دہشت گردی کے خلاف پاک امریکہ شراکت

دہشت گردی کے خلاف پاک امریکہ شراکت

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ کی انسدادِ دہشت گردی میں پاک امریکہ پارٹنر شپ پر رائے مثبت ہے، پاک امریکہ تعلقات میں کسی تبدیلی کی توقع نہیں رکھتا ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پارٹنر ہیں، انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف تعاون جاری رکھیں گے،افغان مسئلے پر امریکہ کے نائب صدر مائیکل رچرڈ پنس کے ساتھ ملاقات بھی مفید رہی، پاکستان خطے سے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے پُرعزم ہے۔امریکی نائب صدر پنس کا کہنا ہے کہ امریکہ پاکستان سے تعلقات کو بہت اہمیت دیتا ہے،خطے میں امن اور سلامتی کے لئے پاکستان کے ساتھ مل کرکام کرنا اور طویل المدتی شراکت داری چاہتا ہے،پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات کے لئے نئی راہیں تلاش کر رہے ہیں۔سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ نے وزیراعظم عباسی کی امریکی نائب صدر پنس کے ساتھ ملاقات کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اِس ملاقات سے پاک امریکہ سرد مہری کا خاتمہ ہوا ہے۔ افغانستان کے متعلق پاکستان اور امریکہ بات چیت جاری رکھیں گے۔
پاکستان میں بعض حلقے، حتیٰ کہ سینیٹ کے چیئرمین رضا ربانی امریکی نائب صدر کے ساتھ ملاقات کے سرے سے ہی مخالف تھے اور اِس بارے میں اپنا ایک نقطہ نظر رکھتے تھے تاہم اگر اِس ملاقات کے نتیجے میں جیسا کہ سیکرٹری خارجہ نے کہا ہے دونوں ممالک کے درمیان سرد مہری ختم ہوئی ہے یا کم از کم اِس عمل کا آغاز ہی ہو گیا ہے تو اسے اچھی پیش رفت ہی گردانا جائے گا، دہشت گردی اب پوری دُنیا کا مسئلہ بن چکی ہے اور اِس کا مقابلہ بھی مل کر متحدہ اقدامات کے ذریعے ہی کیا جا سکتا ہے، اِس لئے اِس نقطے پر ممالک کا اتحاد و اتفاق قابلِ تحسین ہے،پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں اُتار چڑھاؤ کی تو اپنی ایک تاریخ موجود ہے، کبھی تو یہ تعلقات بہت اچھے ہو جاتے ہیں اور کبھی بوجوہ اِن میں سرد مہری پیدا ہوتی رہتی ہے،ویسے تو امریکہ کی نئی افغان پالیسی اور صدر ٹرمپ کی حالیہ تقریر سے پہلے بھی یہ تعلقات بڑی حد تک ٹھنڈے ٹھار تھے،لیکن اس کے بعد ان میں جو بگاڑ پیدا ہوا اور جس کے مظاہر دونوں طرف دیکھے گئے اب اگر اِس میں بہتری کا عمل شروع ہو گیا ہے تو اِسے سراہا جانا چاہئے۔
امریکہ ایک عالمی سپرپاور ہے اُس کی پالیسیاں اُس کے اپنے مفادات کے گرد گھومتی ہیں اور صرف امریکہ پر ہی کیا موقوف،دُنیا کا ہر مُلک قوموں کی برادری میں اپنے تعلقات کو اپنے قومی مفادات کے تابع ہی رکھتا ہے،ایسا تو شاذو نادر ہی ہوتا ہے کہ کوئی مُلک اپنے مفادات کو پسِ پشت ڈال کر کسی دوسرے مُلک کے مفادات کے تحفظ کی خاطر کوئی پالیسی بنانا شروع کر دے اِس لئے پاک امریکہ تعلقات کو بھی اِسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔اگر امریکہ سے غیر معمولی توقعات وابستہ نہیں کی جائیں گی اور معمول کے تعلقات بحال رکھے جائیں گے تو شکایات بھی کم سے کم ہوں گی اور معمول کے تعلقات میں بھی کوئی ایسا بگاڑ نہیں آئے گا، جس کی وجہ سے تعلقات کی خرابی میں اضافے کا اندیشہ ہو۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے جو قربانیاں دی ہیں دُنیا کے بیشتر ممالک کو اس کا احساس و ادراک ہے۔ امریکہ کے اندر بھی حکومتی حلقے اس کا اعتراف کرتے رہے ہیں اور صدر ٹرمپ کی حکومت بھی ان سے خالی نہیں ہے تاہم نئی افغان پالیسی میں پاکستان کو خصوصی طور پر ٹارگٹ کر کے امریکی فوج کی ناکامیوں کا ملبہ پاکستان پر ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے اور یہ گھسا پٹا الزام ایک بار پھر دہرا دیا گیا کہ پاکستان تمام دہشت گردوں کے خلاف بلا تفریق کارروائی کرے،حالانکہ یہ سلسلہ پہلے سے جاری ہے اور اس کا موقف ہے کہ مُلک بھر سے دہشت گردوں کے ٹھکانے ختم کر دیئے گئے ہیں اب ان کی کوئی پناہ گاہ پاکستان میں نہیں ہے اِس کے برعکس افغانستان میں دہشت گردوں کی بہت سی کمین گاہیں موجود ہیں،جہاں سے وہ پاکستان کے خلاف کارروائیاں کرتے رہتے ہیں،لیکن معروضی حالات کو نظر انداز کر کے امریکہ نے پاکستان سے ’’ڈو مور‘‘ کا مطالبہ کرنے کے ساتھ ساتھ افغانستان میں بھارت کو بھی اپنا کردار بڑھانے کی ہدایت کر دی۔افغانستان میں بھارتی کردار پہلے سے واضح ہے،جہاں اس کے تربیت یافتہ دہشت گردپاکستان آ کر دہشت گردی کی کارروائیاں کرتے ہیں،اب اگر امریکہ کی شہ پا کر بھارت کابل میں اپنا اثرو رسوخ بڑھائے گا تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ کیا گل کھلائے گا،لیکن اس کا نتیجہ یہی نکلے گا کہ خطے میں امن و امان کی صورتِ حال پہلے سے بھی زیادہ خراب ہو جائے گی۔
وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے امریکی نائب صدر کے ساتھ نیو یارک میں جو ملاقات کی ہے اس کے نتیجے میں اگر تعلقات میں گھلی ہوئی تلخی کم ہوتی ہے اور دونوں ممالک میں معمول کا تعاون جاری رہتا ہے تو اس کا خیر مقدم ہی کیا جائے گا امریکہ کو یہ بات مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ دُنیا بھر میں پاکستان واحد مُلک ہے، جس نے دہشت گردی کے خلاف سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں اور معیشت کی تباہی کی صورت میں جو نقصان اُٹھایا ہے اِس کا بڑی حد تک ذمے دار امریکہ ہی ہے، کیونکہ جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تھا تو فوری ردعمل کا شکار پاکستان ہُوا تھا امریکہ نہیں، کیونکہ امریکہ تو سرحدوں سے ہزاروں میل دور تھا، خود کش بمبار بھی پہلی مرتبہ افغانستان پر امریکی حملے کے بعد ہی ظہور میں آئے اور آج تک اِن کا کوئی حل نہیں نکل سکا۔اس کے باوجود امریکہ اگر ’’ڈو مور‘‘ کہے گا تو اِس کا جواب یہی ہے کہ پاکستان نے بہت ڈو مور کر لیا اور اب باری دُنیا کی ہے کہ وہ ڈو مورکرے۔
پاکستان اپنے وسائل پر بھروسہ کرتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے اگر امریکہ اور دوسرے مُلک اِس ضمن میں پاکستان سے تعاون کریں گے تو اس کا طویل المدت فائدہ بھی خود انہی ممالک کو پہنچے گا۔امریکہ نے تو نائن الیون کے بعد اپنے مُلک کو دہشت گردی سے بڑی حد تک محفوظ کر لیا،لیکن بہت سے یورپی ممالک میں دہشت گردی کی وارداتیں اب بھی ہو رہی ہیں اِس لئے دانشمندانہ پالیسی یہی ہو گی کہ ایسے ہتھیاروں اور سازو سامان سے پاکستان کے ہاتھ مضبوط کئے جائیں جو دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں میں معاون ثابت ہو سکیں۔ایک زمانے میں صدر اوباما نے پاکستان کو بارہ ایف16طیارے دینے کا اعلان کیا تھا۔ امریکی حکومت نے نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا تھا،لیکن بھارتی لابی نے مخالفانہ پروپیگنڈے اور کانگرس میں اپنے حامیوں کے ذریعے یہ سودا پایۂ تکمیل تک نہ پہنچنے دیا، حالانکہ دشوار گزار علاقوں میں یہ طیارے دہشت گردی کے خلاف بہت کارآمد تھے، اِسی طرح اگر امریکہ پاکستان پر پابندیوں کے غلط راستے پر چل نکلا تو اس سے بھی دہشت گردی کی یہ جنگ متاثر ہو گی،اِس لئے بہتر یہی ہے کہ دونوں ممالک کے تعلقات کو صدر ٹرمپ کی جذباتی تقریر نے جو ضعف پہنچایا اُسے دور کر کے آگے بڑھایا جائے، شاید نائب صدر پنس کے ساتھ وزیراعظم عباسی کی ملاقات اس کام کے لئے مفید ثابت ہو سکے۔

مزید :

اداریہ -