دہشت گردوں کے یہ سہولت کار

دہشت گردوں کے یہ سہولت کار

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


لاہور ہائی کورٹ نے داعش کے تین سہولت کاروں کی ضمانت کی درخواستیں مسترد کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ معاشرے کا سکون برباد کرنے والے رعایت کے مستحق نہیں ہیں، فاضل جج مسٹر جسٹس شاہد حمید ڈار کے روبرو ملزموں کے وکلاء نے موقف اختیار کیا کہ سی ڈی ٹی نے بے بنیاد مقدمہ درج کیا ہے ، کوئی گواہ موجود نہیں، اِس لئے ضمانت منظور کی جائے، محکمہ پراسیکیوشن کی طرف سے ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نے ملزموں کے خلاف ریکارڈ پیش کیا اور موقف اختیار کیا کہ ملزمان ڈی سی آفس کی اسلحہ برانچ میں کام کرتے تھے اُن کے قبضے سے کلاشنکوفیں، جعلی اسلحہ لائسنس اور داعش کے کتابچے برآمد ہوئے ہیں، تفتیش میں ملزموں کے دہشت گردوں کے ساتھ تعلقات بھی ثابت ہوئے ہیں۔
لاہور ہائی کورٹ نے تو مقدمے کا جو فیصلہ میرٹ پر درست سمجھا وہ صادر کر دیا،لیکن اس مقدمے سے جڑے ہوئے بہت سے سوالات ایسے ہیں جن کے جواب ملنے تک ہم بطور معاشرہ دہشت گردی کے خلاف اپنے عزم و ارادے کے استحکام کی صداقت پر اصرار نہیں کر سکتے۔ یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے ، دہشت گردوں نے اپنے رابطے کہاں کہاں تک استوار کر لئے ہیں اور اُن کے سہولت کاروں کی جڑیں کہاں تک ہیں؟۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ دہشت گردوں نے افغانستان میں اپنی پناہ گاہیں بنا رکھی ہیں، جہاں وہ ان لوگوں کو تربیت دیتے ہیں جو پاکستان میں آ کر دھماکے کرتے ہیں۔ یہ بھی درست ہے انہیں غیر ملکی عناصر کی امداد و تعاون بھی حاصل ہے، اُنہیں دہشت گردی کے لئے مالی تعاون بھی بیرونِ مُلک سے میسر ہے۔ بھارت افغانستان میں اپنے سفارت خانے اور قونصل خانوں کے ذریعے سرگرم عمل ہے،لیکن سوال یہ ہے دہشت گردوں کے سہولت کار تو پاکستان میں رہتے ہیں وہ پاکستان کی سرزمین پر چلتے پھرتے ہیں اِس مُلک کی بدولت حاصل ہونے والی نعمتوں سے مستفید ہوتے ہیں، اُن کے پاس جو کچھ بھی ہے وہ پاکستان ہی کی عنایت ہے،لیکن وہ اتنے بدبخت ہیں کہ پاکستان کا کھاتے ہیں اور پاکستان کی سرزمین اور اس کے باشندوں کو لہولہان کرتے وقت کوئی شرم و حیا محسوس نہیں کرتے۔
دہشت گردی نے پاکستان کے جسدِ قومی پر جو زخم لگائے ہیں اس کا مقابلہ کرنے میں پاکستان کی سیکیورٹی فورسز کے جوانوں نے اپنی جوانیاں نچھاور کی ہیں، ابھی گزشتہ روز ہی چار سدہ کی تنگی کچہری کے باہر پولیس اہلکاروں نے فرض کی پکار پر لبیک کہا اور اپنی جان نثار کی، پہلے بھی کئی دفعہ ایسا ہوا ہے کہ دہشت گرد کو کسی چیکنگ پوسٹ پر تلاشی کے عمل سے گزارا گیا تو اُس نے خود کو وہیں اُڑا لیا، اِس سے ثابت ہو جاتا ہے سیکیورٹی اہلکار تو اپنی جگہ چاق و چوبند کھڑے تھے، چیکنگ کے فرائض بھی خوش اسلوبی اور فرض شناسی سے ادا کر رہے تھے، گویا فرض کی ادائیگی میں اُن کی جانب سے کوئی کوتاہی نہ تھی۔انہوں نے تو اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر اپنا فرض ادا کیا، دہشت گرد بمبار نے اگرچیکنگ کے دوران خود کو اڑا لیا تو اس سے روکنا اُن کے بس میں نہ تھا، ہم نے ان کالموں میں عرض کیا تھا کہ اِس ضمن میں نیا سیکیورٹی ڈاکٹرائن بنانے کی ضرورت ہے جو فوری طور پر تو نہیں بنایا جا سکتا تھا البتہ لمبی مدت کے لئے اس کی منصوبہ بندی ہو سکتی ہے۔،تاہم ہمارے معاشرے میں اُن عناصر کی کمی نہیں ہے جو ہر وقت کسی نہ کسی انداز میں سیکیورٹی اداروں کی خامیوں کا رونا روتے رہتے ہیں اور گردو پیش کی معروضی صورتِ حال کو نظر انداز کر کے دہشت گردی کے کسی بھی واقعے کے بعد بظاہر اپنے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے سیکیورٹی اداروں کی جاں نثاری کو بھی نظر انداز کر دیتے ہیں۔
یہ سوال بھی اُٹھایا جا سکتا ہے کیا دہشت گردی کے سلسلے میں ہمارا معاشرہ مجموعی طور پر اپنے فرائض ذمہ داری کے ساتھ ادا کر رہا ہے، کیا افرادِ معاشرہ نے اپنی آنکھیں اور کان کھلے رکھے ہوئے ہیں، کیا مالکان جائیداد اپنے گھر کرائے پر دیتے ہوئے پوری جانچ پڑتال کر لیتے ہیں کہ وہ اپنا مکان کس کے حوالے کر رہے ہیں؟ قانون یہ ہے کہ کسی بھی شخص کو مکان کرائے پر دینے سے پہلے متعلقہ تھانے کو اس کے کوائف سے آگاہ کیا جائے،لیکن بہت سے مالکان بوجوہ اس کی اطلاع تھانے میں نہیں دیتے، ممکن ہے وہ ایسا تساہل یا کسی اور وجہ سے کرتے ہوں،لیکن ایسے کر کے وہ نہ صرف قانون کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوتے ہیں بلکہ اپنی ذمہ داری سے بھی پہلو تہی کرتے ہیں۔جو کوئی بھی کسی دہشت گرد کے لئے کسی بھی انداز میں سہولت کاری کرتا ہے اس کے قریبی احباب تو ضرور باخبر ہوتے ہوں گے،لیکن وہ اس کی سرگرمیوں کی اطلاع مجاز حکام کو نہیں کرتے، محلے دار بھی چشم پوشی کرتے ہیں اور یوں دہشت گردوں کے سہولت کار ہمارے گلی محلوں اور آبادیوں میں آزادانہ چلتے پھرتے ہیں اور موقع ملنے پر واردات کر دیتے ہیں۔ پھر ہم حکومتی اداروں کو کوسنا شروع کر دیتے ہیں اور اپنے کردار پر نظر ڈالنے کے لئے تیار نہیں ہوتے، امریکہ کی ریاست ٹیکساس میں کھیلوں کی افتتاحی تقریب پر کسی دہشت گرد گروہ نے حملہ کیا، پولیس کی جوابی کارروائی میں ایک مارا گیا،لیکن جو بچ نکلا اُسے پورے امریکہ میں کہیں چھپنے کوجگہ نہ ملی، کیونکہ یہ خوف اُس کو دامن گیر تھا کہ وہ پکڑا جائے گا، بالآخر وہ ساحلِ سمندر کے ساتھ کھڑی ایک کشتی میں چُھپ گیا،لیکن سیکیورٹی ادارے کے ارکان نے اُسے وہاں بھی مقامی لوگوں کے تعاون سے ڈھونڈ لیا۔ ہمیں اپنے آپ سے سوال کرنا چاہئے ہم جو ہروقت حکومت کو طعنے دینا اپنا فرض سمجھتے ہیں اور الزام تراشی میں حد سے گزر جاتے ہیں، سہولت کاروں کے معاملے میں ہمارا طرزِ عمل کیا ہے؟
داعش کے بارے میں کہا جاتا ہے ، اُس کا وجود نہیں ہے،لیکن لاہور ہائی کورٹ میں پیش ہونے والے مقدمے سے ثابت ہو جاتا ہے کہ نہ صرف داعش اور اس کے ہمدرد یہاں موجود ہیں، بلکہ اُنہیں سہولت فراہم کرنے والے اسلحہ لائسنس جاری کرنے والے حساس دفاتر میں بھی موجود ہیں اور اُنہیں قانونی معاونت بھی میسر ہے، ہم دہشت گردی پر اُس وقت تک پوری طرح قابو نہیں پا سکتے ،جب تک قومی سیکیورٹی اداروں کے ساتھ ساتھ قوم کا ہر فرد ،وہ جہاں کہیں بھی ہے، اپنا کردار ادا نہیں کرتا۔ اگر مشکوک افراد پر نظر رکھی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ دہشت گردوں کے سہولت کار ہماری صفوں کے درمیان پنپ سکیں۔ ہر وقت شکوۂ ظلمتِ شب کرتے رہنے سے بہتر ہے کہ افرادِ معاشرہ اپنے اپنے حصے کی شمع جلانے پر بھی توجہ دیں۔

مزید :

اداریہ -