بجلی کے بلوں پر حکومت کی پریشانی اور عوامی ردعمل

بجلی کے بلوں پر حکومت کی پریشانی اور عوامی ردعمل
بجلی کے بلوں پر حکومت کی پریشانی اور عوامی ردعمل

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

  

حکومت اِس وقت بے شمار ایشوز میں پھنسی ہوئی ہے حکومت کے خلاف اپوزیشن اتحاد بھی متحرک ہے ملک کو اندرونی اور بیرونی محاذوں پر بھی سوچ و سمجھ کر اِس وقت چلنے کی ضرورت ہے، بجلی کے بلوں کا رد عمل بھی شدت اختیار کرتا جا رہا ہے اور عوام گھریلوسامان فروخت کر کے بجلی کا بل ادا کر رہے ہیں وزیراعظم نے بجلی کے بلوں میں کمی کی نوید تو سنا دی ہے، لیکن حالات جس طرف جا رہے ہیں ملک مشکل سے مشکل بھنور میں پھنستا جا رہا ہے سابقہ نگراں وفاقی وزیر اعجاز گوہر کیپسٹی ایشو کو لیکر چلے ہیں  پاکستان میں بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کے سبب بننے والے عناصر بے نقاب ہو گئے ہیں، جس میں حکومت بھی ملوث ہے المیہ یہ ہے کہ پاکستان میں پن بجلی گھروں کے منصوبوں پر کام نہیں کیا گیا اور بجلی پیدا کرنے والے منصوبوں کا تعلق بھی حکومتی طاقتور افراد سے ہے، جس کی حقیت بھی سامنے آ گئی ہے کہ کیپیسٹی جارجز کی مد میں جو بجلی کے منصوبے بند اور بجلی پیدا بھی نہیں کر رہے،ان کو کھربوں روپے اد ا کیے جا رہے ہیں اور بوجھ عوام پر ہے وزارت توانائی خاموش تھی، لیکن جب انکشافات سامنے آ ئے ہیں تو حکومت نے اعتراف کر لیا ہے  اس پر کمیٹی بنا دی گئی ہے،جماعت اسلامی کا احتجاج بھی بجلی کے بلوں میں کمی کے سلسلہ میں کوئی رنگ لیکر نہیں آیا، بات ہو رہی تھی بجلی کے بلوں کی تو یہ مسئلہ حکومت کو لے ڈوبے گا اگر کوئی بنگلہ دیش جیسی تحریک یہاں شروع ہو گئی تو اس کو روکنا مشکل ہو جائے گا ملک بھر سے تاجروں نے بھی اس پر شدید ردعمل ظاہر کیا ہے کہ کیپیسٹی چارجز کی مد میں عوام کو مشکلات میں رکھا جا رہا ہے اور حکومت کے اہلکار بجلی چوری میں براہ راست ملوث ہیں ایف بی آر میں  حکومتی افسروں نے اربوں روپے کی چوری کی ہے،جس پر وزیراعظم نے سخت رویہ اور اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی ہے پاکستان میں بجلی کا بحران حکومتوں کی نا اہلیوں کی وجہ سے پیدا ہوا ہے اور 23 بجلی  منصوبوں میں سے چند ایک چل رہے ہیں، بجلی کا جو یونٹ 10 روپے کا ہے ان بجلی منصوبوں کو جو چل بھی نہیں رہے،کیپسٹی چارجز کی مد میں عوام پر بوجھ سے زندگی مشکل ہو گئی ہے،حالا نکہ دہائیوں بعد پاکستان میں ڈیمز پہ کام کی شروعات ہوئیں اور کام تیزی سے جاری ہے، ان میں مہمند اور بھاشا ڈیم سرفہرست ہیں جن پر کام نہایت مستعدی سے جاری ہے حکومت ِ پاکستان ڈیمز کے اِن منصوبوں پہ خصوصی توجہ دے رہی ہے،جبکہ افواجِ پاکستان بھرپور سکیورٹی فراہم کر رہی ہے۔ ڈیمز کے معاملے میں ہم دنیا میں کہاں کھڑے ہیں؟دنیا میں اِس وقت چین سب سے زیادہ ڈیم رکھنے والا ملک ہے، جس کے کل بڑے ڈیمز کی تعداد لگ بھگ 23 ہزار 800 ہے اور تمام چھوٹے بڑے ڈیمز مشترکہ طور پر 87000 ڈیمز بنتے ہیں۔ امریکہ جس کے بڑے ڈیمز کی تعداد 9200 ہے اور لگ بھگ ہر ریاست میں 1800 ڈیمز ہیں، کل چھوٹے بڑے ڈیمز کی مجموعی تعداد 84000 سے زیادہ ہے۔ پڑوسی بھارت جس کے پاس اِس وقت بڑے ڈیمز کی تعداد 5200، جبکہ تمام چھوٹے بڑے ڈیمز کی مشترکہ تعداد 9000 تک بتائی جاتی ہے۔ جاپان  جس کے پاس 3000 سے زیادہ ڈیمز ہیں ان  میں سے کئی دنیا کے بڑے ڈیموں میں شمار ہوتے ہیں۔

 برازیل کے  پاس 1400 کے لگ بھگ ڈیمز ہیں، جبکہ کوریا کے پاس1350 اور کینیڈا کے پاس 1150 سے زیادہ ڈیمز ہیں جبکہ جنوبی افریقہ کے 1120 کے لگ بھگ ڈیمز ہیں۔اس کے بعد بالترتیب سپین، ترکی، فرانس، ایران، برطانیہ، آسٹریلیا، میکسیکو، اٹلی، جرمنی، ناروے، البانیہ، زمبابوے، رومانیہ، پرتگال، آسٹریا، تھائی لینڈ، سوڈان، سوئٹزرلینڈ، بلغاریہ، یونان اور پھر جا کر نمبر آتا ہے ہمارے دنیا کا سب سے بڑے نہری نظام رکھنے اور زراعت پہ منحصر پیارے پاکستان کے پاس غالباً چھوٹے بڑے مشترکہ ڈیمز کی تعداد 160، 165 ہے۔دنیا دھڑا دھڑ ڈیم بنا رہی ہے، کیونکہ ڈیمز ہی کسی بھی ملک کی نہ صرف معاشی، زرعی اور صنعتی ترقی کے ضامن ہیں،بلکہ انہیں بطورِ ترقی ہتھیار استعمال کیا جا رہا ہے اس لئے ہمارا دشمن ملک بھارت پاکستان کے خلاف ہزاروں ڈیم بنا چکا ہے اور پاکستان کو پانی کو ترسانا ہو یا ڈبونا ہو اپنے ڈیمز کو بطور ہتھیار استعمال کرتا ہے، جس میں پاکستان کو زرعی و معاشی نقصان کے ساتھ ساتھ بھاری جانی نقصان بھی اٹھانا پڑتا ہے۔

پاکستان میں دہائیوں پہلے جو ڈیمز بنے سو بنے،جن میں اکثریت کا سہرا ان آمروں کے سر جاتا ہے، جنہیں جمہوری قوتیں غاصب سمجھتی ہیں، ان غاصبوں کے بعد پاکستان دشمن قوتیں سیاست  میں اور ڈیمز کی تعمیر پاکستان کے لئے شجرِ ممنوعہ ٹھہری.بھارت خود ہزاروں ڈیمز بنا چکا، مگر ہر سال پاکستان میں ڈیموں کی تعمیر کو متنازعہ بنا کر روکتے رہتے ہیں ایک دوسری بڑی وجہ کریڈٹ گیم بھی تھی کہ اگر ڈیم شروع کیے تو کہیں اگلا اقتدار نہ ملا تو کوئی دوسرا اس کا کریڈٹ لے لے گا یہ منافقت بھی ہمارے سیاست دانوں میں عام ہے۔

پاکستان میں ڈیموں کی مزید 5 سے 10 سال میں تعمیر نہ ہوئی تو پاکستان پانی کی بوند بوند کو ترس اور ہماری زمینیں بنجر ہو جائیں گی اور بھارت پانی کے نام پہ ہمیں بلیک میل کرتا، آنے والے وقتوں کی جنگیں پانی پر ہوں گی، جس کے پاس پانی وہی سکندر ہو گا۔ بجلی اور پانی کا بحران سر پر ہے اور زمین سے پانی کی سطح مسلسل کم ہوتی جا رہی ہے، جس کے سبب پاکستانی عوام کے پاس چند سالوں کے بعد پینے کو پانی بھی نہیں ہو گا سیاسی جماعتوں کو اقتدار کی لڑائی چھوڑ کر ملک کی بقاء اور ترقی کے لئے سوچنا چاہئے کہ ملک ہو گا تو آپ حکومت کر سکیں گے پانی اور بجلی کے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کا عوامی مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے۔ لوگ بلوں کی وجہ سے خود کشیوں کرنے پر مجبور ہیں حکومت نا کام نظر  آ رہی ہے اور ایک دوسرے کی غلطیاں ایک دوسرے پر تھوپنے کا عمل بھی جاری ہے قوموں کی ترقی کے لئے عوامی آواز ہی مقدم ہوتی ہے ریاست کے کردار میں غیر ضروری اور غیر متعلقہ اداروں کو نکل جانا چاہئے اور عدلیہ کے فیصلوں کو نہ تو متنازعہ بنانا چاہئے، بلکہ عدلیہ اور دیگر اداروں میں ٹکراؤ کی جو پالیسی کا عمل شروع ہو گیا ہے عوام کی طاقت کے ذریعہ اسے بھی روکنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔خدا راہ قومی مسائل اور ملک کے استحکام پر توجہ دیں اس طرح کے لڑائی جھگڑے جاری رہے تو پھر!

مزید :

رائے -کالم -