پاک فوج سے اتنا خوف کیوں؟

دو نومبر کو اسلام آباد بند کرنے کی عمران خان کی دھمکی نے سیاسی ماحول کو خوف اور تذبذب میں مبتلا کر دیا ہے۔ شائدعمران خان کایہ واحد پروگرام ہے جس کی تشہیر تحریک انصاف نے اب تک بینر یا پوسٹر کے ذریعے نہیں کی، یہ فریضہ حکومت کے وفاقی وزرا صبح دوپہر شام کو الیکٹرونکس میڈیا اور سوشل میڈیا پر احسن انداز میں انجام دے رہے ہیں،رہی سہی کسر اپوزیشن لیڈر سیدخورشید نے پوری کر دی ہے۔ تیسری قوت اگر آ گئی تو ذمہ دار عمران خان ہو گا۔ فوج نے ٹیک اوور کر لیا تو ذمہ دار تحریک انصاف ہوگی۔ عمران اسلام آباد بند نہیں کر سکیں گے۔ عمران خان حساب دیں۔۔۔ بڑی دلچسپ صورت حال معلوم ہوتی ہے۔ وزراء ایک ہی بات صبح دوپہر شام کرتے نظر آتے ہیں۔ شوکت خانم میں کرپشن ہوئی ہے۔ عمران خان زکوٰۃ کے پیسوں کا حساب دیں۔ وزراء کے الزامات، مہم جوئی اور اخلاق سے گری ہوئی زبان استعمال ، پی ٹی آئی کے یوتھ کنونشن پر لاٹھی چارج، گرفتاریوں اور خواتین سے بدتمیزی نے عمران خان کے دھرنے کو 2نومبر سے پہلے ہی کامیاب کرا دیا ہے۔ عمران خان کی پارٹی کی تین سال سے کے پی کے میں حکومت ہے۔ وہاں کوئی کرپشن ہیرا پھیری ہوئی ہے تو وفاقی وزراء کو اسے اچھالنا چاہیے، اس کا تذکرہ کرنا چاہیے، مگر گنگا الٹی بہہ رہی ہے۔ کے پی کے کی حکومت پر بات کرکے ان کی دونمبری یا سکینڈل سامنے لانے کی بجائے سارا زور شوکت خانم پر دیا جا رہا ہے۔ خدا کے بندو اگر عمران خان کے ہاتھوں شوکت خانم کی صورت میں ایک اچھا کام ہو گیا ہے تو اس کو معاف کر دیں۔ وفاقی وزرا کی طرف سے الزامات کی روایت ایسی آگے بڑھی۔
عمران خان وزیراعظم پاکستان کی تلاشی لیتے لیتے اور استعفیٰ لیتے لیتے وزیراعلیٰ پنجاب پر آ گئے ہیں اور انہوں نے اربوں روپے کی کمیشن کا الزام لگا دیا ہے ، پھر میاں شہباز شریف بھی وفاقی وزراء کی طرح عمران خان کے پھیلائے ہوئے جال میں آ گئے اور ہنگامی طور پر ڈیڑھ گھنٹہ وضاحتیں کرتے کرتے عمران خان پر ہرجانے کا دعویٰ کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ جب میاں شہبازشریف الزامات کا جواب دے رہے تھے۔ تحریک انصاف کے مرکزی رہنما علیم خان میاں شہبازشریف پر ہرجانے کا دعویٰ کرنے کا اعلان کر رہے تھے۔ ہر جانے ،دعوے الزامات کرپٹ کرپٹ کی رٹ سے عوام بے زار ہو رہے ہیں اور اس کا ثبوت۔۔۔ ایک بڑے ہی محترم پروفیسر مجھے نماز فجر کی ادائیگی کے بعد پکڑ کر کھڑے ہو گئے اور فرمانے لگے میاں صاحب ان سیاستدانوں کو سمجھاؤ اس پر کچھ لکھو یہ ہمیں ڈرا رہے ہیں کہ فوج آ سکتی ہے۔ جمہوریت کو خطرہ ہے یا ایک دوسرے کو ڈرا دھمکا کر باخبر کر رہے ہیں۔ پروفیسر صاحب کا کہنا تھا حقیقت میں یہ عمران خان کے دھرنے سے خوفزدہ ہرگز نہیں، انہیں یہ بھی پتہ ہے فوج نہیں آئے گی۔ میں نے سوال کیا پروفیسر صاحب پھر وزرا اپوزیشن رہنما اور دیگر پارٹیاں عمران خان کو کیوں کہہ رہے ہیں کہ دھرنا نہ دو فوج آ جائے گی۔ انہوں نے کہا یہ بلیک میل کر رہے ہیں۔ ایک د وسرے کو اقتدار سے ہٹ جانے کا خوف ہے ورنہ فوج نے ہمارے ساتھ کیا زیادتی کی ہے اب تک 5سے 10فیصد لوگوں کے لئے جمہوریت کا ڈرامہ رچایا جاتا ہے ورنہ ہمارا کیا ہے ہمارے بچوں کا کیا ہے 90 فیصد عوام کا کیا حال ہے اس سے 5 سے 10فیصد اشرافیہ باخبر نہیں ہے۔ نام نہاد جمہوریت کے دعوے دارخود اپنے دشمن ہیں۔ جمہوریت ان کے گھر کی لونڈی ہے جس نے آج تک انہی کو فائدہ دیا ہے ورنہ ہم تو جو کمائیں گے وہی کھائیں گے فوج نے ہمارے ساتھ کیا زیادتی کی ہے۔ ملک کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے اس سے یہ جمہوری سیاستدان بھی آگاہ ہیں۔ فوج بھی جمہوری سیاستدانوں کے کالے کرتوتوں سے پوری طرح آگاہ ہے۔ عوام پہلے ان سے بیزار ہیں۔ رہی سہی کسر ایک دوسرے پر الزامات لگا کر ایک دوسرے کو ننگا کرکے پوری کر رہے ہیں۔
پروفیسر صاحب فرمانے لگے 35سال پروفیسر رہا ہوں جو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے جب بھی ہمارے ملک پر آزمائش آئی ہماری فوج ہی مدد کے لئے پہنچی۔ سیلاب آتا ہے فوج پہنچ جاتی ہے زلزلہ آتا ہے۔ فوج کے جوان ہمارے ساتھ ہوتے ہیں۔ مرد شماری کرانی ہو تو فوج کو بلایاجاتا ہے الیکشن کرانا ہے تو فوج کو بلا لیا جاتا ہے امن عامہ کا مسئلہ ہے فوج یاد آ جاتی ہے۔ کراچی بدامنی کا شکار ہے فوج بلا لی جائے کوئٹہ کے حالات ٹھیک نہیں ہیں۔ فوج بلا لی جائے اسلام آباد کے ایوانوں کو خطرہ ہے فوج کو 90روز کے لئے توسیع دے دی گئی ہے گزشتہ 10سالوں سے جمہوریت کے تحفے دیکھ لئے جائیں اور ضرب عضب کے ہزاروں شہیدوں کی قربانیوں کو سامنے رکھ لیا جائے۔10 سال سے پہلے کیسی بدامنی تھی۔ دہشت گردی تھی۔ عوام بازار جانے سے بھی خوفزدہ تھے۔ مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے جانے کے لئے تیار نہیں تھے۔دہشت گردی کے ناسور نے پورے معاشرے کو لپیٹ میں لے رکھا تھا اہل پاکستان کے بڑے بڑے لوگ باہرمنتقل ہونا شروع ہو گئے تھے۔ کاروباری افراد اپنا کاروبار باہر منتقل کرنا شروع کر دیا تھا پاک فوج جس سے ہمیں سیاستدان ڈرا رہے ہیں جیسے مائیں بچوں کو چپ کرنے کے لئے ڈراتی تھی چپ ہو جا باؤو آ جائے گا وہی حال ہماری جمہوریت کے مالکان کا ہے جب بھی کوئی کرپشن کی بات کرتا ہے جب بھی کوئی احتساب کی بات کرتا ہے جب بھی کوئی احتجاج کی بات کرتا ہے اس وقت سی پیک کو خطرہ قرار دیا جاتا ہے۔ فوج کا خوف دلا دیا جاتا ہے۔ ملکی معیشت کو خطرہ قرار دے دیا جاتا ہے۔ 3سالہ موجودہ حکمرانوں کی تاریخ دیکھ لی جائے کسی نے کبھی عوام کا رونا نہیں رویاکسی نے تذکرہ نہیں کیا۔عوام کو بھی دیکھ لیا جائے وہ کس حال میں ہیں، وزراء کا حال تو یہ ہو گیا ہے ایک وزیر فرماتے ہیں ماش کی دال مہنگی ہے تو مونگ کی دال کھالی جائے یہ باتیں دور کی نہیں ہیں۔ عمران خان کے دو نومبر کے اعلان کے بعد کی ہیں آخر میں مجھے پروفیسر صاحب فرمانے لگے میاں آپ ضرور لکھیں کہ وفاقی وزرا 5یا 6ہیں وہ گزشتہ 3سالوں میں کبھی عوام کا پروگرام لے کر ٹی وی پر نہیں آئے کبھی کسی عوامی منصوبے کا افتتاح کرتے نظر نہیں آئے یہ اس وقت نظر آتے ہیں۔
جب عمران خان احتجاجی دھرنے کا اعلان کرتے ہیں وزرا اور ان کے ساتھ تمام کام چھوڑ کر میدان میں آجاتے ہیں سی پیک خطرے میں ہے فوج آ جائے گی ان وزراء سے سوال کیا جائے تو پتہ چلے گا ان میں سے شاید ایک دو کے علاوہ کوئی اب تک گوادر بھی نہیں گیا ہوگا سی پیک کے منصوبے سے بھی آگاہ نہیں ہوں گے ان لوگوں کے الزامات در الزامات کی روایت سے جمہوریت سے محبت کا درس نہیں مل رہا بلکہ عوام تیزی سے اس جمہوریت سے بیزار ہو رہے ہیں ۔یوتھ کنونشن پر لاٹھی چارج کے بعد ملک بھر میں ہونے والے احتجاج اور لال حویلی، بنی گالا میں کنٹینر کے ساتھ پولیس کی طرف سے گرفتاریوں سے لگتا ہے حکمران عمران خان کے بچھائے ہوئے جال میں خودبخود آ رہے ہیں۔ وزیر داخلہ، وزیرخزانہ، وزیراعلیٰ کی آرمی چیف کو بریفنگ کے بعد اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ حالات ٹھیک ہو جائیں گے واقفان حال کا کہنا ہے ایسا ہرگز نہیں ہر آنے والا دن نئی خبر کے ساتھ طلوع ہوگا 4نومبر تک آرمی چیف کا فیصلہ ہو جائے گا اور سیاسی دنگل کا بھی پولیس گردی کے بعد عوام کو آمر یاد آ رہے ہیں جن کے دور میں بلدیاتی نظام مضبوط تھا گلی محلے میں کام ہوتے تھے صفائی ہوتی تھی خدارا فوج سے ڈرانے کا سلسلہ بند کیا جائے ۔ وزیراعظم آگے بڑھیں اور اپنے آپ کو احتساب کے لئے پیش کردیں اور جمہوریت کا حسن دوبالا کر دیں فوج کو اپنا کام کریں، جمہوری اپنا کام کرے۔بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے قربانی دیں اور مذاکرات پر آئیں اور بے یقینی کی کیفیت ختم کریں۔