شیرازی کا ”بابو نگر“!
حسین احمد شیرازی، اسلامیہ کالج سول لائنز لاہور میں بی اے میں ہمارے کلاس فیلو تھے، مگر ہم نے اُن کے کلاس فیلو ہونے کو محسوس ہی نہ کیا تھا کہ ہم کلاس روم میں کم کم ہی جاتے تھے، کینٹین میں ہوتے یا پھر کالج میگزین ”فاران“ کے دفتر میں، جس کے ہم ایڈیٹر تھے۔
ایک روز ہمیں ”فاران“ کی ڈاک کے لئے مخصوص باکس میں پڑا ہوا ایک بھاری بھر کم لفافہ ملا، کھولا تو ایک مضمون تھا، بعنوان:
”جدید قصہءچہار درویش بے تصویر و بے نظیر“۔ مضمون نگار تھے۔ ہمارے کلاس فیلو سید حسین احمد۔ اُس وقت تک اُن سے ہماری بالمشافہ مُلاقات نہ ہوئی تھی کہ کلاس روم میں ہم جاتے نہیں تھے اور کینٹین میں وہ آتے نہیں تھے۔ ہم نے مضمون پڑھا تو ہر ہر پیرے کے بعد اُچھل اُچھل پڑے۔ پڑھا، پھر پڑھا اور بدگمان ہوئے کہ مضمون سَرقہ، چربہ یا نقل شدہ نہ ہو، چنانچہ نوٹس بورڈ پر عریضہ آویزاں کرایا گیا کہ ”مضمون نگار بہ نفسِ نفیس فوری طور پر ہمیں شرفِ ملاقات بخشیں“!
یوں دُبلے پتلے انتہائی سمارٹ، پُھرتیلے، ذہین و فطین کلاس فیلو سے ہماری پہلی ملاقات ہوئی اور ایسی ہوئی کہ اب تک چلی جاتی ہے۔
اس واقعے کا ذکر حسین احمد شیرازی نے اپنی تصنیفِ لطیف ”بابو نگر“ میں عرضِ مصنف“ کے تحت اس طرح کیا ہے:”1966ءمیں ہم نے اپنا پہلا مضمون ”جدید قصہءچہار درویش، بے تصویر و بے نظیر“ کے عنوان سے کالج میگزین میں اشاعت کے لئے دیا تو میگزین کے مُدیر نے لکھ کر پوچھا کہ ”یہ مضمون کہاں سے نقل کیا گیا ہے؟....کیونکہ کالج کا طالب علم اس پائے کا مضمون نہیں لکھ سکتا۔ میگزین کے اداریے میں بہت سی تعریف و تحسین کے ساتھ وہ مضمون چھپ گیا، بلکہ بیس سال بعد 1986ءمیں کالج میگزین کی ربع صدی کی اشاعتی تحریروں کا انتخاب شائع ہُوا تو وہ مضمون اس میں بھی شامل تھا“ [اقتباس ختم]۔
حقیقت یہ ہے کہ ہونہار بِروا کے چکنے چکنے پات کے مصداق پہلے ہی مضمون کی اشاعت نے سید حسین احمد کا نقش دائمی طور پر جما دیا تھا اور اداریے میں اُن سے بجا طور پر یہ توقع کی گئی تھی کہ آگے چل کر وہ اقلیم طنز و مزاح میں اپنی انفرادیت کے جھنڈے گاڑیں گے۔ یہ توقع بہ حُسن و خوبی پوری ہوئی اور زمانہءطالب علمی کے سید حسین احمد اب حسین احمد شیرازی کے نام سے چار دانگِ عالم میں رُوشناسِ خلق ہیں....!
ان کے 43 مضامین پر مشتمل اولین مجموعہ ”بابو نگر“ کے نام سے شائع ہو کر فروخت کے نئے ریکارڈ قائم کر رہا ہے۔ کتاب کی تعریف و توصیف میں سید ضمیر جعفری، عظیم ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان، جسٹس میاں محبوب احمد اور ڈاکٹر سلیم اختر رطب اللسان ہیں!
سید ضمیر جعفری کا کہنا ہے:
”یہ تحریریں شائستہ، ذہین اور بشاش ظرافت کی اس سطح کی نمائندگی کرتی ہیں جس سے کسی قوم کی تہذیبی سطح کا اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اگر اسے رَوا رَوی میں پڑھو تو ”کامیڈی“ معلوم ہوتی ہے اور سوچ کر پڑھو تو ”ٹریجڈی“ محسوس ہوتی ہے“....!
سید حسین احمد شیرازی کی کتاب ”بابو نگر“ کی ابتداءمیں ”اُردو ظرافت کا باغیچہءشیراز“ کے عنوان سے سید ضمیر جعفری مرحوم کے یکم جنوری1996ءکے مرقومہ اس مضمون کا آخری فقرہ آبِ زر سے لکھ کر محفوظ کئے جانے کے قابل ہے کہ:
”جو شخص اپنی زندگی میں اچھے کام کر جائے، وہ اپنے شجرئہ نسب سے بھی بے نیاز ہو جاتا ہے“....!
مصنف ”بابو نگر“ سابق چیف کلکٹر کسٹم حسین احمد شیرازی کے حوالے سے ڈاکٹر عبدالقدیر خاں لکھتے ہیں:
”کسٹم کے بارے میں یہ مثل مشہور ہے کہ ہاتھی نکل گیا، لیکن اُس کی دُم پکڑ لی گئی یا توپ نکل گئی، لیکن کھلونا پستول پکڑ لیا گیا، لیکن میرا ذاتی مُشاہدہ ہے کہ شیرازی صاحب نے توپ کا معائنہ توپ خانے میں جا کر کیا اور ہاتھی کا معائنہ چڑیا گھر میں خود جا کر کیا۔ شیرازی صاحب کی کتاب میں یہ بہت بڑی خوبی ہے کہ قاری کے ہونٹوں پر تبسم اُس وقت تک کھلا رہتا ہے، جب تک مضمون ختم نہیں ہو جاتا“....!
جسٹس میاں محبوب احمد لکھتے ہیں:
”حسین احمد شیرازی نے طنز و مزاح کی روایت کو بڑی خوبصورتی سے آگے بڑھایا ہے، اُن کے ہاں لفظوں اور واقعات سے مزاح پیدا کرنے کی قدیم روایات اور اصلاحِ تمدن کی جدید مقصدیت کا حسین امتزاج ہے“....
اور مشہور نقاد پروفیسر ڈاکٹر سلیم اختر کا کہنا ہے کہ”جناب شیرازی پاکستانی معاشرے کے داخلی تضادات، افراد کی بوالعجبیوں، منافقت اور قول و فعل میں تضادات سے اپنے اہداف حاصل کرتے ہیں۔ یوں ”بابو نگر“ اُس "DISTORTED MIRROR" میں تبدیل ہو جاتا ہے، جس میں معاصر معاشرے کے مسخ نقوش دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس ضمن میں ان کا قلم، تِیر میں تبدیل ہو جاتا ہے اور وہ ماہر نشانہ باز کی مانند چاند ماری کا عمل جاری رکھتے ہیں“....!
اتنی مقتدر آراءکے بعد ہمارا کچھ اضافہ کرنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے.... تاہم جیسا کہ خود شیرازی صاحب نے ایک مشہورِ زمانہ شعر سرورق کے آخری صفحے پر حرفِ آخر کے طور پر درج کیا، وہ درج کر کے آگے بات کروں گا:
چمن میں تلخ نوائی مری گوارا کر
کہ زہر بھی کبھی کرتا ہے کارِ تریاقی
حسین احمد شیرازی نے اپنی معرکہ آراءعظیم و ضخیم تصنیف مجھے ان الفاظ کے ساتھ پیش کی ہے:
”برادرم ناصر زیدی کے لئے!
آپ کی سینتالیس سالہ حوصلہ افزائی کے لئے تہہِ دل سے شکرئیے کے ساتھ“....!
یقیناً اس اعترافی تحریر کے بعد میرا دل باغ باغ ہو جانا چاہئے تھا، جو ہُوا بھی، مگر غنچہءدل یہ دیکھ کر مُرجھا سا گیا کہ پوری کتاب میں میرا تذکرہ تو موجود ہے، مگر اس احتیاط کے ساتھ کہ نام کہیں نہ آنے پائے.... یہ اعتراف بھی ہے کہ پہلا مضمون کالج میگزین”فاران“ میں شائع ہُوا مگر ”فاران“ کے مدیر، یعنی میرا کہیں نام نہیں۔ یہ بھی ذکر ہے کہ سب سے پہلے ان کے مضامین کو ماہنامہ ”ادبِ لطیف“ لاہور میں جگہ ملی مگر ”ادبِ لطیف“ کے مُدیر ناصر زیدی کا نام نامعلوم کس احتیاط کے بموجب تحریر نہیں کیا گیا، جبکہ اُردو ڈائجسٹ کے اور ”نیرنگِ خیال“ کے مُدیران کے نام بار بار لئے گئے ہیں.... یاد رہے کہ ”نیرنگ خیال“ کے مُدیر سلطان رشک کو مَیں نے ہی حکیم یوسف حسن سے کہہ کر ادارت دلوائی تھی! بہرحال:
رموزِ مملکتِ خویش خُسرواں دانند
اس جُملہءمعترضہ سے قطعِ نظر کتاب ”بابو نگر“ خوب ہی نہیں، خوب تر ہے اور بلاشبہ ہاتھوں ہاتھ لئے جانے کے قابل ہے۔ تمام مضامین میں اُردو کے کلاسیکی اشعار کا بَرمحل استعمال تحریر کو چار چاند لگاتا ہے۔ عہد قدیم کے شعراءکے ساتھ ساتھ عہد موجود کے شعراءکے خوبصورت اشعار بھی تحریر کی زینت ہیں، مگر کسی شعر کے ساتھ اس کے خالق کا نام قصداً نہیں دیا گیا کہ غلطی اور غلط بخشی کا احتمال ہی نہ ہو.... بعض اشعار میں ضرورت کے تحت لفظی تحریفیں بھی ہیں جو موقع، محل کی مناسبت سے بھلی لگتی ہیں۔ حسین احمد شیرازی کا شعری ذوق، بلکہ حُسنِ ذوق کتاب کے ہر چھوٹے بڑے مضمون سے بخوبی عیاں ہے.... طنز و مزاح کے ضمن میں خود کو ہدف بنانا یا اپنے آپ پر ہنسنا اور اپنا ہی خاکہ اُڑانا بڑے وسیع ظرف کی بات ہے۔ حسین احمد شیرازی نے یہ وسیع الظرفی بھی دکھائی ہے۔ جُملوں کی کاٹ ایسی ہے کہ وہ لکھیں اور پڑھا کرے کوئی.... ادب میں خود کو مرحوم لکھنے بلکہ باقاعدہ مرحوم کہلوانے کی ابتداءشاعرِ انقلاب حضرت جوش ملیح آبادی نے اپنی زندگی ہی میں جوش مرحوم لکھ کر کی تھی۔ عطاءالحق قاسمی نے اپنا خاکہ ”مرحوم“ کے لاحقے کے ساتھ لکھا۔ حمید اختر نے بھی زندگی ہی میں ”حمید اختر مرحوم“ کے عنوان سے اپنا خاکہ لکھا، حسین احمد شیرازی نے تو اپنے خاکے میں اپنی ناک تک کا مضحکہ خود اُڑایا ہے، جبکہ اظہرجاوید کی ایسی ہی ناک کے لئے علی شہزاد نے یہ لافانی مصرع کہا تھا:
سمجھے ہے طوطا ناک کو صورت کا بانکپن
غرض ”بابو نگر“ کیا ہے، پڑھ کے دیکھ لیجئے:
مُشک آنست کہ خود بہ بوید نہ کہ عطا بگوید!