ساری مالی و بدنی عبادتیں صرف اللہ کے لئے ہوتی ہیں اسلامی تعلیمات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ قربانی شرک کی تباہی اور توحید کی بقا کے لیے ضروری ہے قربانی وہ عظیم الشان عبادت ہے جس کے ذریعے شرک کی بیخ کنی اور توحید خالص کو دوام حاصل ہوتا ہے۔ عیدالاضحیٰ کے روز صبح سویرے اٹھنا غسل و مسواک کرنا پاک صاف عمدہ کپڑے جو اپنے پاس ہوں پہننا خوشبو لگانا نماز عید سے پہلے کچھ نہ کھانا عید گاہ جاتے ہوئے بلند آواز میں تکبیر اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ واللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد پڑھنا مسنون ہے ذی الحج کی 9 تاریخ کی فجر سے 13 تاریخ کی عصر تک مسجد میں جماعت کے بعد ہر مکلف مرد پر ایک مرتبہ یہی تکبیر پڑھنا واجب ہے قربانی ہر مسلمان عاقل بالغ مقیم یعنی مسافر نہ ہو پر واجب ہے جس کے پاس ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی قیمت کا مال اس کی حاجات اصلیہ سے زائد اس کی اپنی ملکیت میں موجود ہو.. قربانی صرف تین دن کے ساتھ مخصوص ہے دوسرے دنوں میں قربانی نہیں ہوتی قربانی کے دن دسویں گیارہویں اور بارہویں ذی الحج کی تاریخیں ہیں پہلے دن قربانی کرنا افضل ہے قربانی نماز عید پڑھنے کے بعد کی جاتی ہے بکرا بکری دنبہ بھیڑ کی ایک ہی شخص کی طرف سے قربانی کی جاسکتی ہے گائے بیل بھینس اونٹ میں سات آدمی شریک ہو سکتے ہیں.. بکرا بکری ایک سال کا ہونا ضروری ہے چھ ماہ کی بھیڑ اور دنبہ اگر اتنا فربہ اور تیار ہوں کہ دیکھنے میں سال کے لگتے ہوں تو وہ بھی جائز ہے گائے بیل بھینس کی دو سال عمر اور اونٹ کی پانچ سال عمر ہونا ضروری ہے ان عمروں سے کم کے جانور قربانی کے لئے جائز نہیں قربانی کا جانور اپنے ہاتھ سے ذبح کرنا چاہیے اگر کوئی کرنا نہیں جانتا تو دوسرے سے ذبح کر آ سکتا ہے مگر ذبح کے وقت وہاں رہنا افضل ہے قربانی کی نیت دل سے کرنا کافی ہے جس جانور میں کئی حصے دار ہو تو گوشت وزن کرکے تقسیم کیا جائے اندازہ سے تقسیم نہ کریں افضل یہ ہے کہ قربانی کا گوشت تین حصے کرکے ایک حصہ اپنے اہل و عیال کے لئے اور ایک حصہ احباب اور رشتے داروں کے لیے ایک حصہ غرباء  اور مساکین میں تقسیم کریں.. جس کے عیال زیادہ ھوں سارا گوشت خود بھی رکھ سکتا ہے ذبح کرنے والے کو اجرت میں گوشت یا کھال دینا جائز نہیں اجرت علیحدہ دینی چاہیے قربانی کی کھال کو اپنے استعمال میں لانا مثلاً مصلے بنا لینا چمڑے کی کوئی چیز ڈول وغیرہ بنانا جائز ہے کھال فروخت کر کے اپنے استعمال میں لانا جائز نہیں دینی طلباء  غریب مسکین لوگوں کو کھال دینا بہترین مصرف ہیں امام مسجد کو امامت کے عوض کھال دینا جائز نہیں اگر امام مسجد مستحق ہو تو اسے بھی کھال دی جا سکتی ہے۔
٭٭٭

مزید :

ایڈیشن 1 -