سلطان صلاح الدین ایوبیؒ. . . قسط 43
حکم تھا کہ حاجیوں کے قافلے کی پیشوائی سلطان السلاطین بنفس نفیس فرمائیں گے۔اس لئے قافلے کو ’’باب الشرق‘‘ پر روک دیا گیا ہے۔ اور فرمانِ ثانی کا انتظار ہے
سلطان کے اٹھتے ہی وزیر الٹے قدموں واپس چلا گیا۔امیر بیوتات نے خلوت شاہی کے مغربی دروازے کا پردہ ہٹا دیا۔سلطان تخت کے پاس ہی کھڑے رہے پھر خود کلامی کے سے انداز میں گویا ہوئے ۔
’’بوڑھے اوربیمار جسم کو بادشاہی تکلفات زیب نہیں دیتے۔لاؤ پہنا دو۔‘‘
امیر نے زرد ریشم کا جبہ پہنا دیا۔ایک غلام نے مرصع دستا نے پیش کئے جو نا مقبول ہوئے ۔
سلطان صلاح الدین ایوبیؒ. . . قسط 42 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
کمر میں امیر نے وہ کمر بند باندھ دیا جو پکھراج کے کام سے زرد تھا۔پورے احترام کے ساتھ تلوار کمر میں لگا دی جسے ذوالفقار ثانی کا جائزخطاب دیا گیا تھا۔ابھی غلاموں کی انگلیاں پیر ہن پر لزر رہی تھیں کہ ان کے قدم دروازے کی طرف اٹھ گئے۔زینے پر کھڑے ہوئے چاؤش نے امراء کو اطلاع دی۔
اندرونی عمارت سے جبوترے کی سیڑھیوں تک شہزادوں،وزیروں،سرداروں کا مودب ہجوم کھڑا تھا۔سلطان آداب شاہی کی بجا آوری سے بے نیاز چبوترے کی آخری سیڑھی تک پہنچ گئے ،سامنے ’’طاؤس زریں‘‘نام کا زرد خالص عربی گھوڑا کردہ خاص برادروں اور ترکمان تبرداروں کے حلقے میں کھڑا تھا۔رکاب میں پائے مبارک رکھتے ہی دورباب الداخلہ سے طبل بجنے کی آواز آنے لگی ۔مرکب شاہی کے آگے کھڑے ہوئے چار حسین،تندرست اور نوخیر غلام پر ندوں کی طرح اڑ کر اپنے سفید گھوڑوں پر سوار ہو گئے ۔ان کی آستینیں اور دامن اور شمسے زرکار تھے،پگڑیاں زرد الطلس کی تھیں،ہتھیار اور گھوڑوں کے سازمرصع تھے۔ان کے داہنے ہاتھ میں ’’کفیہ‘‘(رومال) تھے۔ان کے سوار ہوتے ہی شاہزادہ طغرل نے سلطان پر چھتر شاہی کا سایہ کرد یا۔
طاؤس زریں جواہر نگار چار جامہ پہنے،آبدار موتیوں کی کلغی لگائے غرور سے پاؤں پٹک رہا تھا اور سلطان آنکھوں کے گوشوں سے اراکین سلطنت اور امراء دولت کو ملاخطہ فرما رہے تھے۔ممالک افریقہ کا نوجوان امیر غضنفر جس نے جہاد میں بڑے بڑے معرکے انجام دیئے تھے اس خدمتِ خاص پر متعین تھا کہ مرکب شہنشاہی کا چار جامہ پکڑ کر چلے۔وہ سنگِ سیاہ کے دیو کی طرح طاؤس زریں کے ساتھ ساتھ گھوم رہا تھا۔مزاج داں امیر نے نگاہِ سلطانی پڑھ لی۔اور گزارش کی۔
’’مصر اور کردستان سے آئے ہوئے لشکر مضافات میں مقیم ہیں۔نائب السلطنت اور سپہ سالار دولت ملا خطے کیلئے تشریف لے گئے ہیں۔‘‘
اس پہاڑ کی طرح بھاری بھر کم امیر کی الغوزے کی سی نسائی شیریں آواز نے سلطان کو ہمیشہ محظوظ کیا تھا۔اس وقت بھی ان کے سنجیدہ لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ نمودار ہوئی اور انھوں نے آستین سے رومال کھینچ لیا۔یہ اشارہ تھاجلوس کی روانگی کا چشم زدن میں راکب و مرکب ایک ہو گئے۔امیرجلوس وزیر ابو بکر نے ہاتھ کااشارہ کیا۔باب الداخلہ پر کھڑی ہوئی اونٹوں کی قطار طبل بجاتی ہوئی چلی اور حجاز اورمصر کے امیر اپنے اپنے نشان اڑاتے،شمشیرزادوں کو رکاب میں لئے چل رہے تھے ،ان کے بعد ایک شخص نفیری بجاتا ہوا بڑھ رہا تھا۔سفید گھوڑوں پر سوار چار غلام قدم سے قدم ملائے آگے بڑھ رہے تھے۔مرکب شاہی کے پیچھے طغرل کے آہنی ہاتھ میں وہ بھاری چھتہ تھا۔جس پر بیٹھا ہوا سونے کا عقاب اڑانے کے لئے پرتول رہا تھا،جب سواری باب الداخلہ سے گزر گئی تب صحن میں بھرے ہوئے سوار شہزادوں اور امیروں اور وزیروں کے ساتھ جلوس کے پیچھے ہو لئے۔
اب دمشق کے قدیم محلات کے نکیلے میناروں کے چھتریاں اور مخروطی گنبدوں کے کلس نظرآنے لگے تھے۔معلوم ہوتا تھا جیسے یہ شاہانہ عمارتیں پورے تحمل کے ساتھ پیشوائی کے لئے آگے بڑھ رہی ہوں۔قطر سلطانی کے میدانوں اور باغات کے حدود ختم ہوتے ہی جلوس انسانوں کے لہریں لیتے ہوئے دریا میں داخل ہو گیا۔مغرور اور دولت مند دمشق کی خوش حال آبادی محافظِ اسلام کے مقدس دیدار کیلئے صبح سے شاہراہِ عام کے دونوں طرف ابل پڑی تھی۔سرخ پتھرکی مسطح سڑک کے دونوں طرف زمین کا ایک ایک چپہ انسانوں سے پٹا پڑا تھا۔دکانوں کے سنگین دالان،چوبیں اور چرمیں سائبان،فلک بوس ڈیوڑھیوں کے تاریک حجرے،نیم تاریک محرابیں اور محلوں اور مسجدوں کی سیڑھیاں بوڑھوں،جوانوں اور بچوں سے چھلک رہی تھیں۔بوڑھے غازی اور جوان شاعر وموسیقار اپنے اپنے مداحوں کی ٹولیوں میں کھڑے پر سوز آواز اور پرجوش الفاظ میں جطین اور فلسطین کی لڑائی کے قصیدے سنا رہے تھے اور گارہے تھے۔جب مرکب شاہی ان کے قریب سے گزرتا تو وہ خود فراموش آواز میں سلطان کی عمرواقبال کو دعائیں دیتے،نعرے اور رکاب بوسی کاشرف پانے کیلئے یلغار کر دیتے اور مستعد سوار اپنے گھوڑے بیچ میں ڈال کر انھیں دور رکھنے کی کوشش کرتے اور یہ بھی ہوتا کہ کوئی بوڑھا مجاہد یا نو عمر لڑکا اپنی عمر کا فائدہ اٹھا کرمحافظ دستے کے حلقے کو توڑ کر گھس آتا۔اور امیر افریقہ،غضنفر کی سرخ ہوشیار مودب آنکھوں کے سامنے طاؤس زریں کی رکاب پر سر رکھ دیتا اور پاپوش سلطانی کو اپنے آنسوؤں سے بھگودیتااور جب غلام چاہتے کہ ان کی کمر میں ڈال کر اٹھا لیں تو ایک چین جبین انھیں اس حرکتِ ناشائستہ سے منع کر دیتی اور جب جلوس گزرجاتا تو پتا چلتا کہ کتنے ہی آدمی دم گھٹنے سے بیہوش ہو گئے اور کتنے ہی گھوڑوں سے کچلے گئے ۔(جاری ہے )
سلطان صلاح الدین ایوبیؒ. . . قسط 44 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں