کیا اہلِ سیاست کو خبر اس کی نہیں ہے ۔۔۔؟
محفل پہ اثر کچھ نہ ہدایات کا ہوگا
چرچا یہاں پھر کوئے خرابات کا ہوگا
میں اس سے بچھڑتے ہوئے یہ سوچ رہا تھا
وہ وقت بھی کیا خوب ملاقات کا ہوگا
کی دل نے جو سرگوشی تو دانش نے کہا یہ
کیا مجھ پہ اثر تیری خرافات کا ہوگا
کیا اہلِ سیاست کو خبر اس کی نہیں ہے
شہروں پہ اثر کیسا فسادات کا ہوگا
میں جس سے سدا بچتا رہا ہوں سرِ محفل
دینا بھی جواب ایسے سوالات کا ہوگا
ہر آن جو دنیا کو دکھانے کے لئے ہیں
اب سوچیے کیا ایسی عبادات کا ہوگا
یہ اہلِ جہاں سوچ کے اب مجھ کو بتائیں
کیا خاتمہ فرسودہ رِوایات کا ہوگا
جو زخم مرے دل کو زمانے سے ملے ہیں
بھر جائیں تو کیا ان کے نشانات کا ہوگا
منظر تو سدا حق کے لئے لکھ تو رہا ہے
پر سوچ لے کیا تیری عبارات کا ہوگا
کلام :منظر اعظمی( بھارت )