ہنری لوئیس برگساں، اہم فرانسیسی یہودی فلسفی ، 1927ءمیں ادب کا نوبل انعام دیا گیا

تحریر: ظفر سپل
قسط:107
برگساں
عظیم امریکی فلسفی ولیم جیمز جو برگساں سے 17سال بڑا تھا، ابھی اس کی ملاقات برگساں سے نہیں ہوئی تھی، جب اس نے 1903ءمیں لکھا ”میں برگساں کی کتابیں دوبارہ پڑھ رہا ہوں، اور سالہا سال سے میں نے جس قدر پڑھا ہے، اس میں برگساں نے میرے خیالات کو سب سے زیادہ متاثر اور متحرک کیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس فلسفی کا مستقبل شاندار ہے کیونکہ اس نے مروجہ ڈھانچوں کو توڑ کر فلسفیانہ مسائل کے نئے حل تجویز کرنے کی کوشش کی ہے“ برگساں نے 1908 ءمیں ولیم جیمز سے ملاقات کے لیے لندن کا سفر کیا۔ ہاورڈ کے فلسفی سے یہ ملاقات دوستی میں بدل گئی اور پھر ولیم جیمز نے اینگلو امریکن پبلک کو برگساں کے خیالات سے روشناس کرانے کے لیے اہم کردار ادا کیا۔ اس ملاقات کے بعد 4 اکتوبر 1908ءکو ولیم جیمز نے ایک خط میں لکھا:
”کیا ہی شائستہ اور بے تضع آدمی، مگر ذہنی طور پر واقعتا ایک نابغہ۔ میرا گمان غالب ہے کہ اس کے خیالات ہمارے عہد کے فلسفے کی تاریخ میں ایک نئے موڑ سے روشناس کرائیں گے“
ہنری لوئیس برگساں (Henri-Louis Bergson)، سب سے اہم فرانسیسی یہودی فلسفی۔ اسے 1927ءمیں ادب کا نوبل انعام دیا گیا۔ 1930ءمیں فرانسیسی حکومت نے اسے اعلیٰ ترین قومی اعزاز سے نوازا۔
وہ 1859ءمیں فرانس میں پیدا ہوا۔ اس کا باپ مائیکل برگساں (Michal Bergson) پولش یہودی پسِ منظر رکھنے والا پیانو نواز تھا۔ انگلش اور آئرش یہودی پسِ منظر رکھنے والی اس کی ماں کا نام کیتھرین لیوی سن (Katherine Levison)ہے۔ وہ یارک شائر کے ایک ڈاکٹر کی بیٹی تھی۔ اس خاندان نے ہنری برگساں کی پیدائش کے بعد کچھ سال لندن میں گزارے۔ یہیں پر اس نے اپنی ماں سے انگریزی کی ابتدائی شدہ بدھ حاصل کی۔ جب وہ9 سال کا ہوا تو یہ خاندان دوبارہ پیرس آ کر آباد ہو گیا۔
برگساں نے 14سے16سال کی عمر کے دوران یہودیت کی تعلیم حاصل کی۔ تاہم بعد میں اس نے اپنے عقیدے کو کھو دیا۔ غالباً اس میں ڈارون کے نظریۂ ارتقاءنے سب سے اہم کردار ادا کیا، جس کے مطابق انسان کو خدائے عظیم نے براہ راست تخلیق نہیں کیا تھا، بلکہ وہ بندروں ، لنگوروں اور چمپینزیوں کی ترقی یافتہ نسل ہے۔ برگساں نے 1868ءسے 1878ءتک 10سال پیرس کے ایک سکینڈری سکول لائیسی فونٹینز (Lycee Fontanes) میں تعلیم حاصل کی۔ یہیں پر اس نے ایک ریاضیائی مسٔلے کا حل پیش کرکے انعام جیتا۔ اگلے سال اس کام کو شائع بھی کر دیا گیا، جو برگساں کا چھپنے والا پہلا کام ہے۔ انہی دنوں اس نے یہ فیصلہ کرنا تھا کہ وہ مستقبل میں سائنس کو اختیار کرے گا یا ادب کو۔ یہ فیصلہ ”ادب“ کے حق میں ہوا۔ جب برگساں 19 سال کا ہوا تو اس نے ایکول نارملے سپیرئیر کالج (Ecole Normale Superieure) میں داخلہ لیا۔ یہیں پر اس نے ہربرٹ سپنسر (Herbert Spencer) کو جم کر پڑھا اور پکا مادیت پسند بن گیا۔ سپنسر کی طرح اس کے خیالات اس طرح کے تھے کہ جس طرح انسانی بدن بچپن، جوانی اور بڑھاپے کے مراحل طے کرتے ہوئے فنا کی گھاٹ اتر جاتا ہے، اسی طرح انسانی معاشرے اور ان کے اخلاقی نظام بھی زندگی کے مختلف مرحلے طے کرتے ہوئے اپنی بہار دکھا کر آخر کار تباہ ہو جاتے ہیں۔
انہی دنوں کا ایک قصہ یوں بیان کیا جاتا ہے کہ کتابوں سے دلچسپی کی وجہ سے اسے کلاس کی لائبریری کا انچارج بنا دیا گیا۔ مگر ایک دن جب کلاس ٹیچر نے اس لائبریری کا معائنہ کیا تو الماریوں میں کتابوں کی بے ترتیبی اور ان پر گرد و غبار دیکھ کر سب لڑکوں کے سامنے سرزنش کرتے ہوئے کہا ” برگساں، تمہاری روح اس بدنظمی کو کس طرح برداشت کر لیتی ہے“۔ جب اس کے کلاس فیلوز نے یہ بات سنی تو انہوں نے بے ساختہ کہا ” برگساں میں تو روح ہے ہی نہیں“
2 سال کی گریجوایشن کی تعلیم کی تکمیل کے بعد جب وہ فارغ ہوا تو اسے فرانس کے شہر اینگرز (Angers) کے سیکنڈری سکول میں ٹیچر کی آسامی کی پیشکش ہوئی، یہ 1881ءکی بات ہے یہاں2 سال گزارنے کے بعد وہ کلیرمونٹ فیرنڈ(Clermont-Ferrand) کے ایک سکینڈری سکول میں پڑھانے کے لیے چلا آیا۔(جاری ہے )
نوٹ :یہ کتاب ” بک ہوم “ نے شائع کی ہے ، جملہ حقوق محفوظ ہیں (ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں )۔