سورج کو چھو لیا

 سورج کو چھو لیا
 سورج کو چھو لیا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 سورج کو چھو لیا! یہ اب میں بھی کہہ رہا ہوں لیکن اس کی اطلاع خلائی تحقیق کے امریکی سائنس دانوں نے دی ہے۔ مجھے شمسی تحقیق کے مشن کا کچھ اندازہ تو تھا اور میں کچھ عرصہ سے اس کی تفصیلات کو مانیٹر بھی کر رہا تھا لیکن بعد میں میں نے اس کا ٹریک چھوڑ دیا۔ اب اتفاق سے مجھے جب معلوم ہوا کہ تکنیکی اعتبار سے سورج کو چھونے میں کامیابی ہو چکی ہے تو ایک بار پھر میری اس میں دلچسپی پیدا ہوئی اور میں اس کی تازہ معلومات حاصل کر کے آپ سے شیئر کر رہا ہوں۔ یہ اتفاق کیسے ہوا؟ وہ بھی سن لیں۔ اس سے پہلے میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جرنلزم اور پبلک ریلیشنز کی تعلیم اور تجربے کے ساتھ میں خود بھی چھوٹا سا سائنس دان ہوں۔ امریکی رواج کے مطابق اگر آپ سائنس کے شعبے میں بیچلر کی ڈگری حاصل کر لیں تو کہا جاتا ہے کہ آپ نے ”سائنس دان“ ہونے کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھ دیا ہے۔ میرے پاس ایم اے جرنلزم کے ساتھ ذوآلوجی اور کیمسٹری میں بی ایس سی کی ڈگری موجود ہے۔ اس کے علاوہ فیملی کے افراد یہاں ”ناسا“ کے تحقیقی شعبوں میں اچھے درجے کا جاب کر چکے ہیں اور اس وقت بھی دفاعی اور تحقیقی شعبوں کے سرکاری اداروں سے دو افراد وابستہ ہیں جن کی میں تفصیل بیان نہیں کر سکتا۔ اس پس منظر کی وجہ سے میں پہلے بھی سائنسی موضوعات پر لکھتا رہا ہوں۔ اب سورج پر تحقیق کی تازہ معلومات پر لکھنے کا سبب بھی میری فیملی بنی میری فیملی کے ایک رکن ”جان ہاپکنز اپلائیڈ فزکس لیبارٹری“ (APL) میں سیٹلائٹ تیار کرنے کے کام پر مامور سینئر انجینئر ہیں۔ اس ادارے کو ”ناسا“ نے نہ صرف ”شمسی گاڑی“ تیار کرنے بلکہ اسے لانچ کرنے اور سفر کے دوران مانیٹر کرنے کا کنٹریکٹ دے رکھا ہے۔ ابھی چند روز قبل ”اے پی ایل“ نے اپنے اس پراجیکٹ سے آگاہی کے لئے اپنے سٹاف اور ان کی فیمیلز اور بچوں کے لئے ایک پورے دن کا بھرپور میلہ منعقد کیا جس میں کسی اور کو آنے کی اجازت نہیں تھی۔ کھانے پینے کی تواضح اور تفریح کے ساتھ ساتھ انہوں نے سورج کی سمت جانے والی ”پارکر“ کہلانے والی خلائی گاڑی کے بارے میں خصوصاً اور اپنی تجربہ گاہ میں ہونے والے دیگر کاموں کو عموماً آسان طریقے سے سمجھانے اور Demonstrate کر کے دکھانے کا اہتمام کر رکھا تھا۔ اس میلے سے حاصل کردہ معلومات سے میں نے یہ کالم ترتیب دیا ہے اور آپ کو یہ بتانے کی کوشش کروں گا کہ کس طرح خلائی سائنس دان سورج کو ”چھونے“ میں کامیاب ہوئے ہیں۔
امریکی حکومت کی خود مختار ایجنسی ”ناسا“ (نیشنل ایروناٹکس اینڈ سپیس ایڈمنسٹریشن) نے 14 دسمبر 2021ء میں اعلان کیا تھا کہ سورج کے تحقیقی مشن پر جانے والا خلائی جہاز ”پارکر“ اس کے اردگرد اس کے قریب ترین مدار میں داخل ہو کر اب وہاں گردش کر رہا ہے۔ اب تازہ اطلاع کے مطابق خلائی جہاز گردش کرتا ہوا ایک اور سیارے زہرہ کے قریب ترین گزرے گا۔


پہلے میں آپ کو بتا دوں کہ یہ خلائی جہاز 12 اگست 2018ء کو سورج کے انتہائی گرم خطے میں داخل ہونے کے مشن کے لئے لانچ کیا گیا تھا۔ مشن کا عرصہ 6  سال گیارہ ماہ طے ہوا تھا جس کی تکمیل 19 جون 2025ء میں ہو گی۔ یہ تصور 60 سال پہلے پیدا ہوا لیکن سوال یہ تھا کہ آگ اگلتے سورج کے قریب کیسے جایا جائے جو ہر چیز کو جلا سکتا ہے۔ ناسا نے ایسا غیر معمولی خلائی جہاز تیار کروایا جس کا ڈھانچہ سورج کی خوف ناک حرارت اور تابکاری کو برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ یہ کارنامہ سر انجام دیا گیا اور اس وقت یہ خلائی جہاز اس گرم مدار میں داخل ہے، کرونا میں داخل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ سورج کو چھو لیا گیا ہے۔ ”کرونا“ کا یہ مدار سورج کی اصل سطح سے 40 لاکھ میل دور ہے۔ خلائی جہاز کی رفتار تقریباً چار لاکھ تیس ہزار میل فی گھنٹہ ہے جس کا مطلب تقریباً ڈیڑھ سو میل فی سیکنڈ ہے۔
اس سے پہلے کہ میں اس خلائی جہاز کے مشن کی مزید تفصیل بتاؤں میں آپ کی دلچسپی کے لئے تھوڑا سا خلائی تصور واضح کرنا چاہتا ہوں۔ ہم ”اپنے سورج“ کے بارے میں مزید تحقیق کر کے اپنے علم میں اضافہ کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے اپنا سورج اس لئے کہا ہے کہ یہ ہمارے شمسی نظام کا مرکز ہے۔ ایسے کتنے شمسی نظام ہماری کہکشاں میں ہیں۔ اور ہماری کہکشاں جتنی کتنی بے شمار کہکشائیں ہماری کائنات میں ہیں اور خلاء میں اور کتنی کائنات ہیں۔ اس تفصیل کو میں تو اپنے ذہن میں جذب کرنے سے قاصر ہوں، اس لئے واپس اپنے شمسی نظام کی طرف آتے ہیں۔ 


اس شمسی نظام کا مرکز ہمارا سورج دراصل ایک ”ستارہ“ ہے مطلب یہ کہ آپ کو آسمان پر جتنے لا تعداد ستارے نظر آتے ہیں۔ ان میں سے ایک ایک ستارہ ہمارے سورج کی طرح دراصل سورج ہے اور ہر ایک کا  ہماری طرح ایک شمسی نظام ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آسمان پر ہمارا سورج اتنا نمایاں اور بڑا نظر آتا ہے جب کہ دوسرے بے شمار ستارے جو اپنے اپنے شمسی نظاموں کا مرکز ہیں وہ اتنے چھوٹے کیوں نظر آتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ سورج ہمارے شمسی نظام کا مرکز ہے جس میں ہماری زمین واقع ہے جہاں سے ہم اسے دیکھتے ہیں۔ دیگر چھوٹے نظر آنے والے ستارے بھی ہمارے سورج سے کم چھوٹے نہیں ہیں یہ دراصل اپنے اپنے شمسی نظاموں کے مرکز میں واقع سورج ہیں لیکن وہ ہم سے اتنی دوری پر واقع ہیں کہ ہمیں چھوٹے دکھائی دیتے ہیں۔
ان دوسرے سورجوں یا ستاروں کی طرف سائنسی آلات کے ذریعے سفر کرنے کا ابھی کوئی تصور نہیں کر سکتا کیونکہ اتنے فاصلے کو طے کرنے کے لئے انسانی عمر نا کافی ہے۔ اور سائنسی تاریخ میں پہلی مرتبہ اگر انسان نے کسی ستارے کی طرف سفر کرنے کا سوچا ہے تو وہ ہمارا سورج ہے جو واحد ستارہ ہے جو ہمارے قریب ہے۔ اب آپ جان گئے ہیں کہ ہماری کائنات میں کتنے لا تعداد ستارے ہیں جو دراصل سورج ہیں اور ہر ایک کا ایک الگ شمسی نظام ہے جس کے گرد سیارے گھومتے ہیں۔ ہمارا سورج بھی کائنات کے وسیع نظام کا ایک ”ستارہ“ ہے۔ سائنس دانوں نے ہمارے سورج کو چھونے میں جو کامیابی حاصل کی ہے وہ در اصل سورج کی حرارت کو برداشت کرنے والی خلائی گاڑی کا غیر معمولی ڈھانچہ تیار کرنے کے سبب ہوئی ہے۔ 2025ء تک جاری رہنے والے اس مشن میں ہمارے سورج یا ہمارے ستارے کے بارے میں جو مزید معلومات کبھی ملیں تو وہ کہانی پھر کبھی سنائیں گے۔

مزید :

رائے -کالم -