فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر309

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر309
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر309

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اس سلسلے میں کوئی باقاعدہ ریکارڈ تو موجود نہیں ہے کیونکہ مشرقی پاکستان کے معاملے میں بے تعلقی کے باعث وہاں کی صنعت فلم سازی کے بارے میں بھی یہاں کسی نے معلومات حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ جہاں تک ہمیں یاد پڑتا ہے ڈھاکہ میں بنائی جانے والی پہلی بنگالی زبان کی فلم ’’مکُھومکُوش‘‘ تھی۔ یہ فلم 1958ء میں بنائی گئی تھی۔ اس کے فلم ساز اور ہدایت کار قاضی ظہیر تھے جنہیں ڈھاکہ کی فلمی صنعت کا بانی کہا جا سکتا ہے۔ قاضی ظہیر بعد میں بھی فلمیں بناتے رہے تھے اور انہوں نے اردو فلمیں بھی بنائی تھیں۔ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ مہذّب اور شائستہ آدمی تھے۔ ڈھاکہ کی صنعت میں ان کا حد درجہ احترام کیا جاتا تھا۔ یہ فلم کامیاب ہوئی تو دوسروں کوبھی حوصلہ پڑا۔ دوسری بنگلہ فلم ’’آکاش ارمتی‘‘ 1959ء میں بنائی گئی۔ اسی سال ایک اور بنگلہ فلم ’’ماتر پہاڑ‘‘ بھی بنی۔ ان سب فلموں میں منافع حاصل ہوا تو دوسرے حضرات بھی فلم سازی کے میدان میں کود پڑے۔

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر308 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
احتشام نے اپنی پہلی فلم ’’اے دیش تُمہارا مار‘‘ (یہ ملک میرا اور تمہارا ہے) بنائی جو کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔ احتشام فلم سازی کی مزید تربیت لینے کے لئے مغربی پاکستان میں بھی آ کر رہے اور ممتاز فلم سازوں اور ہدایت کاروں کے ساتھ ملتے رہے۔ یہُ اس زمانے میں کیپٹن رحمان کے نام سے جانے جاتے تھے۔ انہوں نے فلم سازی اور ہدایت کاری میں بہت نام پیدا کیا۔ اداکار ندیم کو ہیرو اور بعد میں اپنا داماد بنانے والے بھی یہی حضرت ہیں۔
ندیم کو گلوکاری کا شوق تھا۔ وہ کراچی میں رہتے تھے اور نذیر بیگ کے نام سے جانے جاتے تھے۔گلوکاری ان کا خواب تھا ۔ احتشام صاحب نے فلم ’’چکوری‘‘ کے ہیرو ’’اعظم‘‘ کی کسی حرکت سے ناراض ہو کر ان کی جگہ نذیر بیگ کو فلم کا ہیرو منتخب کر لیا اور انہیں ندیم کے نام سے متعارف کرایا۔ ایک لحاظ سے یہ لَوّ میرج تھی۔ احتشام کے چھوٹے بھائی مستفیض نے بھی کئی کامیاب فلمیں بنائیں اور ہدایت کاری بھی کی۔ ہم جانتے ہیں کہ ندیم کو جب گلوکاری سے اداکاری کی جانب آنا پڑا تو یہ کتنا مشکل کام تھا ان کے لئے۔وہ اداکار نہیں بننا چاہتے تھے۔لیکن احتشام صاحب نے انہیں قائل کرلیا ۔ڈھاکہ کی صنعت فلم سازی کے لئے ان دونوں بھائیوں کی خدمات قابل ذکر ہیں۔ مستفیض نے بھی بنگلہ‘ اردو دونوں زبانوں میں فلمیں بنائیں۔ بنگالی فلمیں بہت کم سرمائے سے بنائی جاتی تھیں۔
کامیابی سے حوصلہ پا کر فلم سازوں نے بہتر پروڈکشن کی طرف توّجہ دی اور اس مقصد کے لئے لاہور کا رخ کیا۔ لاہور میں بنگالی فلموں کے گانوں کی ریکارڈنگ ہوا کرتی تھی‘ بعد میں اردو فلم سازوں نے بھی یہی طریقہ اپنایا اور کافی عرصے تک گانوں کی صدا بندی اور فلموں کی پرنٹنگ لاہور میں ہوتی رہی۔ رفتہ رفتہ ڈھاکہ سٹوڈیو کے قیام کے بعد وہاں دوسری سہولتیں بھی فراہم ہوگئیں۔ گلوکار‘ موسیقار‘ سازندے‘ ساؤنڈ ریکارڈسٹ‘ ایڈیٹر سبھی کچھ وہاں دستیاب ہونے لگا تو ڈھاکہ کے فلم سازوں نے مغربی پاکستان کا رخ کرنا چھوڑ دیا اور فلم سازی کے معاملات میں خودکفیل ہوگئے۔
ڈھاکہ میں ابتدائی زمانے میں بنائی جانے والی بنگالی فلموں میں ’’راجو بائی بوکے‘‘ اور ’’گھگُھو رُوشنی‘‘ بھی قابل ذکر ہیں۔
جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے مشرقی پاکستان میں بنائی جانے والی سب سے پہلی فلم ’’مکُھو مکُوش‘‘ تھی۔ اس کا مطلب ہے ’’مصنوعی چہرہ‘‘ اس کے فلم ساز عبدالجبار خان تھے۔ جبار صاحب بھی بڑے مہم جو انسان تھے۔ انہوں نے صرف ایک ٹیپ ریکارڈر کی مدد سے یہ فلم تیار کی تھی۔ اس میں تکنیکی خامیوں کی کمی نہیں تھی مگر اس کے باوجود مشرقی پاکستان کے لوگوں نے اپنی سرزمین پر بنائی جانے والی پہلی بنگالی فلم کا پُرجوش خیر مقدم کیا جس سے دوسرے لوگ بھی فلم سازی کی طرف مائل ہوگئے۔ کچھ عرصے بعد مشرقی پاکستان میں ایف ڈی سی فلم ڈویلپمنٹ کارپوریشن کا قیام عمل میں آیا۔ اس کے زیر اہتمام فلم سازی کے بنیادی لوازمات فراہم کر دئیے گئے اور فلم سازوں کو سرمایہ فراہم کرنے کا طریقہ بھی رائج کیا گیا جو آج بھی موجود ہے۔ اس زمانے میں ایک بلیک اینڈ وائٹ فلم بنانے کے لئے فلم ساز کو 75 ہزار روپے نقد قرضے کے طور پر دئیے جاتے تھے۔ سٹوڈیو کی سہولتیں اور خام فلم بھی ایف ڈی سی فراہم کرتی تھی۔ فلم کا نیگیٹو ایف ڈی سی کی تحویل میں رہتا تھا جس کی بنا پر فلم سازکو دیا ہوا سرمایہ محفوظ ہو جاتا تھا۔ فلم کی ریلیز کے موقع پر دو فیصد سُود وصول کرنے کے بعد فلم کے پرنٹ فلم ساز کے حوالے کر دئیے جاتے تھے۔ یہ کارپوریشن فلم تقسیم کاروں اور فلم سازوں کے مابین معاہدے اور شرائط کی بھی نگرانی کرتی تھی اور یہ بھی نگرانی کرتی تھی کہ سینما گھروں کے مالک کرایوں میں بے جا اور غیر ضروری اضافہ نہ کر سکیں۔


یہ انتہائی مفید اور فلمی صنعت کے لئے بے حد سازگار صورت حال تھی جس پر آج بھی عمل کیا جاتا ہے۔ ان دنوں ایک بلیک اینڈ وائٹ فلم پر سوا لاکھ سے ڈیڑھ لاکھ روپے تک لاگت آتی تھی۔ اس لئے فلم ساز کو فراہم کئے جانے والا سرمایہ بہت معقول تھا۔ آگے چل کر فلموں کی لاگت میں اضافہ ہو گیا اور رنگین فلمیں بھی بننی شروع ہو گئیں چنانچہ قرضے کی رقم میں بھی اسی مناسبت سے اضافہ کر دیا گیا۔

لائیو ٹی وی پروگرامز، اپنی پسند کے ٹی وی چینل کی نشریات ابھی لائیو دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
ہمیں 1987ء میں بھی بنگلہ دیش جانے کا ملا۔ پرانے دوستوں سے ملاقاتیں ہوئیں اور عطاء الرحمن خان نے ہمیں ایف ڈی سی کے سٹوڈیو کی بھی سیر کرائی(اب وہ مرحوم ہو چکے ہیں)۔ اس وقت یہ کئی منزلہ خوبصورت عمارت میں تبدیل ہو چکی تھی۔ سٹوڈیو میں جدید ترین سہولتیں، ایڈیٹنگ کا جدید ترین ساز و سامان اور رنگین کمپیوٹر کے ذریعے استعمال کی جانے والی لیبارٹری بھی موجود تھی۔ پاکستان کے فلم ساز آج بھی ان سہولتوں سے محروم ہیں۔ بتایاگیا ہے کہ اس وقت ایک رنگین فلم بارہ سے پندرہ لاکھ ٹکے میں بن جاتی تھی۔ ایک ٹکا ان دنوں آٹھ آنے کے برابر تھا۔ فلم ساز کو پانچ لاکھ ٹکہ نقد قرضہ دیا جاتا تھا۔ دوسری تمام سہولتیں اور مراعات حسب سابق تھیں۔ بلیک اینڈ وائٹ فلم کے لئے دو لاکھ ٹکا قرضہ دیا جاتا تھا۔ ان فلموں پر سات آٹھ لاکھ ٹکا لاگت آتی تھی۔ اس لئے یہ معقول رقم تھی۔ ایف ڈی سی کے ایم ڈی ایک ریٹائرڈ کرنل تھے۔ یہ دراز قد اور خوبرو آدمی تھے۔ فوج کی تعلیم انہوں نے کاکول اکیڈمی سے حاصل کی تھی اس لئے بہت اچھی اردو بولتے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ فلم کارپوریشن کی وجہ سے فلمی صنعت کو بھی فائدہ ہے اور حکومت کو بھی۔ آغاز میں یہ کارپوریشن دو لاکھ روپے کی لاگت سے قائم کی گئی تھی۔ 1987ء میں اس کے اثاثے 25کروڑ سے بھی زائد تھے اور یہ منافع میں چل رہی تھی۔ کارپوریشن فلم سازوں‘ تقسیم کاروں اور سینما والوں کے باہمی تنازعات اور مسائل حل کرنے میں بھی مدد دیتی تھی۔ سینما والوں کو اجازت کے بغیر کرایوں میں اضافہ کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ اسی طرح تقسیم کاروں کو بھی فلم سازوں کی حق تلفی اور لوٹ کھسوٹ کا حق نہیں تھا۔ ہماری موجودگی میں بھی سینما گھروں کے کرایوں میں مجوزہ اضافے کے مسئلے پر ایک میٹنگ منعقد ہوئی تھی۔ جس میں فلم ساز‘ تقسیم کار اور سینما والوں کی انجمنوں کے نمائندے شامل تھے۔ تینوں وفود نے اپنے اپنے مسائل پیش کئے اور دلائل دئیے۔ کارپوریشن کے منیجنگ ڈائریکٹر اس میٹنگ کی صدارت کر رہے تھے۔ تینوں فریقوں کی بات سننے کے بعد انہوں نے جو فیصلہ کیا اس کی پابندی تینوں فریقوں کے لئے لازمی تھی۔ وجہ یہ تھی کہ فلم کارپوریشن کو نظر انداز یا ناراض کرنے کے بعد وہاں کوئی شخص فلمی کاروبار نہیں چلا سکتا تھا۔
یہ سسٹم ہمیں بہت پسند آیا۔ پاکستان واپس آ کر ہم نے اس زمانے میں نیف ڈیک کے ایم ڈی آغا ناصر صاحب کو رپورٹ دی اور کہا کہ نیف ڈیک کو بھی ان ہی خطوط پر عمل پیرا ہونا چاہیے۔ اس وقت کے وزیر اطلاعات و ثقافت سے بھی ہم نے اس مسئلے پر بات چیت کی۔ یہاں تک کہ تحریری طور پر ایک رپورٹ بنا کر صدر ضیاء الحق کو بھی ارسال کر دی جس میں کہا گیا تھا کہ حکومت ان اصولوں کو اپنا لے جن کی داغ بیل پاکستانی حکومت نے ہی ڈالی تھی اور منصوبے کے تحت اس قسم کی کارپوریشنیں بیک وقت مشرقی اور مغربی پاکستان میں قائم کی ۔ مگر مشرقی پاکستان والوں نے اس پر عمل شروع کر دیا جب کہ مغربی پاکستانی کی فلم صنعت اس سے محروم ہی رہی اور آج تک محروم ہے۔ ہماری اس تگ و دو کا حسب توقع کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا اور نیف ڈیک ان ہی بے ڈھنگے خطوط پر چلتی رہی جن سے کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا تھا۔ (جاری ہے )

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر310 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں