کیا میڈیاپاکستان کو تباہ کر دے گا؟

  کیا میڈیاپاکستان کو تباہ کر دے گا؟
  کیا میڈیاپاکستان کو تباہ کر دے گا؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 پاکستان کے ایک بڑے اخبار کے مدیر کے متعلق روایت ہے کہ رپورٹر نے اغوا کی خبر دی تو انہوں نے اپنے اخبار کے لئے ہدایت نامہ جاری کیا کہ کسی اغوا ہونے والی لڑکی کا نام یا تصویر شائع نہیں کی جائے گی کیونکہ ایڈیٹر کی اپنی بیٹی بھی اغوا ہو سکتی ہے  مگر نمبرون بننے اور بریکنگ نیوز دینے کے جنون نے میڈیا کو ہر اخلاقی پابندی توڑنے پر مجبور کر دیا ہے اور پھر سوشل میڈیا آیا جس میں کسی کے خلاف کچھ بھی لکھا جا سکتا ہے۔ کردار کشی کے لئے ثبوت کی ضرورت یا مطالبہ قصہ پارینہ بن چکا ہے، زیادہ سے زیادہ لائیکس کی خواہش اور ضرورت کسی بھی اخلاقی، سماجی یا مذہبی ضابطے کی پرواہ کرنے کے لئے تیار نہیں  اور بدقسمتی یہ بھی ہے کہ یہ سب کچھ آزادی اظہار کے نام پر ہو رہا ہے۔ میڈیا کا آزادی اظہار کاحق درحقیقت آزادی اظہار سچ کا حق ہے  مگر اسے آزادی اظہار جھوٹ میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ امریکی پریس کمیشن میڈیا کی آزادی کے لئے ذمہ داری کو ناگزیر قرار دیتا ہے اور سفارش کرتا ہے کہ اگر میڈیا ذمہ دار نہیں ہو گا تو آزادی کھو بیٹھے گا اور اگر ذمہ داری بھاری نرخوں پر فروخت ہو رہی ہو تو پھر ذمہ داری پر کون توجہ دے گا اور ضمیر کی کون سنے گا؟ قانون کی کون پرواہ کرے گا؟ بتایا جاتا ہے کہ سوشل میڈیا سے لوگ کروڑوں کما رہے ہیں،گویا اب کسی غیر ملکی خفیہ ادارے کو کسی کو رشوت دینے کی ضرورت نہیں ہے، جن لوگوں کو ان کے ”حق محنت“ پر کروڑوں مل رہا ہو اور انتشار اور افراتفری اور بے یقینی پھیلانے پر مل رہا ہو، وہ لوگوں کے ہیرو ہوں تو پھر وہ اخلاقیات اور سچ کی پرواہ کرنے کی حماقت کیوں کریں؟


مغرب نے جمہوریت اور آزادی اظہار کے حق کے دلکش نعرے دیئے ہیں، ان کے ذریعے وہ بہت سے ملکوں میں انتشار اور خانہ جنگی پیدا کر چکا ہے۔ لیبیا کے عوام جمہوریت اور آزادی اظہار کے حق کے لئے اٹھے مگر زندگی کے تحفظ کا حق کھو بیٹھے،اب لیبیا میں دو حکومتیں ہیں۔ خانہ جنگی ہو رہی ہے، لوگ مر رہے ہیں اور بلاوجہ مر رہے ہیں۔ صدر معمر قذافی نے لیبیا کو جو ترقی دی تھی وہ تباہ ہو چکی ہے۔ لیبیا 25بلین ڈالر کے جس آبپاشی کے منصوبے پر فخر کرتا تھا وہ نیٹو کی بمباری اور خانہ جنگی سے تباہ ہو چکا ہے۔ امریکہ میں لیبیا کے 30بلین ڈالر سے زائد اثاثے تھے، وہ منجمد ہو چکے ہیں، اس طرح برطانیہ اور دوسرے یورپی ممالک میں لیبیا کے اربوں ڈالر پر قبضہ ہو چکا ہے۔ سوشل میڈیا نے جوعرب سپرنگ شروع کی تھی، جمہوریت اور آزادی اظہار کے نام پر شروع کی گئی اس خطرناک سازش کی تباہ کاریاں لیبیا میں ہی نہیں عراق، شام اور دوسرے عرب ممالک میں بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔
جمہوریت اور آزادی اظہار کے دلکش نظریات سے محبت کرنے والے اور اس کا پرچار کرنے والے دنیا میں ہر جگہ ملتے ہیں۔ یہ بہت اچھے نظریات ہیں اورانہوں نے مغرب کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے  مگر جمہوریت اور آزادی اظہار کا ذمہ داری کے بغیر کوئی مقصد نہیں  انہوں نے قوانین کی صورت میں اس نظام کو کنٹرول کرنے کے لئے بہت موثر بریک سسٹم بنایا ہے،آپ نے سنا ہو گا کہ پاکستان کے کچھ چینلز نے کچھ مواد برطانیہ میں نشر کیا تھا تو انہیں مقدمات کا سامنا کرنا پڑا اور بھاری جرمانے دینے پڑے  مگر پاکستان میں میڈیا آزاد ہے، بلکہ میڈیا کا کوئی بریک سسٹم نہیں ہے  بعض اوقات تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بندر کے ہاتھ میں اْسترا آ گیا ہے اور وہ بلاخوف و خطر سب کے گلے کاٹ رہا ہے۔


پاکستان میں عقل اور ذمہ داری کی بات کرنا پسند نہیں کیا جاتا۔ حسب توفیق ہر پارٹی ورکر الزامات کی بارش کر دیتا ہے  مگر کیا یہ غیر ذمہ داری پاکستان کو تباہ نہیں کر دے گی؟ امریکہ میں 24گھنٹے چینل نشریات کا آغاز ہوا تو صدر بش سینئر نے کہا کہ ایک عفریت نے جنم لیا ہے جو ہر وقت خبر مانگے گا اور خبر نہیں ملے گی تو سب کچھ کھا جائے گا۔ امریکہ اور یورپ میں اس عفریت کو قوانین اور ضابطوں کے ذریعے بڑی حدتک کنٹرول کر لیا گیا ہے  مگر ہمارے ہاں ایسا نہیں ہے ، میڈیا کے اظہار جھوٹ کی آزادی کے لئے زبردست عالمی پریشر ہوتا ہے اور حکومت اس کے سامنے بے بس ہے۔ یہ عالمی دباؤ ہی تھا کہ جنرل پرویزمشرف نے پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا قائم کرنے کی آزادی دی۔ کہا جاتا ہے کہ پرویز مشرف نے الیکٹرانک میڈیا کی صورت میں ایک ایسا عفریت تخلیق کیا تھا جو خود اپنے خالق یعنی پرویزمشرف کو ہی کھا گیا۔ اب یہ بدمست سوشل میڈیا پاکستان کو ہی کھا رہا ہے۔


میڈیا کی غیر ذمہ دارانہ دہشت گردی کا تازہ شکار اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور ہے، یونیورسٹی میں جانے والی لڑکیاں قوم کی بیٹیاں ہیں،ان کے ساتھ کوئی بھی زیادتی قابل مذمت ہے اور جنسی ہراسگی کرنے والے درندوں کو عبرت کی مثال بنانا قوم کا فرض ہے۔ پاکستان میں کوئی ایسا تھانہ نہیں ہے جس میں اغوا اور جنسی زیادتی کے مقدمات درج نہ ہوں اور شاید ہر شہر اور گاؤں میں ایسے جرم ہوتے رہتے ہیں جو انتہائی افسوسناک ہیں اور ان کے خلاف قانون کو تقاضے پورے کرنے چاہئیں۔ پاکستان کی ہر یونیورسٹی میں ایسے واقعات پیش آتے رہتے ہیں ، امریکی اور برطانوی یونیورسٹیوں میں جنسی ہراسگی کے ایسے ایسے واقعات رپورٹ ہوتے ہیں کہ ہاتھ کانوں کو لگانے پڑتے ہیں۔
اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے متعلق کہا گیا کہ اس میں ایک صاحب کے موبائل فون سے پانچ ہزار سے زائد اقابل اعتراض ویڈیوز ملی ہیں، بعد میں ان کی تعداد سات ہزار سے زائد کر دی گئی، میڈیا نے اس موبائل کے ماڈل کے متعلق بھی نہیں بتایا جس میں سات ہزار سے زائد ویڈیوزریکارڈ کر نے کی سٹوریج موجود ہے۔ 


اسلامیہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر اطہرمحبوب اسے یونیورسٹی کے خلاف بڑی سازش قرار دے رہے ہیں، وہ اکادکا واقعات سے انکار نہیں کرتے مگر جس بڑے پیمانے پر ویڈیوز اور جنسی ہراسگی کے واقعات کا پرچار کیا جا رہا ہے اس سے انکار کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے اس یونیورسٹی کو دنیا کی آٹھ سو بہترین یونیورسٹیوں میں شامل کرایا، اس کے ریسرچر اور سائنسدان عالمی سطح پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہے ہیں اور طلباوطالبات کی تعداد ساٹھ ہزار سے زائد ہو چکی ہے۔ ڈاکٹر اطہر محبوب کی پریس کانفرنس پر توجہ دی جائے تو ایک بڑی سازش سامنے آتی ہے جس میں سوشل میڈیا اور میڈیا کو استعمال کیا گیا ہے اور اس سازش سے برصغیر کی یہ قدیم اور معتبر یونیورسٹی بدنام ہو گئی ہے۔ اگلے چند سالوں بعد یہاں سے تعلیم حاصل کرنے والی ہر طالبہ کے والدین یہ چھپانے کی کوشش کریں گے کہ بچی نے اسلامیہ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی ہے۔ پاکستان کی یونیورسٹیوں کے خلاف یہ ایک پہلی بڑی سازش ہے  اگر یہاں انصاف نہ ہوا تو پھر یہ سلسلہ دوسری یونیورسٹیوں تک پھیل جائے گا اور تعلیم کتنی اہم ہے اس سلسلے میں، میں آج کا کالم مائیکل ایڈورڈ کے اس تجزیئے پر ختم کرتا ہوں جس نے کہا تھا کہ برصغیر میں انگریزی اقتدار کے خاتمے کا سب سے بڑا مجرم لارڈ میکالے ہے جس نے یہاں نظام تعلیم قائم کیا، اس نے غلط طور پر کہا تھا کہ انگریزی کی تعلیم سے ہم یہاں کالے انگریز پیدا کریں گے جو برطانوی اقتدار کو استحکام بخشیں گے  مگر وہ یہ نہ سمجھ سکا کہ جب آپ کسی کو پڑھنا سکھاتے ہیں تو اس پر پابندی نہیں لگا سکتے کہ وہ کیا پڑھے گا اور کیا سوچے گا؟ انگریزوں کو ہندوستان باغیوں کی وجہ سے نہیں بلکہ ان تعلیم یافتہ لوگوں کی وجہ سے چھوڑنا پڑ ا  جنہوں نے لارڈ میکالے کے نظام تعلیم کے تحت قائم ہونے والی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کی تھی۔ پاکستان میں آزادی اظہار ہونی چاہیے۔ اس پر پابندی کسی صورت میں قابل قبول نہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ آزادی اظہار کے غلط استعمال کو روکنے کے لئے صحافیوں اور دانشوروں کو آگے آنا چاہیے۔ کیونکہ مہذب معاشرے سچ بولنے کی اجازت دیتے ہیں۔ جھوٹ کی تجارت ان میں سنگین جرم ہوتا ہے۔

مزید :

رائے -کالم -