سیاسی جلسے کی جملے بازی کو فتویٰ نہیں کہا جاسکتا
روزنامہ جنگ کے کالم نگار محترم جناب ڈاکٹرصفدر محمود صاحب نے 15نومبر2013ءکے کالم میں یہ انکشاف کیا ہے کہ1945ءمیں مولانا سید حسین احمد مدنی ؒ نے نہ صرف قائداعظم کو کافر اعظم کہا بلکہ ایک فتویٰ کے ذریعے مسلمانوں کو مسلم لیگ میں شمولیت سے بھی منع فرمایا اس سے آگے مولانا مظہر علی اظہر ( سابق سیکرٹری جنرل مجلس احرار اسلام )کے بارے میں لکھتے ہیں کہ انہوں نے قائداعظم کے خلاف کافر اعظم کا فتویٰ دیا اسی طرح گذشتہ دِنوں ڈان نیوز کے ایک مذاکرے میں شریک مشہور قانون دان جناب جسٹس طارق محمود صاحب نے بھی کہا کہ اہل مذہب نے قائداعظم کو کافر اعظم کہا تھا اور یہ بات وقتاً فوقتاً میڈیا پر اور مختلف فورموں پر بڑے زور شور سے کہی جاتی ہے اور بعض بڑے ذی فہم اور سنجیدہ دانشور بیوروکریٹ بھی پرنٹ میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا پر اس کا اظہار کرتے رہتے ہیںیہ سوچے بغیر کہ اس کی حقیقت کیا ہے اور اس کا انجام کیا ہوگا اور بغیر ثبوت کے جس طبقے پر یہ الزام دھرا جارہا ہے انکی طرف سے مسلسل اظہار برا¿ت کے باوجود یہ الزام ان کے سر تھوپنا عدل وانصاف کا خون نہیں تو اور کیا ہے؟ اور پروپیگنڈہ کے طور پر پبلک کی غلط رہنمائی کرنا اور پھر یہ غلطی مسلسل دہراتے چلے جانا نا انصافی اورظلم کی انتہا ءہے ڈاکٹر صاحب موصوف نے اس کا کوئی حوالہ نہیں دیا کہ شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی ؒ نے 1945ءمیں کب اور کہاں ، کس مجلس اور جلسہ میں یا کس کتاب میں قائداعظم کو کافر اعظم کہا ہے بس لے دے کے ایک کتاب خطبات عثمانی کے حوالے سے کہاگیاہے کہ اس میں مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ نے مولانا مدنی کے مذکورہ بالا فتویٰ کا خاصا ذکر کیا ہے جبکہ یہ کتاب علامہّ شبیر احمد عثما نی ؒ کی تصنیف نہیں بلکہ ان کے تقسیم ھند سے قبل کے سیاسی خطبات کا مجموعہ ہے جسے علامہّ عثمانی ؒ کی وفات کے بعد مولاناپروفیسر انوار الحسن شیر کوٹی مرحوم نے مرتب کیا تھا لہذا اس میں کہی گئی باتوں کو فتویٰ کی بجائے سیاسی اختلاف پر محمول کرنا چاہئے ۔
متحدہ ہندوستان کی تقسیم کے بارے میں علامہّ شبیر احمد عثمانی ؒ اور مولانا سید حسین احمد مدنی ؒ کے مابین سیاسی اختلاف کی حقیقت بھی اظہر من الشمس ہے حضرت مدنی ؒ اپنی سیاسی فہم وفراست کی بناءپر تقسیم ھند کو امت مسلمہ کے مفاد کے خلاف سمجھتے تھے جبکہ علامہّ عثمانی ؒ اور دیگر نامور بڑے علماءتقسیم ھند کو ضروری خیا ل کرتے تھے اور مسلم لیگ تقسیم ھند اور قیام پاکستان کی نہ صرف حامی بلکہ بڑی دعویدار جماعت تھی اس بناءپر حضرت مدنی ؒ نے سیاسی جلسوں میں مسلمانوں کو مسلم لیگ میں شمولیت کی توثیق نہیں کی تو یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں بلکہ یہ تو ان کا سیاسی مو¿قف تھا جس کا اظہار انہوں نے اس وقت برملا کیا تھا اور پھر قیام پاکستان کے بعد پاکستان کو مسجد سے تشبیہ دے کر اس سیاسی اختلاف کو بھی ہمیشہ کے لئے ختم فرما دیا تھا لیکن اس سے یہ کہاں ثابت ہوگیا کہ حضرت مدنی ؒ نے قائداعظم کو کافر اعظم کہا ہے اگر کہا ہے تو اس کا کوئی ٹھوس ثبوت پیش کرنا چاہیئے ۔
قیام پاکستان سے قبل اور مابعد جمعیت علماءھند اور مسلم لیگ کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والی ناموردینی و علمی شخصیت اور برصغیر پاک وھند کی تقسیم کے عینی شاہد حضرت مولانا مجاہد الحسینی مد ظلہم سے روزنامہ پاکستان کے نامور کالم نگار محتر م جناب خالد ہمایوں صاحب نے ماہنامہ قومی ڈائجسٹ لاہور کے لئے انٹر ویو لیتے ہوئے یہی سوال کیا کہ قائداعظم کو کافر اعظم بھی تو کہا گیا ؟ تو مولانا نے جواب میں فرمایا :
”میں وثوق سے کہہ سکتا ہو ں کہ برصغیر کے کسی عالم دین خواہ وہ دیوبندی ہے ،خواہ بریلوی ہے ،خواہ اہلحدیث ہے کسی نے بھی قائداعظم کو کافر اعظم نہیں کہا اور جس نے یہ کہا وہ ایک وکیل تھا اور اس کا تعلق ایک ایسے مسلک کے ساتھ تھا کہ میں اس کے لئے فرقے کا لفظ استعمال نہیں کرنا چاہتا یہ تو حقائق ہیں کسی عالم دین نے کافر اعظم نہیں کہا اگر کسی کے پاس ثبوت ہے تو پیش کرے ، قائد اعظم نے تو دیوبندی علماءکو یہ شرف بخشا کہ حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ کے ہاتھ سے (پاکستانی ) جھنڈا لہرانے کی رسم ادا کروائی ، ادھر مشرقی پاکستان میں یہ رسم مولانا ظفر احمد عثمانی ؒ نے ادا کی ، سب لوگ جانتے ہیں کہ قائداعظم کے دل میں علماءدیوبند کے لئے بہت قدر ومنزلت تھی علامہّ عثمانی ؒ کو انہوں نے بڑی اہمیت دی اور وصیت تک کی کہ وہ میر ا جنازہ پڑھائیں گے “(قو می ڈائجسٹ لاہور،اکتوبر 2009ءص26 )
البتہ مولانا مظہر علی اظہر کے بارے میں ڈاکٹر صاحب موصوف کا کہنا بالکل بجا ہے اس کی حقیقت سے پردہ بھی مولانا مجاہد الحسینی نے اٹھایا ہے چنانچہ گذشتہ دِنوں مولانا کی علالت کا سن کر عیادت کے لئے حاضری ہوئی تو دوران ِ ملا قات یہ سوال بھی زیر ِ بحث آیا ، مولانا نے اس کے متعلق جو کچھ فرمایا اس کا خلاصہ درج ذیل ہے قائداعظم محمد علی جناح شروع میں اثناءعشری عقائدرکھتے تھے اور مولانا مظہر علی اظہر بھی اثناءعشری شیعہ تھے دونوں کو اکابر علماءدیوبند کی صحبت ملی تو دونوں کے نظریات بھی بدل گئے قائداعظم کو علامہّ شبیر احمد عثمانی ؒ مولانا ظفر احمد عثمانی ؒ اور دیگر کئی سر کردہ شخصیا ت کی صحبت ملی اور حکیم الامت مولا نا اشر ف علی تھانوی ؒ کے مشورے اور دعائیں ملیں اور مولانا مظہر علی اظہر کو مجلس احرار اسلام اور ان کے دُر ویش صفت قائدین بالخصوص امیر شریعت سید عطاءاللہ شاہ بخاری ؒ کی صحبت میسر آئی تو دونوں کے نظریات میں بڑی تبدیلی واقع ہوئی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ قائد اعظم نے اپنی وفات کے بعد نماز جنازہ علامہّ شبیر احمد عثمانی ؒ سے پڑھانے کی وصیت کردی چنانچہ علامہّ عثمانی ؒ نے ہی ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور مولانا مظہر علی اظہر کے نظریات میں اس حد تک تبدیلی واقع ہوئی کہ مجلس احرار اسلام نے ان کو لکھنوءمیں شیعہ سنّی خلفشار کو ختم کرنے کے لئے تحریک مدح صحابہ ؓ کا نگران مقرر کردیا تھا اہلسنت عوام ان کو سابقہ نظریات کی بنا ءپر شیعہ کہتے تھے اور اہل تشیع تحریک مدح صحابہؓ کے رہنماءہونے کی وجہ سے سنّی قرار دیتے تھے۔
مولانا مظہر علی اظہر نامور ایڈووکیٹ تھے انہوں نے قائداعظم کے کافر اعظم ہونے کا فتویٰ نہیں دیا تھا البتہ الیکشن کے زمانے میں دوران تقریر قائداعظم کے بارے میں ایک نظم پڑھی جس میں زیر بحث الفاظ تھے ؟یہ فتویٰ نہیں تھا بلکہ سیاسی تقریر میں کہا گیا ایک جملہ تھا جو ایک وکیل نے دوسرے وکیل قائداعظم کے بارے میں کہا تھا؟فتو یٰ ایک مقد س اصطلاح ہے جو کسی ماہر عالم دین اور مستند مفتی کی زبان وقلم سے شرعی حکم کے طور پر صادر ہوتی ہے اس سیاسی جملہ بازی کومذہبی فتوے کا رنگ دینا کسی طور پر بھی مناسب نہیں لہذا اس گھٹیا الزام کو خوامخواہ عناد کی بناءپر علماءکی طرف منسوب کرنا اور مسلسل کرتے چلے جانا سراسر ناانصافی اور بہتان عظیم ہے اب اس بحث کو ہمیشہ کے لئے ختم ہوجانا چاہیئے ، سیاسی گفتگو کو مذہبی معاملات کا رنگ دینا گناہ میں شامل ہے اس سے اجتناب کرنا چاہیئے۔