چیف جسٹس ا فتخار چودھری ہر مسئلہ پر ازخود نوٹس لے لیتے، لیکن شوگر مل مالکان نے ججوں کو مسخر کر لیا، اصل مسئلہ کی سمجھ ہی آنے نہیں دی

چیف جسٹس ا فتخار چودھری ہر مسئلہ پر ازخود نوٹس لے لیتے، لیکن شوگر مل مالکان ...
چیف جسٹس ا فتخار چودھری ہر مسئلہ پر ازخود نوٹس لے لیتے، لیکن شوگر مل مالکان نے ججوں کو مسخر کر لیا، اصل مسئلہ کی سمجھ ہی آنے نہیں دی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:جسٹس (ر) بشیر اے مجاہد 
 قسط:67
مسٹر جسٹس افتخار چودھری نے چیف جسٹس کی حیثیت سے عدلیہ کی اخلاقی بالادستی کا علم بلند کیا، وہ ہر مسئلہ پر، ہر واقعہ پر فوری ازخود نوٹس لے لیتے اور مقدمات کو سپریم کورٹ میں لے آتے۔ انہوں نے ملک میں موجود 100 کے قریب شوگر ملوں کی موجودگی میں چینی کی بے جا مہنگائی کر کے بے تحاشہ منافع کمانے کے مسئلہ کو بھی عدالت میں لے لیا۔ مگر وہ اس مسئلہ کوحل ہی نہیں کر سکے حالانکہ یہ مسئلہ بہت آسان تھا۔ وہ پاکستان کی مختلف یونیورسٹیوں یا زرعی یونیورسٹیوں سے کیمسٹری کے چند پروفیسروں کا ایک بورڈ بناتے اور یہ بورڈ فاضل عدالت کو آگاہ کرتا کہ گنے کا کیا بھاؤ ہونا چاہئے اور100من گنے سے کتنی شوگر بنتی ہے اور اس کے باقی ماندہ دیگر حصوں سے کیا کاروباری فوائد حاصل ہوتے ہیں اور چینی کا پیداواری خرچہ کتنا ہے اور یہ کس بھاؤ بکنی چاہئے۔
 شوگر مل مالکان کے کارٹل نے چیف جسٹس اور دیگر ججوں کو مسخر کر لیا اور چیف جسٹس اس مسئلہ کو چھوڑ کر بجلی پیدا کرنے والے اداروں کی طرف متوجہ ہو گئے۔ ادھر بھی وہ محض ناکام ہوئے۔ ریاست میں اعداد و شمار کے ماہرین نے ججوں کو اصل مسئلہ کی سمجھ ہی آنے نہیں دی۔ ان چیف جسٹس صاحب کے خلاف وزرات قانون نے ایک ریفرنس تیار کیا۔ جس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ اس فائل میں مبینہ طور پر چیف جسٹس اور اُن کی فیملی کے ارکان کی طرف سے کی گئی بے قاعدگیوں کی مکمل تفصیل تھی۔ 
مشہور تھا کہ جنرل پرویز مشرف سے جسٹس افتخار چودھری کی گہری دوستی بھی اس لیے تھی کہ دونوں کی دلچسپیاں اور شوق ایک جیسے تھے۔ کسی وجہ سے اختلاف پیدا ہوا اور یہ ریفرنس وزیراعظم شوکت عزیز اور وزارت قانون نے مرتب کر کے پیش کر دیا۔ جسے صدر پرویز مشرف نے چیف جسٹس کو بلا کر دکھایا انہوں نے چیف جسٹس کو کیا مشورہ دیا اس کا تو عوام کو پتہ نہیں مگر چیف جسٹس نے بتایا کہ اُنہیں صدر پرویز مشرف اور دو دیگر حاضر سروس جرنیلوں نے دباؤ ڈال کر مستعفی ہونے کا مشورہ دیا تھا جس کو انہوں نے مسترد کر دیا ہے۔ حکومت نے چیف جسٹس کو برخاست کرنے کا اعلان کر دیا مگر چیف جسٹس افتخار محمد چودھری وکلاء اور اپنے ساتھی ججوں کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ اُنہوں نے بار ایسوسی ایشن اسلام آباد، راولپنڈی کے تعاون سے عدلیہ کی آزادی کی تحریک چلائی۔ 
بے نظیر بھٹو جو کہ اس سے قبل چیف جسٹس کے حق میں نہیں تھیں مگر انہوں نے چیف جسٹس اور اُن کے نظر بند ساتھیوں کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اُن کے چیف جسٹس افتخار چودھری ہیں۔ ملک بھر میں 2008ء کے عام انتخابات کی مہم بھی جاری تھی۔ کراچی سے پشاور اور کوئٹہ تک تمام صوبوں کے وکلاء اکٹھے ہو گئے اور ملک میں پہلی دفعہ وکلاء کی ایسی زبردست اور منظم تحریک چلی۔ اس دوران سپریم جوڈیشل کونسل تشکیل دی گئی۔ جس کے سامنے چیف جسٹس کے وکیل بیرسٹر چودھری اعتزاز احسن نے مؤقف پیش کیا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے چیف جسٹس کا مقدمہ پیش نہیں ہو سکتا اور نہ ہی ملک کا کوئی ادارہ چیف جسٹس کا احتساب کرنے کا مجاز ہے۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -