مسئلہ کشمیر کے حل کا وقت

پلوامہ واقعہ کے بعدپاکستان اور بھارت کے درمیان پیدا ہونے والی کشیدگی نے دُنیا پر ایک مرتبہ پھر واضح کر دیا ہے کہ مسئلہ کشمیر حل نہ ہونے کی صورت میں دونوں ممالک کے درمیان کسی بھی وقت جنگ کی چنگاری آلاؤ کی شکل اختیار کر کے دُنیا کے لئے کسی بڑے حادثے کا سبب بن سکتی ہے۔ نریندر مودی کی متعصبانہ سیاست اورجارحانہ حکومتی انداز نے مسئلہ کشمیر کو انسانی المیے میں تبدیل کر دیا ہے۔خواتین اور بچوں سمیت نہتے کشمیریوں کے قتل عام، پیلٹ گن کے استعمال سمیت دیگر ریاستی جرائم نے وادئ کشمیر کو حقیقی معنوں میں جیل بنادیا ہے، جس میں ایک کروڑ سے زائد باسیوں کا سانس لینا دشوارہے۔
اگرچہ1947ء کے بعد سے بھارتی جارحیت سے لقمۂ اجل بننے والوں کی تعداد 2لاکھ سے زائد ہے،اور پچھلی تین دہائیوں میں ایک لاکھ36ہزار سے زائدلوگوں کو جیلوں میں قید، اورایک لاکھ سے زائد گھروں اور دکانوں کوتباہ کرکے مصیبت میں گرفتار نہتے کشمیریوں کامعاشرتی و معاشی قتل عام کیاگیا، مگر8 جولائی 2016 ء کوبرہان وانی کی شہادت کے بعد ریاستی دہشت گردی اور ظلم و جبر نے تمام ریکارڈ توڑ دیئے ہیں۔ اس عرصے میں نہتے مظاہرین پر 13لاکھ سے زائد مرتبہ پیلٹ گن کا استعمال ہوا، جبکہ 9ہزار کے قریب آنسو گیس شیل استعمال کئے گئے۔شہید کئے جانے والوں کی تعداد 500 سے زائد ہے، 15ہزار سے زائد زخمی ہوئے، جبکہ10ہزار سے زائدافراد کو حراست میں لیا گیا۔ مسجدوں ، دکانوں سمیت دیگر600سے زائد شہری املاک تباہ کر کے مذہبی، معاشی اور معاشرتی حقوق کی خلاف ورزی کی گئی۔400 سے زائد پُرامن ریلیوں میں شریک افراد کوتشدد کا نشانہ بنایاگیا۔ ایمبولینس بھی حملوں سے محفوظ نہ رہیں۔ نقل و حمل کو متاثر کرنے کے لئے 7ہزار سے زائد گاڑیوں کونقصان پہنچایاگیا،جبکہ 1100 سے زائد بجلی ٹرانسفامرز کو تباہ کرکے بجلی سے محروم کیاگیا۔ صرف 2018ء میں 127 مرتبہ انٹرنیٹ کی سہولت معطل کی گئی تاکہ وادی سے باہر دُنیا بھارتی دہشت گردی سے کے بارے میں کچھ نہ جان سکے۔ قابض بھارتی افواج کی جانب سے طاقت کے استعمال کا وحشیانہ، غیر دانشمندانہ اور غیر انسانی مظاہرہ کرتے ہوئے کشمیری نوجوانوں کو عسکریت پسند اور دہشت گرد ظاہر کرکے بے دردی سے بم دھماکوں اور بے رحمانہ فائرنگ سے شہید کیاگیا اور ان کے جسدخاکی کی کھلے عام بے حرمتی کی گئی، جس کا مقصد مظلوم کشمیری عوام کی آزادی اور حقِ خود ارادیت مانگنے کی وجہ سے نشان عبرت بنانا مقصود تھا۔ پاکستان بھی بھارتی جارحیت سے محفوظ نہ رہا،صرف 2018ء میں بھارتی افواج نے ورکنگ باؤنڈری اور لائن آف کنٹرول پر 2350مرتبہ سیز فائر کی خلاف ورزی کی، 36افراد شہید جبکہ 142سے زائد زخمی ہوئے۔
اس پس منظر کے ساتھ جب پلوامہ میں بھارتی پیرا ملٹری فورسز پر حملہ ہوا تو نریندر مودی نے اس کی آڑ میں بالا کوٹ پرجارحیت کر کے اس صورتِ حال کو اپنی انتخابی کامیابی کے لئے استعمال کرنا چاہا، مگر یہ اللہ تعالی کا خصوصی کرم، افواج پاکستان کا بھرپور عزم اور قوم کا اتحاد تھا جس نے نریندر مودی کے عزائم کو خاک میں ملا دیا اور کشمیریوں کی بے مثال جدوجہد کو سبوتاڑ کرنے کی سازش ناکام بنا دی۔فوج، ائیرفورس اور نیوی کے کارناموں سے پوری قوم میں نیا حوصلہ پیدا ہوا۔ قومی قیادت نے یکجان ہو کر مضبوط مؤقف اپنایا اور عوامی جذبات کی ترجمانی کی۔ جماعت اسلامی نے بھار ت کے خلاف ہر اقدام کا غیر مشروط ساتھ دینے کا اعلان کیا۔ جماعت نے ہمیشہ قومی سلامتی اور وطن کی بقا کے لئے جذبہ جہاد اور شوق شہادت کے ساتھ خون کا کا نذرانہ پیش کیا ہے، جس کے اپنے اور پرائے معترف ہیں۔ وطنِ عزیز کی حفاظت کے لئے اس تاریخی اور مسلسل کردار کو قائم و دائم رکھا جائے گا۔
پلوامہ واقعہ کی آڑ میں بھارت نے جماعت اسلامی جموں کشمیر پرپاکستان کی حمایت اور آزادی کے مطالبے کا الزام لگا کر پابندی عائد کر دی ہے، مرکزی و ضلعی قیادت سمیت سینکڑوں کارکنان کو گرفتار کر لیا گیا ہے، اور دفاتر سمیت تعلیمی وفلاحی ادارے ریاستی تحویل میں لے لئے گئے ہیں۔ حریت قیادت کو بھی ہراساں کیا جا رہا ہے، سید علی گیلانی نظربند ہیں، یاسین ملک اور شبیرشاہ جیلوں میں قید ہیں، جبکہ میرواعظ عمرفاروق کو این آئی اے میں طلبی کے ذریعے ہراساں کیا جا رہا ہے۔ دختران ملت کی چیئرپرسن آسیہ اندرابی اور ان کی رفیقات کار کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔ قائدین حریت کیرشتہ داروں کوبے بنیاد مقدمات میں محض بدنام اور ٹارچر کرنے کے لئے ملوث کیا جارہا ہے۔ سرچ اپریشن کے نام پر بستیوں کی بستیاں اجاڑی جارہی ہیں۔ باغات اور فصلیں تباہ کرتے ہوئے کشمیریوں کو معاشی لحاظ سے بھی مفلوج کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ آر ایس ایس کے ایجنڈے کی تکمیل کے لئے گورنر راج نافذ کرتے ہوئے دیگر اقدامات کے علاوہ سپریم کورٹ کے ذریعے دفعہ 370اور 35 اے کو غیر مؤثر بنانے کی سازش کی جارہی ہے تاکہ ریاست کا مسلم تشخص تحلیل کرتے ہوئے وہاں غیر ریاستی ہندوؤں کو بڑے پیمانے پر آباد کیا جاسکے۔صورتِ حال اس قدر سنگین ہے کہ بھارت نواز قیادت اور مقبوضہ کشمیر کے سابق کٹھ پتلی وزرائے اعلی بھی بھارتی حکومت کے اقدامات کا ساتھ دینے کے لئے تیار نہیں ہیں۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان امن بلاشبہ ناگزیر ہے، لیکن اس خواہش میں مسئلہ کشمیر نظرانداز نہیں ہونا چاہئے۔ اسے حل کیے بغیر امن عمل آگے بڑھانا پائیدار نہیں ہوگا۔ یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ بھارت کی تمام تر ریاستی دہشت گردی اہلِ کشمیرکا جذبۂ آزادی سرد کرنے میں ناکام رہی ہے۔ موجودہ تحریک آزادی ماضی کی نسبت زیادہ ہمہ جہت ہے ،اورشہری و دیہی ، خواتین و مرد، بچے و نوجوانوں سمیت شمال و جنوب تک پھیل چکی ہے۔ مزاحمتی قیادت کی بصیرت قابلِ تحسین ہے۔اس کی دانش مندانہ حکمتِ عملی سے پوری ریاست میں یکجہتی کی فضا قائم ہوئی اور جذبۂ جہاد اور شوق شہادت سے سرشار نوجوانوں نے تحریکِ آزاد ی کو ایک ناقابل تسخیر قوت بنا دیا جو بھارت کی سازشوں اور منفی ہتھکنڈوں کے باوجود نئے عزم کے ساتھ منزل کی جانب گامزن ہے
،ان کی استقامت کے نتیجے میں ہی بھارت کے اہلِ دانش اور بھارتی آرمی چیف سمیت اہم سیاسی شخصیات یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہیں کہ طاقت سے تحریک ختم نہیں کی جا سکتی، بھارت کشمیر کھو رہا ہے،حکومت بات چیت سے مسئلہ حل کرنے کی راہ نکالے۔ شہداء کے جنازوں میں کرفیو توڑ کر دسیوں ہزاروں لوگوں کی شرکت اور تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد بالخصوص اعلیٰ تعلیم یافتہ پی ایچ ڈی سکالرز کا آئے روز اس تحریک کا حصہ بننا بھارت کے لئے نوشتۂ دیوار ہے کہ وہ یہ جنگ ہار چکا ہے، چنانچہ ضروری ہے کہ حکومت پاکستان بین الاقوامی اور اسلامی برادری کو اپنا کردار ادا کرنے پر متوجہ کرے۔ سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ کشمیر کے حوالے سے بین الاقوامی انسانی حقوق کمیشن کی رپورٹ کی تائید خود بھی کر چکے ہیں، انہیں بھارتی مظالم بند کرنے اور انہیں موعودہ حق خودارادیت دلانے میں اپنا کردار ادا کرنے ، اور اقوام متحدہ چارٹر کے چپٹر7 کے تحت اقدامات کرتے ہوئے مسئلہ حل کرنے کے لئے کردار ادا کرنا چاہئے۔
وزیراعظم عمران خان کی مذاکرات کی پیشکش کوبھارت کی طرف سے مسترد کئے جانے کے بعدضروری ہے کہ مؤثر سفارت کاری کے ساتھ عالمی برادری کے سامنے اس کا چہرہ بے نقاب کیا جائے اور اس کے جرائم دُنیا کے سامنے لائے جائیں۔ پاکستان کی معیشت، دفاع اور زراعت و توانائی کے تمام امور مسئلہ کشمیر کے حل سے وابستہ ہیں، اِس لئے اس کو ترجیح اول بناتے ہوئے ایک ہمہ وقتی نائب وزیر خارجہ مقرر کیاجائے،جو مسئلہ کشمیر پر فوکس رکھے۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی نسل،او آئی سی اور برطانوی پارلیمینٹ کی آل پارٹی کشمیر گروپ کی سفارشات کی روشنی میں ایک آزاد اور خود مختار کمیشن بنایا جائے،جو مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج کی جانب سے کی جانے والی غیر قانونی کارروائیوں کی تحقیق کرے نیز عالمی انسانی حقوق کے نمائندہ اداروں کو مقبوضہ کشمیر میں دورے کی اجازت دلوائی جائے تاکہ اقوام عالم میں بھارت کا اصل چہرہ بے نقاب ہو اور مسئلہ کشمیر کے حل کی جانب حقیقی پیش رفت ہو سکے۔