مہنگائی کے ذمہ دار عناصر، جلد سزا کے مستحق
کرپشن کے ذریعے قومی خزانے یا دیگر لوگوں کے مالی وسائل کی خوردبرد، سراسر ایک غیر قانونی اور قابل مواخذہ جرم ہے، جس کو متعلقہ عدالتوں میں ثابت کرنے پر،کئی سال کی قید اور لاکھوں یا کروڑوں روپے کا جرمانہ عائد ہو سکتا ہے۔اگر ملزمان کے خلاف عدالتوں میں صحیح شہادت، قانونی تقاضوں کے تحت پیش کی جائے، تب ہی فاضل عدالت ان کو سزا دینے یا برّی کرنے کا فیصلہ کرنے کی مجاز ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے بعض اوقات، ملزمان کے خلاف ٹھوس شہادت موجود اور دستیاب ہونے کے باوجود عدالت میں پیش نہ کرنے یا اس میں دانستہ تاخیر کر دینے سے ملزمان کو عدم ثبوت کی بناء پر عدالت سزا دینے کی بجائے برّی کر دیتی ہے۔ ایسے امور میں ملزمان کو ناجائز طور پر سزا سے بچانے کی ذمہ داری ادا کی جاتی ہے۔ اس کوتاہی میں کسی متعلقہ افسر یا اہل کار کی دانستہ کارکردگی یا عدم کارروائی غیر منصفانہ ہوتی ہے یوں بعض سنگین جرائم کے مرتکب ملزمان، سزا پانے کی بجائے، بری ہوکر اپنی واردات کاری پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ تفتیش کاری میں اصل حقائق سے کوئی کج روی یا روگردانی نہ کرنا بھی منصفانہ کارکردگی کا اہم اور لازمی حصہ ہے۔ سیاسی کارکردگی کو اگر دانستہ طور پر محض حریف رہنماؤں پر فوکس اور فکس کرکے ان کی کردار کشی کا شب و روز ڈھول پیٹا جاتا رہے تو ایسا کرنے سے جرم کی نوعیت صحیح،ثابت، وسیع اور سنگین نہیں ہو جاتی، بلکہ متعلقہ ذمہ دار افراد یا عناصر کے مذموم عزائم بے بنیاد اور انتقامی ہوتے ہیں۔ یہاں کی سیاست میں، مذکورہ بالا رجحان، بالخصوص عرصہ گزشتہ 19ماہ سے خوب زور و شور سے جاری ہے اور اس میں کسی کمی کا بظاہر کوئی امکان نظر نہیں آتا۔
وزیراعظم عمران خان کے زیر قیادت وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں کے اکثر وزراء اور مشیر صاحبان بھی اسی ڈگر پر چلنے میں فخر محسوس کر رہے ہیں، حالانکہ ایسی غلط بیانی اور غیر منطقی الزام تراشی سے عوام کو کوئی عملی فائدہ حاصل نہیں ہوا، بلکہ انہیں تو بیشتر اشیائے خور و نوش کے حصول میں غیر معمولی طور پر مہنگائی سے دوچار ہونا پڑ رہا ہے اور یہ منفی روش، ملک بھر کے بیشتر علاقوں میں تسلسل سے آج بھی جاری ہے، جبکہ عوام کے معاشی حالات، بہت ابتر، خراب اور مفلوج سطح تک پہنچ گئے ہیں، کیونکہ ان کی آمدنی کے ذرائع جب تک معقول نہیں ہوں گے تو وہ کیسے اپنے اہلِ خانہ کی خوراک، پوشاک، بچوں کی صحت کے لئے ادویات اور تعلیم کے اخراجات کا انتظام کر سکیں گے؟ نیز مکان کا کرایہ، بجلی اور سوئی گیس کے بل الگ مالی رقوم کے متقاضی ہوتے ہیں۔ جب متعلقہ وزراء اور افسر عوام کی مذکورہ بالا ضروریات اور مسائل کے حل کا کوئی مناسب اور معقول بندوبست کرنے سے گریز کرتے ہوئے سابقہ حکمرانوں کو ہی ہر تکلیف اور پریشانی کا ذمہ دار قرار دیں گے تو ان کی ایسی بہانہ سازی اور پہلوتہی کسی طور پر بھی عوام کو مطمئن اور خاموش رکھنے کے لئے کارگر اور سودمند ثابت نہیں ہو سکے گی، کیونکہ مہنگائی کے بے تحاشا بڑھ جانے اور عام لوگوں کی آمدنی میں کوئی قابل ذکر اضافہ نہ ہونے، بلکہ تجاوزات ہٹانے کی آڑ میں ان کی بیشتر دکانوں، مکانوں اور تجارتی مراکز کو گرا کر ملبے کے ڈھیروں میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ اس طرح ملک بھر میں مزید لاکھوں افراد بیروزگار کر دیئے گئے ہیں، نیز کئی رہائشی مکانوں کو بھی گرانے سے ان کے اہل خانہ کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ بدقسمتی سے یہ رجحان تاحال بلا روک ٹوک جاری ہے۔
موجودہ حالات اور مہنگائی سے متاثرہ ملک بھر کے کروڑوں افراد اس بات کے شدت سے منتظر ہیں کہ کب آٹا، چاول،چینی، دالوں، سبزیوں، پیاز، لہسن، ادرک وغیرہ کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ اور ان کی ذخیرہ اندوزی میں ملوث ملزمان کو بے نقاب کرکے ان کو قانون و انصاف کی گرفت میں لا کر سزائیں دی جاتی ہیں؟ اس معاملے میں اب تک کافی تاخیر ہو چکی ہے۔ یہ امر بھی حکومت کی عدم دلچسپی اور غیرضروری لاپروائی کا آئینہ دار ہے۔ سابقہ تجربات سے واضح ہوا ہے کہ جب تک مجرموں کی بلا امتیاز سرکوبی،جلد نشاندہی اور قانونی گرفت کرکے انہیں سزائیں نہ دلائی جائیں، وہ اپنے وسائل اور بڑے لوگوں سے رابطے جاری رکھ کر اپنے خلاف قانونی کارروائیوں کے اقدامات سے محفوظ رہنے کی ساز باز جاری رکھتے ہیں۔ وزیراعظم مہنگائی کرنے والے ملزمان کو جلد قانونی گرفت میں لا کر سزا دلائیں گے تو ان کے بعض مخالفین بھی ایسی کارروائی کی زد میں آ سکتے ہیں۔