درندوں کے شکاری کی سرگزشت...قسط نمبر 35
قبائلی میرے اور آسٹن کے گرد اس طرح گھیر ڈالے کھڑے تھے،گویا ہم کوئی آسمانی مخلوق ہیں۔اگرچہ میں ان کی زبان سمجھنے سے قاصر تھا لیکن آسٹن مترجم کی سہولت فراہم کررہا تھا۔شکار کا وہ بھی جنون کی حد تک رسیا تھا۔البتہ ابھی تک اس نے کسی شیر کا شکار نہیں کیا تھا۔
میں کیپ ٹاؤن میں مقیم تھا تو آسٹن نے ہمسایہ ہونے کے ناتے وہاں جاتے ہی مجھ سے مراسم قائم کرلیے اور پھر یہ مراسم اس حد تک بڑھ گئے کہ اکثر وہ میرے ہی پاس رہتا۔دنیا میں وہ تنہا تھا اور ایک مقامی کالج میں پروفیسر کے عہدے پر فائز رہ کر ہنسی خوشی زندگی گزار رہا تھا۔ جب اسے معلوم ہوا کہ میں ایک اچھا شکاری ہوں اور آدم خوروں تک کا شکار کرچکا ہوں تو وہ میرے بہت قریب آگیا۔میں بھی اس کی قدر کرنے لگا۔چنانچہ اس کی خواہش مجھے جنوبی افریقہ کے ایک جنگل تک کھینچ لائی تھی۔
درندوں کے شکاری کی سرگزشت...قسط نمبر 34 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
جن قبائلیوں کا میں نے ذکر کیا، ان کے چہروں پر مسرت کے ساتھ دہشت کے آثار بھی نمایاں تھے۔ بات دراصل یہ تھی کہ کئی ماہ سے ایک آم خور ان کے گاؤں پر حملے کررہا تھا اور تقریباً بائیس آدمیوں کو لقمہ اجل بنا چکا تھا۔ اس خطرناک آدم خور سے تنگ آکر گاؤں کے لوگ یہاں سے ہجرت کررہے تھے۔
آدم خور بہت ہی خطرناک اور بے خوف ہو چکا تھا۔ وہ دن دہاڑے گاؤں پر حملہ کرکے اپنا شکار لے جاتا تھا۔جب ہم نے گاؤں کے لوگوں کو بتایا کہ اب آپ اس موذی جانور سے ظلم سے ہمیشہ کے لیے نجات حاصل کرلیں گے تو ان کے پژمردہ چہروں پر خوشی کی سرخی آگئی۔
میں نے آسٹن سے کہا کہ وہ انہیں بتا دے اس موذی جانور کو ختم کرنے کے لیے کچھ مقامی لوگوں کا ہمارے ساتھ جانا ضروری ہے لیکن ان میں سے کوئی بھی ہمارا ساتھ دینے کو تیار نہ ہوا۔لہٰذا ہم دونوں بدرقے کے بغیر ہی اس مہم پر روانہ ہو گئے۔
قبائلیوں کی زبانی ہمیں یہ بات معلوم ہو چکی تھی کہ ندی کے کنارے جنگل کا ایک خاص حصہ اس آدم خور کی آماجگاہ ہے۔آسٹن جنگل کے اس حصے سے تھوڑا بہت آشنا تھا، اس لیے وہاں پہنچنے میں ہمیں زیادہ پریشانی نہ اٹھانی پڑی۔یہ جھاڑوں سے ڈھکا ہوا ایک تنگ و تاریک میدان تھا اور اس سے ذرا آگے ایک ندی موجیں ماررہی تھی۔
اس جگہ کا مکمل طور پر جائزہ لینے کے بعد ہم واپس گاؤں کی طرف چل دیے۔میں نے آسٹن سے کہہ دیا تھا کہ آج ہم صرف وہ جگہ دیکھیں گے جہاں شیر کے پائے جانے کا امکان ہے۔شکار کا باقاعدہ پروگرام کل سے شروع کریں گے۔
جب ہم اس میدان سے کافی دور نکل آئے تو اچانک میری نظر بائیں جانب ایک سر سبز قطعے پر پڑی جہاں امپالا اور زیبرے بڑے انہماک سے چر رہے تھے۔ ہم ان کے قریب سے گزرے تو وہ چھلانگیں لگتے ہوئے بھاگے اور جنگل میں گم ہو گئے۔
امپالا، افریقہ میں ایک خوبصورت قسم کا ہرن ہوتا ہے۔وہاں کے لوگ بڑے شوق سے اس کا شکار کرتے ہیں۔یہ جانور بہت ہی ڈرپوک ہے،ذرا سا خطرہ محسوس ہوتے ہی گولی کی سی تیزی سے بھاگ جانا جاتا ہے۔اس کی چھلانگیں بہت اونچی اور لمبی ہوتی ہیں اور کچھ ایسی خوبصورتی لیے ہوئے کہ اکثر شکاری محو حیرت رہ جاتے ہیں اور وہ فرار ہونے میں کامیاب ہوتا ہے۔جب وہ چھلانگ لگاتا ہے تو گویا ہوا میں لہراتا، ڈولتا جاتا ہے۔
جب یہ جانور نظروں سے اوجھل ہو گئے تو میں نے آسٹن سے کہا:
’’دیکھو آسٹن کتنے خوبصورت ہیں یہ ہرن!جی چاہتا ہے،ان کا شکار کریں۔‘‘
آسٹن نے مجھے احساس دلایا:
’’اس وقت ہم انتہائی خطرناک علاقے میں ہیں۔عین مکن ہے آدم خور کہیں آس پاس چھپا ہوا ہو۔‘‘ اور اس کی یہ بات حیرت انگیز طور پر سچ ثابت ہوئی۔
ہمارے دائیں جانب کوئی پچاس گز کے فاصلے پر جھاڑیوں میں خفیف سی جنبش ہوئی اور ساتھ ہی ایک مہیب گرج نے جنگل کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ ہمارے رگ و پے میں سنسنی سی دوڑ گئی۔
’’آدم خور شیر،مسٹر مہدی۔‘‘آسٹن نے لرزتی ہوئی آواز میں کہا۔
آدم خور نے ہمیں دیکھ لیا تھا اور بڑے مطمئن انداز میں خراماں خراماں ہماری طرف بڑھ رہا تھا۔ہمارے پاس برمنگھم رائفلیں تھیں۔آسٹن نے جلدی سے ایک درخت کی آڑ لیتے ہوئے آدم خور پر فائر کر دیا۔اس کی یہ حرکت شکار کے آداب اور میرے منشا دونوں کے خلاف تھی لیکن اب کیا ہو سکتا تھا۔ آدم خور دہاڑا اور ایک طرف کو بھاگ گیا۔ میں نے دیکھا، بھاگتے ہوئے وہ لنگڑا رہا تھا۔ گولی شاید اس کے پاؤں پر لگی تھی۔
میں نے ناپسندیدگی کا اظہار رتے ہوئے کہا:
’’مسٹر آسٹن،آپ نے ایک اچھا موقع ضائع کر دیا۔اگر آپ عجلت سے کام نہ لیتے تو یہ شیر بچ کر نہ جاتا اور ہم آنے والی مشکلات سے بچ جاتے، بہرحال آئندہ محتاط رہیں۔‘‘
آسٹن نے اپنی غلطی کا اعتراف کیا اور ہم آگے روانہ ہو گئے۔
سورج آہستہ آہستہ مغرب میں غروب ہو رہا تھا لیکن جنگل ختم ہونے کا نام ہی نہ لیتا تھا۔ ہمیں احساس ہوا کہ ہم راستہ بھول گئے ہیں۔میں بالکل نا آشنا تھا لیکن آسٹن جو اس سے قبل دو بار اس جنگل میں آچکا تھا، خود کو بالکل اجنبی محسوس نہ کررہا تھا۔ جیسے جیسے شام گہری ہوتی جارہی تھی، کیڑے مکوڑے اور جنگلی جانور بیدار ہوتے جارہے تھے۔
ناگاہ آسٹن چیخا:
’’مہدی بچو،سانپ۔۔۔‘‘
میں اچھا اور ایک سیاہ ناگ لہراتا سیدھا نکل گیا۔ اس کے بعد بھی کئی حادثات سے دو چار ہوئے لیکن بالآخر ہم دو گھنٹے آوارہ پھرنے کے بعد گاؤں پہنچ گئے لیکن یہ وہ گاؤں نہ تھا بلکہ کوئی اور ہی بستی تھی۔یہ قبائلی بستی تھی جو جنگل میں واقع تھی ،معاً مجھے خوف لاحق ہوا کہ درندے کی طرح یہ قبائلی بھی آدم خور ہوتے ہیں کہیں لینے کے دینے نہ پڑ جائیں۔لیکن شکر ہے یہ قبائلی بھی بڑے تپاک سے پیش آئے۔آسٹن نے انہیں بتایا کہ ایک آدم خور ان کے قریبی گاؤں پر حملہ آور ہوتا ہے،ہم اسے ختم کرنے کے لیے آئے ہیں۔
یہ سن کر وہ لوگ بہت خوش ہوئے۔۔۔انہوں نے کہا:
’’یہ خونخوار درندہ ہمارے بھی پانچ آدمیوں کو ہلاک کر چکا ہے۔‘‘
ہم نے انہیں تسلی دی کہ اب وہ موذی اپنے انجام کو پہنچ کررہے گا۔(جاری ہے )
درندوں کے شکاری کی سرگزشت...قسط نمبر 36 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں