بڑا حادثہ 

 بڑا حادثہ 
 بڑا حادثہ 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 اسلامی دنیا کے زوال کے اسباب پر نظر ڈالی جاتی ہے تو تقریباً تمام مورخین اس پر اتفاق کرتے ہیں کہ اس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ مسلمان حکمران اپنے وارث کے انتخاب کا فیصلہ کرنے کے لئے کوئی نظام بنانے میں ناکام رہے تھے۔ بہت سی مملکتوں میں بڑا بیٹا اگلا حکمران ہوتا تھا اور ایسی ریاستیں بھی تھیں کہ جن میں حکمران کے انتقال کے بعد باقاعدہ جنگ شروع ہو جاتی تھی۔ دنیا میں مغل سلطنت کی وسعت اور نظام کی تعریف کی جاتی تھی۔ مگر اس کے طاقتور حکمران اورنگ زیب عالمگیر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس نے نہ تو کوئی نماز چھوڑی تھی اور نہ ہی اقتدار کے لئے کوئی بھائی زندہ چھوڑا تھا۔ اگر اورنگ زیب اپنے بھائیوں کو قتل کرنے میں کامیاب نہ ہوتا تو اس کا کوئی بھائی اپنے اقتدار کے لئے اسے قتل کر دیتا۔


پاکستان ووٹ کے ذریعے قائم ہوا تھا۔ مغربی جمہوریت پر آپ لاکھ تنقید کریں مگر یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ اس نے حق حکمرانی کا ایک فیصلہ کر دیا ہے اور اس وقت ہمیں مغر بی ممالک اگر مضبوط اور ترقی یافتہ نظر آتے ہیں تو اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وہاں حکمرانی کا حق عوام کو دے دیا گیا ہے اور وہ یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ ان کا حکمران کون ہو گا؟ پاکستان میں جمہوریت کے اس بنیادی اصول پر کوئی زیادہ عمل نہیں ہوا اور مختلف شعبوں میں ہمیں جو انتشار کی صورت نظر آتی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں عوام کو حق حکمرانی نہیں ملا۔ پاکستان میں جمہوریت کے ساتھ ووٹ کو چوری کرنے کے متعدد ہتھکنڈے بھی آئے۔ انتخابات کے صاف اور شفاف نہ ہونے کی وجہ سے جھرلو اور دھاندلی جیسے الفاظ ہمارے سیاسی کلچر کا حصہ بنے۔یوں پاکستان میں جمہوریت کو استحکام کی بجائے عدم استحکام کی وجہ بنا دیا گیا۔
برطانیہ میں ٹونی بلیئر اقتدار سے محروم ہو ئے۔ وہ کار میں ریلوے اسٹیشن پر پہنچے۔ لائن میں کھڑے ہو کر ٹکٹ لیا اور ٹرین کے ڈبے میں بیٹھ کر اپنے آ بائی شہر روانہ ہوئے۔ یہ برطانوی جمہوریت کا حسن ہے کہ سابق وزیراعظم ایک عام آدمی کی آزادی کے ساتھ زندگی گزار سکتا ہے۔ ریلوے اسٹیشن یا سفر کے دوران کسی نے نہ اس پر آوازہ کسا  اور نہ اسے برا بھلا کہا۔ مگر پاکستان میں اس کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستانی سیاست میں مخالفین کے لئے نئی نئی گالیاں تخلیق کرنا کامیابی کی علامت قرار پایا ہے۔ سوشل میڈیا کی صورت میں سیاسی جماعتوں کے پاس ایک ایسا ہتھیار آ گیا ہے جس کے ذریعے وہ اپنے مخالفین کے سکینڈل بناتے ہیں۔ جھوٹ اور پراپیگنڈے کے طوفان اٹھاتے ہیں اور جھوٹ کو سچ سے زیادہ موثر اور دلکش بنا کر پیش کرتے ہیں۔


مغرب میں حکمرانوں کے خلاف عدم اعتماد بھی ہوتا ہے۔ ان کے خلاف میڈیا کو بھی استعمال کیا جاتا ہے مگر میڈیا کے بڑوں کو احساس ہوتا ہے کہ ان کی اصل طاقت ان کے احساس ذمہ داری میں ہے اور اگر ان پر غیرذمہ دار ہونے کا لیبل لگ جائے گا تو وہ اپنی اہمیت اور طاقت بھی کھو بیٹھیں گے۔ پاکستان میں بدقسمتی سے ریٹنگ کی دوڑ اور اشاعت بڑھانے کے جنون نے میڈیا کی ذمہ داری کو غیر معمولی طور پر متاثر کیا ہے۔ میڈیا نے پاکستان میں قارئین اور ناظرین پیدا کرنے کی بجائے تماشبین پیدا کئے ہیں۔ مگر اس سلسلے میں صرف میڈیا کو ذمہ دار ٹھہرانا زیادتی ہو گی۔ سیاستدانوں نے وہ تماشے لگائے ہیں جنہیں میڈیا نے عوام کے سامنے پیش کیا ہے اور اکثر مرچ مصالحہ لگا کر پیش کیا ہے۔ میڈیا کے ذمہ داران اس امر کا احساس کرنے میں ناکام رہے ہیں کہ جب مولانا ظفر علی خان کے اخبار ”زمیندار“ کی ضمانت ضبط ہوتی تھی تو لوگ دل کھول کر چندہ دیتے تھے۔ دہلی کے اخبار ”ڈان“ پر پابندی لگتی تھی تو لاہور میں جلوس نکلتا تھا۔ آج اگر صحافیوں کے ساتھ کوئی زیادتی ہوتی ہے تو صرف صحافی ہی اس کے خلاف احتجاج کرتے ہیں۔ معاشرے کے دوسرے طبقات ان کے ساتھ شریک احتجاج نہیں ہوتے۔ اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ایسا کیوں ہے؟


پاکستان میں جمہوریت کے ذریعے سیاستدانوں کو اقتدار ملتا ہے مگر وہ کوئی مثبت روایت قائم کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ وہ ہر قیمت پر اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ انہیں نہ تو اس سے کوئی غرض ہے کہ تاریخ انہیں کن الفاظ میں یاد کرے گی اور نہ انہیں یہ پرواہ ہے کہ اگلی نسل کے لئے وہ کیسا نمونہ بن رہے ہیں۔ وہ ہر جائز و ناجائز ہتھکنڈہ اختیار کر کے اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں یا اقتدار کے ساتھ چمٹنے رہنا چاہتے ہیں۔ ان کا رویہ قومی استحکام کو کیا نقصان پہنچائے گا۔ اگلی نسلوں کو اخلاقی قدروں سے کس طرح محروم کرے گا یہ ان کا مسئلہ نظر نہیں آتا۔
قائد اعظم کو ایک مرحلے پر مشورہ دیا گیا کہ وہ پنڈت جواہر لال نہرو کے ان عشقیہ خطوط کو سیاسی مفاد کے لئے استعمال کریں جو انہوں نے لیڈی ماؤنٹ بیٹن کو لکھے تھے اور یہ ایک مسلم  لیگی راہنما کو مل گئے تھے۔ قائد اعظم نے اس کی سختی سے مخالفت کی اور کہا کہ ایسے ہتھکنڈوں سے کامیابی حاصل نہیں کی جا سکتی۔ 


پاکستان میں میڈیا اور سیاستدانوں کی اہمیت سے انکار کرنا ممکن نہیں ہے مگر ان کو اس امر کا احساس کرنا چاہیے کہ ان کا ایک وقار اور عزت بھی ہے اور یہ جہاں ان کے لئے اہم ہے وہاں قوم کے مستقبل کے لئے بھی ناگزیر ہے۔اس وقت پاکستان کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ قومی سطح کے لیڈر اور نامور صحافی دانشور نمایاں ہونے کے لئے وہ زبان استعمال کر رہے ہیں جسے کسی زمانے میں بازاری زبان قرار دیا جاتا تھا۔ مگر بدقسمتی سے یہ بازاری زبان ہماری قومی سیاسی زبان بنتی جا رہی ہے۔ پاکستان میں عدم اعتماد کی تحریک کا کیا نتیجہ نکلتا ہے اس کا فیصلہ اگلے چند روز میں ہو جائے گا مگر دنیا پر یہ واضح ہو گیا ہے کہ پاکستان میں سیاستدانوں کو اپنی عزت اور وقار کا کوئی خیال نہیں ہے۔ یوں وہ قومی سلامتی کو داؤ پر لگا رہے ہیں۔ اگلی نسلوں کے لئے قابل شرم اخلاقی معیار قائم کر رہے ہیں اور پاکستانی جمہوریت کے لئے سنگین خطرات پیدا کر رہے ہیں۔ یہ راستہ سیاستدانوں اور میڈیا کو ہی بحران کا شکار نہیں کرے گا ملک کو بھی کسی بڑے حادثے سے دوچار کر دے گا اور مستقبل کا مورخ کہے گا کہ پاکستان کو آزادی اور جمہوریت تو ملی مگر کسی نے اس کے لئے اہلیت پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی اور قابل شرم ہتھکنڈوں سے اقتدار اور شہرت حاصل کرنے کی کوششوں میں قوم کا مستقبل تاریک کر دیا۔

مزید :

رائے -کالم -