”ہماراکلچر توبس ایگری کلچرہے“
ہرانسان،ادارے،معاشرے،علاقے اورتہذیب کااپناایک ”کلچر“ ہوتا ہے۔خطہ زمین کے جس حصے پر ہمارا بسیراہے، وہ شروع سے ہی ایگری کلچرکاعلاقہ رہاہے اوردنیا کا بہترین ایگری کلچرزمانہ قبلِ مسیح سے ہی ہمارے علاقے کا طرۂ امتیاز ہے۔ ہمارے ہاں بندے کی عزت ہمیشہ سے ایگری کلچر کے ساتھ منسلک اورمنسوب رہی ہے۔ بندے کا ایگری کلچر کتنا وسیع ہے اوربندے سے ایگری کرنے والوں کی تعداد کتنی کثیر ہے، یہی دو باتیں عموماً بندے کے بڑے ہونے کاپیمانہ رہی ہیں۔ ہمارے گھروں میں شروع سے ہی ”ایگری کلچر“کی تعلیم دی جارہی ہے۔ بچوں کو ہمیشہ یہ سکھایا جاتا ہے کہ انہوں نے بڑوں کے ساتھ صرف ”ایگری“ کرنا ہے اور جب وہ خود بڑے ہوجائیں تو اپنے سے چھوٹوں سے ”ایگری“ کروانا ہے۔ یہی حقیقی مشرقیت ہے۔ ہمارے گھر تو شروع ہی سے اس کلچر کا بہترین نمونہ تھے۔میرے مشاہدے کے مطابق اب نجی اورغیر نجی اداروں میں بھی ”ایگری کلچر“ نموپذیرہورہا ہے۔ہمارے ہاں بہت سے لوگ انفرادی طور پر اپنی ساری زندگی ”ایگری کلچر“ کی پاسداری کرتے ہوئے گزار دیتے ہیں وہ ہر جائز ناجائز بات سے ”ایگری“ کر جاتے ہیں اور اس کو اپنے کلچرڈہونے کا بنیادی تقاضہ سمجھتے ہیں۔ہمارے ہاں بڑوں سے کوئی سوال کرناہمیشہ سے ناپسندیدہ رہا ہے اوریہ بھی بزرگوں کی شان میں گستاخی سمجھاجاتا ہے کہ اُن کی کسی بات کاجواب دیاجائے۔بڑوں کی ہر بات کے ساتھ ”ایگری“ کرنا بچوں کے فرائض منصبی میں شامل ہوتاہے۔ اگرچہ ہمارے گھروں میں ”ایگریکلچر“ کی بہترین تربیت ایک طویل مدت سے دی جارہی ہے۔ مگر ہمارے اکابرین اس رویے کو پسند نہیں کرتے تھے۔حضرت عمربن عبدالعزیزؒنے ایک موقع پربحث کرنے والے ایک نوجوان کوکہا کہ بڑے بیٹھے ہیں، اُن کو بولنے دو۔ نوجوان نے جواب دیا پھر آپ اپنی خلافت بھی کسی بزرگ کے حوالے کردیں۔ حضرت عمربن عبدالعزیزؒنے نوجوان کی بات کا بُرا نہیں منایابلکہ انہوں نے اپنی اصلاح کرنے پر اُس کا شکریہ اداکیا۔ ہمارے ہاں لوگوں کی اکثریت دوسروں سے”ایگری“ کرنے کے علاوہ زندگی میں کوئی اورکام نہیں کرتی اور بہت سے لوگوں کے دماغ جیسے اللہ پاک پیدائش کے وقت اُن کو عطا کرتا ہے، وہ ویسے ہی موت کے وقت اللہ پاک کوواپس لُٹادیتے ہیں۔یہی سلوک ایک پیر صاحب کے خط کے ساتھ اُن کے مرید نے کیا تھا۔مرید نے پیر کے خط کو چوما،آنکھوں سے لگایا اورپھر عقیدت کے ساتھ ایک محفوظ جگہ پر رکھ دیا اور ساری زندگی ایک لفظ تک نہ پڑھا۔ ہمارے ہاں لوگوں کی اکثریت ہوش سنبھالتے ہی ”ایگری“ ہونا سیکھتی ہے اور پھر ہوش جانے تک اس کے علاوہ کچھ نہیں سیکھتی۔ ہمارے ہاں ہمیشہ ہی چھوٹا بڑے سے ”ایگری“ کرتارہا ہے مگر اب باقی دنیا ہم سے ”ایگری“ کرنا چھوڑ تی جارہی ہے۔خدانہ کرے کبھی وہ وقت بھی آجائے جب وہ ہمیں ”کلچرڈ“سمجھنا بھی چھوڑ دے۔کسی بھی سازشی تھیوری کے ساتھ فل الفور ”ایگری“ کرنے کا کلچرہمارے ہاں کافی عرصے سے ہے اورآج بھی کسی شریف آدمی،ملک یا نظریے کو لے کرکہیں بھی کوئی مبہم سی بات منظر عام پر آجائے،جس سے سازش کی تھوڑی سی بھی بُو آتی ہوتوہمارے لوگ فوراً اس سے ”ایگری“ کرکے اپنے ”ایگری کلچرڈ“ہونے کا ثبوت دیتے ہیں جبکہ میرے خیال میں ”ایگری کلچرڈ“ہونے اور”کلچرڈ“ ہونادو مختلف باتیں ہیں۔اس کی تازہ ترین مثال ”کرونا“ کی وبا اورہمارا رویہ ہے۔ اچھے خاصے سمجھدار لوگ کافی عرصہ یہ ماننے سے انکاری رہے ہیں کہ کوئی”کرونا“ نامی بیماری بھی ہے۔ انہوں نے دنیا کی واضع اکثریت کوچھوڑ کراُس چھوٹی سی اقلیت کے ساتھ ”ایگری“ کرناپسند کیاجویہ کہتی تھی -:”کروناکیا ہے ایک سازش کے سوا“۔بجا ہے کہ کلچر ڈلوگوں کو”ایگری“کرناچاہیئے مگر”ایگری“ کرنے سے پہلے اگربات کی معقولیت کو بھی تھوڑابہت چیک کرلیاجائے تو اس میں بھی قطعاً کوئی ہرج نہیں۔اگرچہ جناب یوسفی صاحب بہت پہلے فرماچکے ہیں کہ ہمارے ہاں افواہوں کا ایک مسئلہ ہے کہ اُن میں سے اکثر سچ نکلتی ہیں مگربعض افواہیں صرف افواہیں ہی نکلتی ہیں اوراُن پر یقین کرنے والوں کی بعد میں ساری عمر پھر آہیں ہی نکلتی ہیں۔ جب تک ”کورونا“اپنی کرنی پرنہیں آیاہمیں ”کورونا“پریقین نہیں آیااورجب ہمیں ”کورونا“ پر یقین آگیا تو دنیا کو ہمارے یقین پر یقین نہیں آیا۔بعض اوقات یہ سوچ کربڑی تکلیف ہوتی ہے کہ دنیا میں آج کل غوروفکر کا”کلچر“ ہے جبکہ ہمارے ہاں صرف دوسروں کے کردار کی فکر کرنے کا ”کلچر“ رہ گیا ہے اورکسی بات پرغورکرناہمارے ہاں اب شایدکبھی زیرِ غور ہی نہیں آتا۔ ”ایگری“ ہونابہت اچھی بات ہے مگر سب سے خوبصورت بات یہی ہے کہ ”وی ایگری ٹوڈس ایگری“۔کبھی کبھی ”ڈس ایگری“ کرنے والے آدمی کو”ڈس مس“ نہیں کرنا چاہیئے”مس“ کرنا چاہیئے۔