انتظامیہ اور عدلیہ کے درمیان جھگڑا قیام پاکستان کے آغاز سے چل رہا ہے، ترتیب بدل دی گئی کہ بنیادی جمہوریتوں کے ارکان صدر کو منتخب کریں
مصنف:جسٹس (ر) بشیر اے مجاہد
قسط:70
عدلیہ اور انتظامیہ کی کش مکش
پاکستان میں انتظامیہ اور عدلیہ کے درمیان تنازعہ یا جھگڑا قیام پاکستان کے آغاز سے چل رہا ہے۔ شروع سے ہی جوڈیشری نے پاکستان کی ہمہ جہت ترقی میں بھرپور حصہ لیا۔ مگر عوام الناس میں یہ تاثر بڑا طاقتور رہا ہے کہ عدلیہ کا زیادہ تر جھکاؤ حکومت یا فوجی کمانڈ کی طرف رہا ہے۔
اکتوبر 1954ء میں آئین ساز اسمبلی نے ایک آئینی ترمیم منظور کی جس کی رو سے اُس وقت کے گورنر جنرل ملک غلام محمد کے اختیارات ختم ہو گئے۔ یہ وہ اختیارات تھے جن کو استعمال کر کے گورنر جنرل ملک غلام محمد نے وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کی حکومت کو برطرف کر دیا تھا۔ جس پر ملک غلام محمد نے آئین ساز اسمبلی کو ہی برخاست کر دیا۔ جس کے خلاف آئین ساز اسمبلی کے سپیکر مولوی تمیز الدین نے سندھ ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کر دی۔ سندھ ہائی کورٹ نے مولوی تمیز الدین کے مؤقف سے اتفاق کرتے ہوئے اُن کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ حکومت نے فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ یا فیڈرل کورٹ میں اپیل کی جس پر عدالت نے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلہ پر عمل درآمد روک دیا۔ اس وقت فیڈرل کورٹ کے چیف جسٹس مسٹر جسٹس محمد منیر تھے، انہوں نے اجلاس میں باقاعدہ سماعت کے بعد سندھ ہائی کورٹ کے فیصلہ کو کالعدم قرار دے دیا اور گورنر جنرل کا حکم بحال کر دیا۔ جس کے بعد نئی آئین ساز اسمبلی نے 1956ء میں چودھری محمد علی وزیراعظم پاکستان کی قیادت میں آئین تشکیل دیا جس کے تحت گورنر جنرل (جو سکندر مرزا تھے) کو صدر جمہوریہ پاکستان بنا دیا گیا۔
1958ء میں صدر سکندر مرزا اور اس وقت کے فوجی سربراہ جنرل محمد ایوب خان نے باہمی اتفاق سے 1956ء کا آئین منسوخ کر دیا۔ تمام اسمبلیاں تحلیل کر دی گئیں جب کہ ملک میں عام انتخابات ہونے والے تھے۔سیاسی پارٹیاں اس کے لئے مکمل تیاری کر چکی تھیں۔ ملک بھر میں ایک سیاسی ماحول بنا ہوا تھا۔ مگر جنرل سکندر مرزا اور فوجی سربراہ ایوب خان کا خیال تھا کہ ملک میں امن و امان کو تباہ کر کے زبردست سیاسی محاذ آرائی پیدا کر دی گئی ہے جس کی وجہ سے ملک کی سالمیت کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔ سیاسی محاذ آرائی اس قدر شدید ہو گئی ہے کہ اس کی موجودگی میں ملک میں نئے انتخابات مزید انتشار کا باعث ہوں گے جس کو یہ نوزائیدہ ملک برداشت نہیں کر سکتا۔ چنانچہ صدر سکندر مرزا نے کمانڈر انچیف ایوب خان کے ساتھ مل کر ملک میں مارشل لاء نافذ کرنے کا اعلان کر دیا۔ ایسے موقع پر جبکہ ملک میں عام انتخابات ہونے والے تھے آئین اور اسمبلیوں کو منسوخ کر دینا کوئی قابل تحسین معاملہ نہ تھا۔
یہ ایک کھلم کھلا غیر آئینی اور غیر قانونی اقدام تھا مگر ملک کی فیڈرل کورٹ (جسے بعد میں سپریم کورٹ قرار دے دیا گیا) کے چیف جسٹس مسٹر جسٹس محمد منیر نے ایک دفعہ پھر بھرپور کردار ادا کیا۔ مارشل لاء کے خلاف دائر کی جانے والی پٹیشن کے جواب میں نظریہئ ضرورت کو آئین اور قانون سے بالاتر قرار دیتے ہوئے امن عامہ بحال رکھنے کے لئے مارشل لاء کو جائز قرار دے دیا۔ یہ مارشل لاء 1962ء تک جاری رہا تاوقتیکہ ایوب خان نے اپنی مرضی سے ملک میں صدارتی طرز حکومت اختیار کرنے کے لئے ایک نیا آئین نافذ کرنے کا فیصلہ کر لیا اور ملک میں براہ راست ایک آدمی ایک ووٹ کی بجائے بالواسطہ طریق انتخاب نافذ کر دیا۔ اس نظام کے تحت پہلے بلدیاتی طرز پر بنیادی جمہوری نمائندے منتخب ہونے تھے۔ مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان میں چالیس چالیس ہزار بنیادی جمہوریتوں کے نمائندے منتخب ہونے تھے اور بعد میں ان ہی 80 ہزار افراد کو انتخابی کالج قرار دے کر انہیں ہی صوبائی اسمبلیاں اور پھر قومی اسمبلی کے ارکان کو منتخب کرنے کا اہل قرار دے دیا گیا اور یہی انتخابی کالج ملک کے صدر کو منتخب کرنے کا اہل بھی قرار پایا۔ پہلی دفعہ یہ انتخابات ہونے سے قبل صدر مملکت ایوب خان کو محسوس ہوا کہ اسمبلیوں کے انتخابات کے بعد یہ انتخابی کالج آزاد ہوکر صدر کے انتخاب میں اپنی مرضی استعمال کرسکتاہے۔ اس لئے آئین میں ترمیم کر کے ترتیب بدل دی گئی کہ پہلے بنیادی جمہوریتوں کے ارکان صدر کو منتخب کریں۔ اور اس کے بعد صدر کے نامزد کردہ ارکان اسمبلی کو منتخب کیا جائے اور اس پر عمل بھی ہوا۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔