قومی زبان کا نفاذ ضروری ہے!

قومی زبان کا نفاذ ضروری ہے!
قومی زبان کا نفاذ ضروری ہے!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ملک میں سیاسی تبدیلی آگئی ہے۔ نئی حکومت نے نئے عزم کے ساتھ اپنا سو دنوں کا منصوبہ بھی پیش کر دیا ہے۔ اب عمل کے مراحل شروع ہیں۔ دیکھتے ہیں کیا نتیجہ برآمد ہوتا ہے؟ ملکی حالات خاصے نازک مرحلے سے گزر رہے ہیں۔ آج وطن عزیز کا انگ انگ زخمی ہے۔ عوام ظلم کی چکی میں پِس رہے ہیں۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ جنگلی درندے بستیوں میں گھس آئے ہیں اور امن پسند شہریوں کو ان کے گلی محلے اور گھر کے اندر بھی امن وسکون میسر نہیں۔

امریکہ اس کے باوجود ہمیں دہشت گردوں کا سرپرست قرار دے کر ڈومور کا مطالبہ کیے جارہا ہے۔ کلبھوشن جیسے دہشت گردوں کے سرپرست بھارت سے دوستی اور پاکستان سے دشمنی، یہ امریکہ کی منافقت ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ایک نیا اور مہلک حملہ قومی زبان پر کیا گیا ہے۔ اس مظلوم قوم کے جسم پر مزید کچوکے لگانے اور زخموں پر نمک پاشی کے لئے دو سال قبل قومی زبان اردو کو بے دخل کرکے تعلیمی اداروں میں غیر ملکی آقاؤں کی زبان انگریزی کو ذریعہ تعلیم بنا دیاگیا۔ نئے حکمرانوں کو جہاں دیگر امور میں تبدیلی لانا ہے، وہاں اس اہم ترین مسئلے کو بھی ایڈریس کرنا ہوگا۔ کسی پاکستانی شہری کی وابستگی کسی بھی سیاسی پارٹی سے ہو، اس سے انکار ممکن نہیں کہ اپنی قومی زبان کا تحفظ ہم سب کی آنے والی نسلوں کے مستقبل کے لئے نہایت اہمیت کا حامل ہے۔


انگریزی کو بطور زبان سیکھنا قابلِ تحسین سہی، مگر ذریعہ تعلیم اردو ہی کو ہونا چاہیے۔ ملی تشخص کو ملیامیٹ کرنے کے کسی اقدام سے آنکھیں بند کرنا کسی غیرت مند پاکستانی کے لئے ممکن نہیں۔ اہل اقتدار کا قومی زبان اردو کے خلاف جارحانہ طرز عمل اور استعماری زبان انگریزی کو آغاز ہی سے ذریعہ تعلیم کے طور پر رائج کرنا ملک وقوم کے ساتھ بہت بڑی دشمنی ہے۔ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب نے روزِ اول ہی سے پنجاب کے تعلیمی اداروں میں مخلوط تعلیم کو لازم کرکے اسے اگلے مدارج تک ترویج دینے کا تباہ کن منصوبہ شروع کیا تھا، جسے تبدیل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اس کی تفصیلات تو بہت ہیں، مگر اختصار کے ساتھ یہ کہا جاسکتا ہے کہ جو کام انگریز اپنے دورِ استعمار میں نہ کرسکا، وہ کام انگریزوں کے ذہنی غلاموں کے ہاتھوں سرانجام دیا جارہا ہے۔

جناب عالی! جن قوموں نے دنیا میں ترقی کی ہے، تاریخ اور اعداد وشمار کے جملہ کوائف گواہ ہیں کہ ان کی یہ ترقی کسی بدیشی زبان کو ذریعہ تعلیم قرار دینے سے عمل میں نہیں آئی۔ جاپان ہو یا جرمنی، چین ہو یا فرانس، ترکی ہو یا ملائیشیا، ان تمام ممالک نے اپنی قومی زبانوں کو ذریعہ تعلیم قرار دے کر اور انگریزی اور دیگر غیر ملکی زبانوں کو بطور مضمون اپنے نظام تعلیم کا حصہ بنا کر ترقی کی منزلیں طے کی ہیں۔ یہ کس قدر ستم ظریفی ہے کہ ہم پاکستانی ہو کر اردو کشی پر اتر آئے ہیں، جبکہ فورٹ ولیم کالج کلکتہ میں انگریز ماہر تعلیم گلکرسٹ نے بیسویں صدی کے آغاز یعنی 1800ء میں اردو زبان کو رائج کیا اور اس میں بیش بہا تصنیفی خدمات سرانجام دیں۔


ہماری اپنی معروف مقامی یونی ورسٹی، عثمانیہ یونی ورسٹی حیدرآباد دکن نے ایک اعلیٰ مثال قائم کی، جہاں جنگ عظیم اول کے خاتمے پر نظام حیدرآباد نے اپنے مشیروں کے مشورے سے اردو کو تمام سائنسی علوم کی تدریس کا ذریعہ بنایا۔ 1918ء سے تقسیم ہند تک یہ سلسلہ نہایت کامیابی سے چلتا رہا۔ سائنس کے تمام مضامین، انجینئرنگ سے لے کر میڈیکل تک سب کے لئے اردو کورس تیار کیے گئے۔ تمام سائنسی اصطلاحات کے اردو متبادل ماہرین زبان نے تیار کیے جو ایک بڑا کارنامہ ہے۔ یہ ارتقا بڑی کامیابی اور خوش اسلوبی کے ساتھ جاری تھا کہ 1948ء میں بھارت کے اس مسلمان ریاست پر غاصبانہ قبضے نے اردو زبان کی بساط لپیٹ دی۔ ہندو کی اردو دشمنی تو سمجھ میں آتی ہے، کیونکہ اس نے اردو کو ختم کرکے اس کی جگہ ہندی رائج کرنے کے لئے طویل عرصہ پہلے منصوبہ بندی کرلی تھی۔ تعجب تو اپنے حکمرانوں کے ایسے اقدام پر ہوتا ہے جس کے ذریعے انگریزی کی بالادستی قوم کے سر پر ٹھونسی جاتی ہے۔

اردو کو تعلیمی اداروں سے بے دخل کرنے کے نتیجے میں ہماری نوجوان نسل اسلام، جذبہ حب الوطنی، اپنے قومی وملی ورثے اور زبانِ اردو میں موجود بے شمار قیمتی کتب سے مکمل طو رپر کٹ جائے گی۔ حکمرانوں کو سوچنا چاہیے کہ ہماری جتنی بھی عظیم ملی وقومی شخصیات کا تحریک پاکستان، قیام پاکستان اور تعمیر پاکستان میں کوئی قابل قدر کارنامہ ہے، ان کی پہچان اردو زبان ہی تھی۔ جو قومیں اپنی زبان سے لاتعلق ہوجاتی ہیں، وہ تاریخ کی گزرگاہوں میں اپنا تشخص بھی گم کربیٹھتی ہیں اور اپنے اصل سے بھی محروم ہوجاتی ہیں۔ ہمیں مرعوبیت کے خول سے نکل آنا چاہیے۔ ہمیں اپنے قومی ورثے اور اپنی قومی زبان پر فخر کرنا چاہیے۔

بانیِ پاکستان حضرت قائداعظمؒ نے بارہا ہندو اور انگریز لیڈروں کے سامنے اس بات کا برملا اعلان کیا کہ اردو ہماری قومی زبان ہے اور ہم اس سے کسی صورت دست بردار نہیں ہوسکتے۔ انگریزی تو بدیشی زبان ہے، 1908ء میں جب پنجاب یونی ورسٹی کے ہندو وائس چانسلر ڈاکٹر چیٹرجی نے یونی ورسٹی کے جلسہ تقسیم اسناد میں کہا کہ پنجاب میں اردو کی جگہ پنجابی رائج کی جائے تو مسلمانان پنجاب اس بیان کے خلاف بھی یک زبان ہو کر میدان میں نکل آئے۔ آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کا ہنگامی اجلاس منعقد ہوا اور اس میں علامہ اقبال، سرشیخ عبدالقادر، سرمحمد شفیع، مولانا سلیمان شاہ پھلواروی اور دیگر مسلم رہنماؤں نے اردو کی حمایت میں مدلل تقاریر کیں ۔

اس موقع پر ایک جامع قرار داد منظور کی گئی جس میں دو ٹوک الفاظ میں کہا گیا کہ مسلمان، برصغیر، بالخصوص پنجاب میں اردو زبان سے کسی صورت دستبردار ہوں گے نہ ہی اس کی جگہ کسی دوسری زبان کو رائج کرنے کی اجازت دیں گے۔ قائداعظمؒ کا ایک مشہور خطاب ہے جو علی گڑھ یونی ورسٹی میں 1941ء میں لوگوں نے ان کی زبان سے سنا۔ انگریزوں اور ہندوؤں کو مخاطب کرکے آپ نے فرمایا: ’’مجھے پاکستان میں اسلامی تاریخ کی روشنی میں اور اپنی ثقافت، نیز روایات کے تحت اور اپنی اردو زبان کو برقرار رکھتے ہوئے زندگی گزارنے دو‘‘۔ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب کا بھی ایک فتویٰ قائداعظمؒ ہی کے استفسار پر 1935ء میں سامنے آیا جس میں انہوں نے فرمایا: ’’اس وقت اردو کی حفاظت دین کی حفاظت ہے، اس کی حفاظت کرنا مسلمانوں پر واجب ہے، لہٰذا قدرت کے باوجود اس سلسلے میں غفلت اور سستی کا مظاہرہ کرنا موجبِ گناہ ہوگا جس کا آخرت میں مواخذہ کیا جائے گا‘‘۔۔۔ (بحوالہ قومی ذریعہ تعلیم، ڈاکٹر محمد شریف نظامی)۔


یہاں شاید یہ امر قارئین کے لئے دل چسپی کا باعث ہوگا کہ باغیرت نومسلم پاکستانی بھی اردو زبان کی اہمیت سے واقف ہیں ۔ راقم کے لئے تو یہ واقعہ بڑا ایمان افروز بھی ہے کہ ایک نومسلم امریکی خاتون مریم جمیلہؒ نے پاکستان آنے کے بعد اپنے بچوں کو انگریزی کے بجائے اردو زبان میں تعلیم حاصل کرنے اور اسی میں اپنا مافی الضمیر بیان کرنے کی تعلیم وترغیب دی۔ وہ خود انگریزی زبان میں اسلام کا دفاع کرنے کے لئے لکھتی رہیں جس کا ثبوت ان کی تین درجن معرکۂ آرا کتب ہیں۔ مگر وہ فرمایا کرتی تھیں کہ میری تو مجبوری ہے کہ میری مادری زبان انگریزی ہے۔ مَیں اردو میں وہ مقام حاصل نہیں کرسکتی جو اچھی تصنیف کے لئے درکار ہے، اس لئے مجبوراً انگریزی میں لکھتی ہوں۔ اس حوالے سے ہم ان کے بیٹے حیدرفاروق کی زبانی محترمہ کی یہ نصیحت قارئین کی خدمت میں پیش کررہے ہیں: ’’مریم جمیلہ کے عزمِ صمیم اور غیرت اسلامی کو صدرِ اول کے اہل عزیمت کی مثال قرار دیا جاسکتا ہے۔ مریم جمیلہ کے بیٹے حیدر فاروق نے بتایا کہ مَیں جب امریکہ گیا تو تحریکی ساتھیوں نے مجھ سے کہا: ’’انگریزی میں تقریر کرو‘‘۔

ان کا خیال تھا کہ میری والدہ کی وجہ سے انگریزی میری مادری زبان ہوگی۔ مَیں نے کہا : ’’نہیں مَیں تو اردو ہی میں کچھ کہہ سکتا ہوں‘‘۔ اس پر سب لوگوں کو بے حد تعجب ہوا۔ دراصل آپا [مریم جمیلہ کے بچے ان کو آپا ہی کہتے تھے] نے ہمیں یہی سمجھایا تھا کہ اردو ہماری قومی زبان ہے اور اسی میں ہمیں تعلیم حاصل کرنا ہوگی۔ مَیں نے ایک بار امریکہ سے اپنے خط میں یہ شکایت لکھی کہ ہمیں انگریزی میں کمال اور مہارت آپ نے فراہم نہیں کی تو جواب لکھا: ’’تم میرے انگریزی مکتوب کو اچھی طرح سمجھ لیتے ہو اور مجھے جواب بھی لکھ دیتے ہو۔ اتنی انگریزی کیا تمہارے لئے کم ہے؟ اُردو پر فخر کرو، ہرگز کبھی مرعوبیت کا شکار نہ ہونا۔‘‘ (عزیمت کے راہی، جلدچہارم، صفحہ259۔260)

مزید :

رائے -کالم -