اور اب آئین خطرے میں؟

سنتے آ رہے تھے ملک خطرے میں ہے اور یہ خطرہ ایک کے دو ملک بن جانے کے بعد بھی رہا اور ملک خطرے ہی میں رہا،ادوار آتے جاتے رہے یہ الفاظ اقتدار اور اقتدار سے محروم اپنے اپنے انداز میں کہتے رہے۔بقول نوابزادہ نصر اللہ(مرحوم) جب کسی طالع آزما نے اقتدار سنبھالا تو یہ نعرہ دب گیا جونہی اقتدار آمریت سے جمہوریت کی طرف منتقل ہوا، یہ نعرہ پھر سے شروع ہو گیا اور سب سے پہلے اس سول دور کی اپوزیشن کی طرف سے ہی لگایا گیا۔چلتے چلتے یہ دور آ گیا کہ برسر اقتدار کی طرف سے سیاست نہیں،ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا گیا، دوسری طرف سے وہی نعرہ لگایا جاتا رہا کہ نوبت مذاکرات تک آ گئی،لیکن یہ سلسلہ ملکی اور قومی مفاد کو پس ِ پشت ڈال کر ختم کر دیا گیا۔الزام ایک دوسرے کو دیا جا رہا ہے تاہم اب ایک نئی صورت پیدا ہوئی ہے اور آئین خطرے میں ہے۔ آزادی کا نعرہ لگانے والوں نے اب آئین کے تحفظ کا بوجھ اُٹھا لیا ہے۔ یہ بڑا بھاری بھر کم ہے اِس لئے اس اکیلی جماعت سے تو اٹھایا نہیں جا رہا اس کے لئے بیرونی امداد طلب کر لی گئی۔ منگل کو تحریک انصاف والے باجماعت اپنے مولانا فضل الرحمن کی خدمت میں حاضر ہو گئے اور عرض گذار ہوئے کہ آئین کے تحفظ کے لئے ان کا ساتھ دیا جائے کہ وہ اب تک کچھ نہیں کر پائے،اب گرینڈ الائنس کی ضرورت ہے مولانا فضل الرحمن آج کل توازن کے حامل ہیں اور خود مختار اور آزاد سیاست کر رہے ہیں اِس لئے تحریک انصاف کی شکایت کو معقول قرار دے کر بھی انہوں نے تسلی دی اور اپنی جماعت سے مشاورت کی اجازت لے لی۔مولانا نے مدارس ایکٹ کے حوالے سے کہا تھا کہ مولوی کو طعنہ دیتے ہیں مولوی نے تو دو کشتیوں میں پیر رکھا اور پار ہو گیا۔دیکھنا یہ ہے کہ کیا ان کی نظر میں بھی حالات ایسے ہی ہیں۔وہ تو منصفانہ ماحول اور بلاامتیاز سلوک چاہتے ہیں اور اِس حوالے سے ہر وقت بات بھی کرتے رہتے ہیں،وہ اپنے تحفظات کا برملا اظہار کر دینے کے قائل ہیں اور ان کی سنی بھی جاتی ہے۔انہوں نے تو اس عزم کا اظہار کر رکھا ہے کہ ملک بھر میں قانون کی حکمرانی،امن و سکون اور شفاف عام انتخابات کرانے کیلئے جدوجہد کریں گے اور یہ مَنا کر بھی رہیں گے۔
اب اگر دیکھا جائے تو مولانا تو خود اپوزیشن میں ہیں اور انہوں نے مدارس کے حوالے سے بھرپور جدوجہد کی اور اپنی بات منوا لی۔آج کل وہ فارغ ہیں اور ان کے لئے بھی جدوجہد کا راستہ ضروری ہے، چنانچہ وہ سوچ تو سکتے ہیں، لیکن مسئلہ تو یہ ہے کہ وہ خیبرپختونخوا حکومت کے حوالے سے بھی ”خیریت نیک مطلوب ہے“ کا بیانیہ رکھتے اور شمولیت کے حوالے سے ہم جاننے والوں کو بھی تحفظات ہیں کہ بقول خود وہ دوکشتیوں میں سوار ہوکر بھی کامیاب ہو چکے ہیں اِس لئے وہ فیصل آباد کا گھنٹہ گھر ہونے کو ترجیح دینا ہی مناسب سمجھیں گے اور اسے انجوائے کریں گے،اِس لئے میرے خیال میں تو زیادہ امکان یہی ہے کہ وہ اپنی حیثیت کو برقرار رکھنا چاہیں گے کہ ان کے ڈیرے کی طرف پھیرے لگتے رہیں۔
اب ذرا حزبِ اقتدار کے رویے کا بھی ذکر کر لیں،ان کو بھی نئے نئے مسائل پیدا کرنے کا شوق ہے کہ مخالفین اُلجھے رہیں۔یہی دیکھ لیں کہ اب پیکا ایکٹ کو ہی مسئلہ بنا لیا گیا ہے اور ہمارے بھائی میرے جیسے لوگوں کے تحفظات کے ساتھ اتفاق کرتے ہوئے بھی مظاہرین میں شامل ہونے پر مجبور ہوئے۔پیکا ایکٹ کا مقصد تو یہ بتایا گیا کہ فیک نیوز، توہین آمیز مواد، ملک دشمن تحریروں کو روکنے کے لئے لازم ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ سوشل میڈیا کا کوئی انتظام کیا جائے،جس نے اودھم مچا رکھا ہے یہ درست بھی ہے کہ اس میڈیا نے توہین آمیز مواد کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ خصوصاً انصافی ٹرولر تو درجہ اول سے بھی اوپر والے درجہ کے ماہرین ہیں جب سے مصنوعی ذہانت (اے۔ آئی) کا سلسلہ شروع ہوا ان حضرات نے اَت مچا دی ہے،ان سے اگر حکومت تنگ ہے تو کئی معززین بھی زد میں آ چکے ہیں جو فریاد کرتے نظر آتے ہیں، حتیٰ کہ مصنوعی ذہانت کے استعمال سے ویڈیو اور تصاویر بنا کر ایسی توہین کے مرتکب ہوئے کہ تردید بھی مشکل ہو گئی۔ایف آئی اے کے سائبر ونگ نے ایکشن تو لیا لیکن ملزموں تک پوری رسائی حاصل نہ کر سکے اس کے بعد ہی پیکا (ترمیمی) ایکٹ کا سلسلہ شروع ہوا،جس نے پوری صحافی برادری کو مشتعل کر دیا کہ گدھے، گھوڑے کی پہچان نہیں کی گئی،حتیٰ کہ فیک نیوز کی جامع تعریف نہیں کی گئی۔اس کے خلاف اتنا وسیع احتجاج میرے لئے حیرت کا باعث ہے کہ زندگی آزادیئ صحافت کی جدوجہد میں گذار دی۔ایوب خان کا پریس اینڈ پبلی کیشنز آرڈیننس منسوخ کرانے میں کامیاب رہے، لیکن بعد میں جو سیلاب اور طوفان آیا اس کا اندازہ ہی نہیں تھا، بالکل اِسی طرح کہ ہماری موجودہ اور سابقہ حکومتوں کو بھی سوشل میڈیا کا درست ادراک نہ ہوا اور اس کا پھیلاؤ اتنا زیادہ ہ گیا ہ اس سے محفوظ رہنا محال ہو گیا،لیکن عقل مندی کا تقاضہ تو یہ تھا اور ہے کہ اس طوفان کو تکنیکی اور قانون و قواعد کے ذریعے الگ سے روکا جاتا۔ میں مانتا ہوں کہ یہ مشکل کام ہے لیکن ناممکن نہیں۔ سوشل میڈیا کو غلط مقاصد کے لئے استعمال کرنے والے اتنے ذہین نہیں کہ آپ ان کو کنٹرول ہی نہ کر سکیں اس کے لئے توجہ کی ضرورت ہے۔
اب حکومت نے جو محاذ بنوا لیا اس پراب بھی غور کر لیں کہ میرے خیال میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو الگ رکھنا لازم ہے کہ ان کا اپنا نظام کنٹرول ہے،مسئلہ صرف اور صرف سوشل میڈیا تک رہنے دیا جاتا تو مشاورت کے ساتھ صحیح قسم کے بلاگر کو بھی الگ کیا جا سکتا ہے اور ایسا کرنا چاہئے اور پھر جو سوشل میڈیا، غیر اخلاقی اور غیر قانونی امور میں مبتلا ہے اس کے گرد شکنجہ کسنا چاہئے اور یہ صرف مشاورت سے ممکن ہے۔میری اطلاع یہ ہے کہ سابقہ حکومتوں اور موجودہ حکومت کو بھی مشورہ دیا گیا، پیشکش کی گئی کہ باہمی اتفاق رائے سے حل کیا جائے لیکن کسی نے بات نہیں مانی،اب تو خود حکومتی اہم حضرات بھی یہ موقف اختیار ہوئے ہیں کہ مشاورت لازمی تھی جو ”پیشہ صحافت“ کا حق ہے۔حکومت کو اب بھی شیری رحمان کی تجویز مان لینا چاہئے کہ منظور ہو جانے والے قانون میں مزید ترامیم کے لئے ہی وسیع مشاورت کا اہتمام کیا جائے اور شعبہ وار قواعد مرتب کئے جائیں ورنہ اس احتجاج سے کس کا بھلا ہو گا یہ وقت بتا دے گا، اپوزیشن کو تو موقع مل گیا ہے۔
بات ملک خطرے سے شروع کی،گرینڈ الائنس پر آتے آتے اس بڑے تنازعہ کی طرف چلی گئی، تحریک انصاف والے اب جو تحریک چلانا چاہتے ہیں اس کے لئے انہوں نے تحفظ آئین کا نعرہ ایجاد کیا اور کہتے ہیں آئین خطرے میں ہے اور ہم اس سے تحفظ کیلئے گرینڈ الائنس بنانا چاہتے ہیں،میں نے اپنی صحافیانہ زندگی میں ایوب خان سے لے کر ذوالفقار علی بھٹو اور پرویز مشرف دور تک کی متحد، اور گرینڈ الائنس اور تحریکوں کی کوریج کی اور سب دیکھا بھالا ہے اب اس گرینڈ الائنس کو بھی دیکھ لیتے ہیں، جس کے قائدین میں بڑے رہنماء عمر ایوب ہیں جن کے دادا محترم نے اس ملک کو بے آئین کر کے اپنا آئین نافذ کر دیا تھا اور پھر وہ بھی زمانہ آیا جب ایک آمر نے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر سے صدر بن کر خود کواپنے ہی قلم سے بطور آرمی چیف توسیع دے لی۔بہرحال دیکھتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمن کس طرف جاتے ہیں۔عقل اللہ نے سب کو دی، استعمال کا فرق ہوتا ہے۔
٭٭٭٭٭