سارے سگنل ڈاؤن اس بات کا اشارہ ہوتا ہے کہ رہگزر خالی اور استقبال کے سارے انتظامات مکمل ہیں اب گاڑی کو چاہیے بلا خوف و خطر چلی آئے

 سارے سگنل ڈاؤن اس بات کا اشارہ ہوتا ہے کہ رہگزر خالی اور استقبال کے سارے ...
 سارے سگنل ڈاؤن اس بات کا اشارہ ہوتا ہے کہ رہگزر خالی اور استقبال کے سارے انتظامات مکمل ہیں اب گاڑی کو چاہیے بلا خوف و خطر چلی آئے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:محمدسعیدجاوید
 قسط:114
بڑے لیور کے ساتھ ہی لگے ہوئے نسبتاً چھوٹے لیور کو بھی ساتھ ہی کھینچ کر مقفل کردینے سے اس لائن کے سارے ضروری سگنل ڈاؤن ہوجاتے ہیں، جو گاڑی کے اس بات کا اشارہ ہوتا ہے کہ آپ کی رہگزر خالی ہے اور استقبال کے سارے انتظامات مکمل ہیں اب گاڑی کو چاہیے کہ وہ بلا خوف و خطر چلی آئے۔
جب یہ سب کچھ ہو جاتا ہے تواسٹیشن کی حدود میں آنے والی گاڑی جیسے ہی اس پوائنٹ پر پہنچتی ہے جہاں سے لیور کی مدد سے اسے مرکزی لائن سے ہٹا کر اس کا رخ تبدیل کیا جاتا ہے تو وہ اپنے پہیوں کی مخصوص بناوٹ کی وجہ سے خودبخود دوسری پٹری پر منتقل ہو جاتی ہے۔اس جگہ پہنچ کر گاڑی کا ڈرائیور مجبور ہو جاتا ہے کہ وہ بے بسی کے عالم میں صرف پہیوں کی کھڑکھڑاہٹ ہی سن سکتا ہے اور سوائے گاڑی کو چلانے روکنے یا آگے پیچھے کرنے کے کچھ نہیں کرسکتا کیونکہ اس کے پاس گاڑی کو موڑنے کا نظام ہی نہیں ہوتا۔ وہ مکمل طور پر کیبن والے کے رحم و کرم پر ہوتا ہے۔ وہ جس لائن پر بھی اس کو موڑ دے گا، تقدیر کے لکھے کی طرح اس کو اْ دھر ہی جانا پڑے گا۔اسی طرح گاڑی گزر جانے کے بعد جیسے ہی پوائنٹ مین ان لیوروں کو واپس اوپر دھکیلتا ہے تو باہر بچھی ہوئی پٹریاں دوبارہ واپس اپنی جگہ آ جاتی ہیں۔
اگر کسی وجہ سے آگے اسٹیشن پر کوئی پلیٹ فارم یا جگہ خالی نہ ہو اور وہاں پہنچنے والی گاڑی کو انتظار کروانا مقصود ہو، یا کسی بھی سمت سے آتی ہوئی تیز رفتار گاڑی کو ترجیحی بنیادوں پر راستہ دینا ہو تو پہلے والی گاڑی کو ایک طرف روک دیا جاتا ہے تاکہ ترجیحی گاڑی کو پٹری صاف ملے اور وہ زنا ٹے بھرتی وہاں کھڑی ہوئی اس مسکین سی گاڑی کو منہ چڑاتے ہوئے گزر جائے۔
چونکہ کیبن کے اطراف میں کھڑکیاں کھلی ہوئی ہوتی ہیں جہاں سے چاروں طرف نگاہ دوڑائی جا سکتی ہے اس لیے کیبن مین کو سخت ترین موسمی حالات سے بھی لڑنا پڑتا ہے۔ پھرجب گاڑی اس کے کیبن کے سامنے سے گزرنے لگتی ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ سبز جھنڈی لے کر کھڑکی میں آن بیٹھے یہ سگنل کے علاوہ اس کی طرف سے ڈرائیور کے لیے بشری اشارہ ہوتا ہے کہ وہ اپنا سفر جاری رکھ سکتا ہے۔ اگر خدانخواستہ گاڑی پہلے سگنل سے آگے نکل آئے اور عین آخری وقت پر کسی وجہ سے گاڑی کو روکنا پڑ جائے تو وہ سرخ جھنڈی لہراتا ہے اور اگلا سگنل اَپ کردیتا ہے۔ڈرائیور یہ صورت حال دیکھ کر اسٹیشن کی حدود سے پہلے ہی گاڑی روک لیتا ہے۔رات کے وقت جھنڈیوں کے بجائے سرخ اور سبز رنگوں کے موٹے عدسوں والے خصوصی لیمپ استعمال ہوتے ہیں۔
اب زمانہ بدل گیا ہے اور یہ سارا نظام متروک ہوتا جا رہا ہے اور انٹر لاکنگ اور سگنل کا سارا سلسلہ بتدریج کمپیوٹر کے حوالے کیا جا رہا ہے۔ جو حالات اور اپنی مصنوعی مگر مؤثر ذہانت کے بل بوتے پر انٹر لاکنگ کے یہ مربوط فیصلے کریں گے اور پھرمختلف پوائنٹ پر لگی ہوئی برقی موٹروں کے ذریعے مطلوبہ مقام پر پٹریوں کو آپس میں جوڑ سکیں گے، اب کیبن میں موجود عملہ، یا اسٹیشن کے کنٹرول روم میں بیٹھے ہوئے ملازمین صرف ایک بٹن دبا کر پٹریوں کو ادھر سے ادھر کر سکیں گے۔پاکستان میں کچھ سیکشنوں پر یہ کام مکمل ہو چکا ہے جہاں پٹریوں کے پوائنٹوں پر اب طاقتور برقی موٹریں نصب کر دی گئی ہیں۔جو نہ صرف پوائنٹ بدلیں گی بلکہ صدیوں پرانے سگنل سسٹم کو بھی برقی سگنل میں بدل دیں گی۔
 (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -