قائد اعظم لائبریری……کتابوں کے قبرستان کی فاتحہ
وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار 7کلب روڈ سے باہر نکلنے سے خاصا پرہیز کرتے ہیں۔ اسے سکیورٹی اداروں کی وارننگ کا نتیجہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ اسلام آباد سے آنے والی کوئی ہدایت بھی اس کی وجہ ہو سکتی ہے۔ مگر لاہور کو ان سے بہرحال یہ شکایت ضرور ہے کہ وہ اس شہر کو اپنی زیارت کم کم ہی کراتے ہیں۔ لاہور میں لوگ اب شہباز شریف کو کچھ زیادہ ہی یاد کرنے لگے ہیں۔یہ کریڈٹ بھی لوگ جناب عثمان بزدار کو ہی دیتے ہیں کہ انہوں نے اپنے آپ کو جی او آر میں اتنا محدود کر لیا ہے کہ اب بھی میڈیا سے دور رہنے والے بہت سے لوگوں کو شبہ ہے کہ شہبازشریف ہی وزیراعلیٰ پنجاب ہیں۔
ہمارے دوست سلمان غنی صاحب ہم سے اس وقت ناراض ہوتے ہیں جب ہم عثمان بزدار کو شہبازشریف سے بہتر قرار دیتے ہیں۔ شہبازشریف کے دور حکومت میں ان سے ملنے کوئی رکن اسمبلی جاتا ہو یا کوئی بڑا بیوروکریٹ۔ اسے یہ یقین نہیں ہوتا تھا کہ وہ جب واپس آئے گا تو اس کے ساتھ اس کی عزت بھی واپس آئے گی۔ شہبازشریف کو لوگوں کی عزتوں سے کھیلنے میں مزہ آتا تھا۔ عثمان بزدار صاحب عزت ہیں۔ اپنے قبیلے کے سردار ہیں۔ ایک بہت ہی عزت والے باپ کے بیٹے ہیں۔ اس لئے وہ اپنی خاندانی وضعداری کی وجہ سے ان لوگوں کی بھی عزت کرتے ہیں جن سے عزت خود بھی پردہ کرتی ہے۔ شہبازشریف جن مقاصد کے لئے کام کرتے تھے عثمان بزدار انہی مقاصد کے لئے لوگوں کی عزت کرتے ہیں۔ عثمان بزدار شہبازشریف سے زیادہ دانشمند اور متحمل مزاج ہیں۔ اگر شہبازشریف عمران خان کے وزیراعلیٰ ہوتے تو ان کے لئے ایک ہفتہ چلنا مشکل ہوتا۔ مگر عثمان بزدار صاحب نے اپنی دانشمندی سے عمران خان کو اپنا گرویدہ بنا لیا ہے۔ عمران خان ایک مشکل باس اور دوست ہیں۔ اس میں اگر کسی کو شبہ ہو تو وہ جہانگیرترین اور عون چودھری جیسے ان کے پرانے رفقاء سے تصدیق کر سکتا ہے۔ عمران خان جیسے باس سے تعریف کرانا اور مسلسل تعریف کرانا جناب عثمان بزدار کے کمال کے علاوہ کوئی دوسرا نام نہیں دیا جا سکتا۔ استاد محترم مجیب الرحمن شامی نے کہا تھا کہ مایوس ہونا گناہ ہے اس لئے مایوس کرنا بھی گناہ ہی ہو گا۔ ہماری عثمان بزدار صاحب سے اتنی سی گزارش ہے کہ آئندہ جب وہ وزیراعلیٰ ہاؤس سے نکلیں تو مال روڈ پر سفر کرتے ہوئے وہ گورنر ہاؤس کے بالکل سامنے جناح باغ رکیں۔ یہاں انگریزوں کی بنائی ہوئی ایک پرشکوہ عمارت ہے۔ اس سفید بلڈنگ میں قائد اعظم لائبریری قائم ہے۔ یہ پاکستان کی ایک بڑی لائبریری ہے۔ دنیا بھر سے ریسرچ سکالر جب پاکستان آتے ہیں تو وہ اس لائبریری میں ضرور آتے ہیں۔ یہاں طلبا و طالبات بھی آتے ہیں، کتابوں کی نمائش بھی کرتے ہیں اور کبھی کبھار نوجوان کتاب پڑھنے کے بہانے یہاں عشق کرنے بھی آ جاتے ہیں۔
عثمان بزدار صاحب سے ہماری گزارش ہے کہ وہ قائد اعظم لائبریری آئیں اور یہاں فاتحہ پڑھیں کیونکہ یہ لائبریری تیزی کے ساتھ کتابوں کے قبرستان میں تبدیل ہو رہی ہے۔ امید ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کے پانچ سال پورے ہونے سے پہلے ہی یہ آثار قدیمہ کا حصہ بن جائے گی۔ قوموں کی علم دوستی کو جانچنے کا ایک پیمانہ لائبریریاں بھی ہوتی ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ قائد اعظم لائبریری کا انتظام قدرت کے سپرد کر دیا گیا ہے۔ اس اہم ترین لائبریری کا وہی موسم ہوتا ہے جو باغ جناح کا ہوتا ہے۔ اس لائبریری میں نہ تو ریڈنگ روم کو گرم کرنے کا کوئی انتظام ہے اور نہ ہی ایئر کنڈیشننگ کا۔لائبرری میں کتاب پڑھتے ہوئے موسم کے جبر برداشت کرنے کی باقاعدہ تربیت ہوتی ہے۔
کرونا اور دوسرے معاملات کی وجہ سے پنجاب معاشی مسائل کا شکار ہے۔ مختلف اداروں کا بجٹ کم کیا گیا ہے مگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ قائد اعظم لائبریری کی تو باقاعدہ قربانی دے دی گئی ہے۔ دنیا بھر میں پاکستان پر بے شمار کتابیں شائع ہو رہی ہیں۔ مگر اس لائبریری میں آپ کو نئی کتاب نہیں ملتی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وزارت خزانہ میں بیٹھے ہوئے لوگ لائبریری کو فضول بلکہ شاید خطرناک سمجھتے ہیں۔ اگر لائبریری میں لوگ کتاب پڑھیں گے، تو ان میں سوچنے کی صلاحیت پیدا ہو گی۔ اگر لوگ سوچیں گے تو پھر وہ سوال بھی کریں گے اور سوال سیاسی اقتدار کے لئے خطرناک ہو سکتے ہیں۔
قائد اعظم لائبریری کی عمارت بوسیدہ ہو رہی ہے۔ جگہ جگہ پلستر گر رہا ہے۔ کرسیوں پر بیٹھنے سے پہلے خوفزدہ ہونا پڑتا ہے۔ یہ تاریخی عمارت تیزی سے تباہی کا شکار ہو رہی ہے۔سیکرٹری لائبریریز اور ڈائریکٹر جنرل کی طرف سے لائبریری کے باہر اس کے ڈیجیٹل ہونے کی نوید دی گئی ہے۔ مگر یہاں کوئی اہم کتاب ای کاپی کی صورت میں نہیں ملتی۔ مگر سچی بات یہ ہے کہ قائد اعظم لائبریری کی اس حالت زار کا ذمہ دار وہاں کے عملے کو بالکل قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس کے عملے کے لوگ کتابوں سے محبت کرتے ہیں۔ بعض تو کتابوں کی حفاظت اپنے بچوں کی طرح کرتے ہیں۔ لیکن اگر کسی کو گدھا گاڑی دے کر اسے ہوائی جہاز کی رفتار سے چلانے کا ٹاسک دے دیا جائے تو گدھا گاڑی کو ہوائی جہاز نہیں بنایا جا سکتا۔ قائد اعظم لائبریری کو جدید بنانے کے لئے فنڈز کی ضرورت ہے۔ عثمان بزدار صاحب سے ہم گزارش کرتے ہیں کہ اگر وہ قائد اعظم لائبریری کی فاتحہ نہیں پڑھ سکتے تو اسے ایسی لائبریری بنا دیں جسے لوگ ان کے حوالے سے اسی طرح یاد کریں جس طرح لاہور میں لوگ آج بھی مارشل لا دور کے گورنر غلام جیلانی کو محبت سے یاد کرتے ہیں اور شہر کا محسن قرار دیتے ہیں۔ مگر اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ سیکرٹری اور ڈی جی لائبریریز کی سلیکشن کرتے ہوئے کتاب سے محبت کرنے والوں کا انتخاب کریں اور ان سے یہ سوال ضرور پوچھیں کہ انہوں نے آخری کتاب کب پڑھی تھی۔ کتاب پڑھنے کا کام بھی جن افسروں نے اپنے ماتحتوں کے سپرد کر رکھا ہے، انہیں لائبریری سے دور رہنا چاہیے۔