برطانیہ میں مجرم پکڑنے میں دیر ہو جاتی ہے مگر غلط آدمی کو نہیں پکڑتے، جس نے جرم نہیں کیا اُسے بے خوف ہونا چاہیے،یہ ہمارے ملک میں نہیں ہو تا

 برطانیہ میں مجرم پکڑنے میں دیر ہو جاتی ہے مگر غلط آدمی کو نہیں پکڑتے، جس نے ...
 برطانیہ میں مجرم پکڑنے میں دیر ہو جاتی ہے مگر غلط آدمی کو نہیں پکڑتے، جس نے جرم نہیں کیا اُسے بے خوف ہونا چاہیے،یہ ہمارے ملک میں نہیں ہو تا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:جسٹس (ر) بشیر اے مجاہد 
 قسط:39
ایک خاتون نے اپنے سابقہ خاوند سے طلاق کے بعد سامان اور جہیز وغیرہ کی بازیابی کا مقدمہ کیا۔ مقدمہ ساہیوال کی عدالت میں تھا جبکہ اس کا خاوند اوکاڑہ کا رہنے والا تھا…… مقدمہ جیت گئے۔ حق مہر اور جہیز کا سامان ڈگری ہوا جس کے اجراء کے لیے غریب عورت 5 سال تک ساہیوال اور اوکاڑہ کے درمیان چکر کاٹتی رہی کہ کسی طرح سابقہ خاوند کی جائیداد قرق کروا کر نیلام کروائے مگر عرصہ دراز تک کامیاب نہ ہوئی۔ 
ہمارے ملک میں قانون کا نفاذ جس طرح ہونا چاہئے ہو نہیں رہا۔ اس کی وجہ ملک میں تعلیم کی کمی ہے۔ قانون نافذ کرنے کے ذمہ دار اداروں میں بھی نیم تعلیم یافتہ لوگ کام کرتے ہیں جو قانون کے نفاذ میں ریاست کی مدد کرنے کی بجائے اسے بدعنوانی کا ذریعہ بناتے ہیں۔ اس سلسلہ میں حکومت پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں میں اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کو رکھا جائے۔ انہیں دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے مطابق معیاری تنخواہ اور سہولتیں دی جائیں تاکہ رشوت کی لعنت سے آزاد ہوں۔ برطانیہ میں قیام کے دوران ہم نے دیکھا اور جو چاہے اب بھی جا کر دیکھ سکتا ہے کہ وہاں پولیس اہلکار پولیس آفیسر کہلاتا ہے۔ جبکہ پولیس کا سربراہ چیف کانسٹیبل کہلاتا ہے۔ اس کے دفتر پر بڑے موٹے الفاظ میں یہ لکھا ہوتا ہے۔ پولیس آفیسر کے پاس ایک معمولی چھڑی جسے سٹک بھی کہتے ہیں ہوتی ہے اور یہ لوگ بڑے بڑے مسلح ڈاکوؤں، غنڈوں اور قانون شکن افراد کے گروہوں کو گرفتار کر لیتے ہیں۔ برطانیہ میں پولیس کے بعض خصوصی اور اہم ڈیوٹی پر متعین پولیس افسروں کے پاس اسلحہ ہوتا ہے اور اُنہیں اس کے استعمال کے لئے مجاز اتھارٹی یعنی مجسٹریٹ سے اجازت لینا پڑتی ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ کوئی مسلح پولیس آفیسر کسی سویلین یا کسی بھی شخص کو قتل کر دے۔ ایسا برطانیہ میں عشروں سے نہیں ہوا۔ یہاں کی پولیس سراغ رسانی اور جاسوسی کے ذریعے مجرموں کو ڈھونڈ لیتی ہے اور پھر ان کے خلاف ثبوت اکٹھے کر کے انہیں عدالتوں میں پیش کرتی ہے۔ ہم پاکستانیوں کے سامنے لندن میں ایم کیو ایم کے ایک لیڈر کا قتل اور اس کے لئے پولیس کی کارروائی موجود ہے۔ ملزم انہوں نے تلاش کر لیے ہیں جو کہیں اور چھپے ہوئے ہیں۔
 اسی طرح ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین کے خلاف منی لانڈرنگ کا کیس ہے۔ وہ مکمل تحقیقات کرتے ہیں۔ خفیہ گواہوں اور پیش کئے جانے والے گواہوں کی بنیاد پر مقدمہ بناتے ہیں۔ اُنہیں مجرم کو پکڑنے میں دیر ہو جاتی ہے مگر وہ غلط آدمی کو نہیں پکڑتے۔ جس نے جرم نہیں کیا اُسے بے خوف ہونا چاہیے مگر جس نے جرم کیا ہے وہ تاخیر سے سہی قانون سے بچ نہیں سکتا۔ یہ سب کچھ ہمارے ملک میں کیوں نہیں ہو سکتا……؟ اس کے لئے ہمیں نہ صرف خود انصاف کے کٹہرے میں آنا ہو گا بلکہ زندگی میں قانون کا احترام کرنے اور بدعنوانی نہ کرنے کا عہد کرنا ہو گا۔ اس کے لیے ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت سب سے بڑا مینارۂ نور ہے۔ آپ ﷺنے اعلان نبوت سے قبل معززین مکہ کو مکہ کے پہاڑ کے دامن میں بلایا تھا۔ آپﷺ نے سب سے پوچھا تھا کہ سب لوگ اُن کی ذات گرامی کے بارے میں اپنی آراء کا اظہار کریں جس پر مکہ کے تمام بڑے اور چھوٹے سرداروں نے اعتراف کیا تھا کہ آپ ﷺصادق اور امین ہیں۔ آپ ﷺکا خاندان اور حسب نسب انتہائی محترم اور معزز ہے۔ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دُنیا کے سب سے بڑے اور سچے انسان ہیں۔ آپﷺ نے اسلام کی بنیاد ہی سچ اور صاف گوئی پر رکھی۔ اس لیے ہم مسلمانوں کے لیے سچ بولنا اور دیانت و امانت کو زندگی میں اختیار کرنا مشکل نہیں ہونا چاہیے۔ سچ بولنا اور امین ہونا مسلمان ہونے کی علامت ہے۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -