وہ پہلوان جنہوں نے تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر34

وہ پہلوان جنہوں نے تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر34
وہ پہلوان جنہوں نے تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر34

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

امام بخش کی فتح یقینی تھی۔شاید اسی لئے اس کے چاہنے والے امام بخش کی سواری کیلئے ایک اونٹ سجا کر لے آئے تھے۔ امام بخش فتح کے بعد اونٹ پر سوار ہونے لگا تو اونٹ بیٹھنے سے انکاری ہو گیا۔ چاہنے والوں نے شیر ببر کو کاندھوں پر اٹھا کر اونٹ پر چڑھا دیا۔
مگر اس دوران امام بخش کی فولادی کہنی ایک شخص کے ماتھے سے ٹکرا گئی۔۔۔ پھر کیا تھا وہ شخص بیہوش ہو کر گر پڑا۔ اس کے ماتھے پر ’’روبڑا‘‘ بن گیا۔ یہ ’’روبڑا‘‘ پھر زندگی بھر شیر ببر کی نشاندہی بن کر اس کے ساتھ رہا۔

پہلوانوں کی داستانیں ۔۔۔قسط نمبر 33 پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
اس بار امام بخش پہلوان بڑی شان و شوکت سے گھر میں داخل ہوا تھا۔ اڑھائی سالہ بھولو اور دونوں بڑی بیٹیوں نے باپ کے گلے میں پھولوں کے ہار دیکھے تو ہمک کر اس کی گود میں چڑھنے کیلئے بے تاب ہو گئیں۔امام بخش نے تینوں کو بازوؤں کے حصار میں لیا اور سینے سے لگا لیا۔ بچے پھولوں کے ہاروں سے کھیلنے لگے امام بخش نے ہار اتار کر تینوں کے گلے میں ڈال دئیے۔ سردار بیگم چوتھے بچے حسو کو گود میں اٹھائے اپنے سرتاج کے پاس پہنچ گئی۔ سحری سے وفا شعار بیوی مصلے پر بیٹھی تھی اور اب جب اسے اطلاع ملی کہ امام بخش جی فتح یاب ہو کر آئے ہیں تو شکرانے کے نفل ادا کرنے کے بعد استقبال کیلئے ڈیوڑھی تک آ گئی۔ اس کی آنکھیں تشکر کے آنسوؤں سے جھلمل کر رہی تھیں۔امام بخش نے بیگم کو سلام کیا۔
’’آپ کی دعاؤں میں بڑا اثر ہے بھولو کی ماں!‘‘ امام بخش نے سردار بیگم کی گود سے حسو کو لیتے ہوئے پیار کیا۔
بیگم کا گلا رندھ گیا۔ وہ جذب کے عالم میں بولی۔ ’’سرتاج یہ تو خدا اور سوہنے نبیﷺکا کرم ہے کہ دعائیں قبول فرمائی ہیں اور ہمارے خاندان کی لاج رکھ لی ہے‘‘۔
’’ہاں! آپ ٹھیک کہتی ہیں مگر دعائیں کریں تو بات بنتی ہے‘‘۔ امام بخش نے کہا اور پوچھا۔ ’’اماں حضور کہاں ہیں؟‘‘
’’بے جی مصلے پر بیٹھی ہیں‘‘۔ سردار بیگم نے جواب دیا۔
’’اماں! ابا دولہا کیوں بنا ہے۔ ’’بھولو نے سردار بیگم سے توتلی زبان میں سوال کیا۔
ماں نے ایک نظر امام بخش کو دیکھا جو بھولو کے معصوم سوال پر مسکرا کر اندر چلا گیا تھا۔
’’چل ہٹ شرارتی‘‘۔ ماں نے بھولو کی گال تھپتھپائی۔
’’نہیں ماں بتاؤ نا‘‘ اب دونوں بہنوں نے بھی بھائی کی تائید میں پوچھا۔ سردار بیگم نے دونوں کو کانوں سے پکڑا۔
’’اچھا تو تم بھی اس کے نقش قدم پر چل نکلی ہو‘‘۔
بچیاں یکدم سہم گئیں۔ اسی اثناء میں امام بخش باہر آ گیا۔
’’بھولو کی ماں یہ کیا کر رہی ہیں‘‘۔
سردار بیگم جھنپ کر بولیں۔ ’’یہ بھی بھولو کی طرح شرارتی ہوتی جا رہی ہیں۔ پہلے تو بڑی خاموش رہتی تھیں مگر جب سے بھولو چلنے پھرنے اور بولنے کے قابل ہوا ہے۔یہ بھی اس کیدیکھا دیکھی شرارتوں میں پڑ گئی ہیں‘‘۔
’’بھولو کی ماں جب بچے سوال کریں تو اس کا جواب دیا کرتے ہیں، ڈانٹتے نہیں۔‘‘
سردار بیگم نے بھاری پلکیں اٹھا کر شوہر کی طرف دیکھا۔امام بخش کے ہونٹوں پر خفیف مسکان تھی۔’’تو گویا آپ بھی ان کے نقش قدم پر چل نکلے ہیں۔ اب خود ہی ان کے سوال کا جواب دیں‘‘۔ بیگم امام بخش شرم سے چھوئی موئی ہو کر بولی۔
oooo
گونگا ہتھے سے اکھڑ گیا۔ گاموں بالی والے کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ طاقت کے اس طوفان کو کیا سمجھائے۔ گونگا امام بخش کے ہاتھوں ہزیمت اٹھانے کے بعد سیخ پا تھا۔وہ بار بار اشاروں سے باپ کو کہہ رہا تھا۔
’’میری اس شیر ببر سے جوڑ ڈالو۔۔۔ مجھے بڑی وحشت ہو رہی ہے‘‘۔
گاموں بالی والا اسے سمجھاتا اور ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرتا۔ مگر وہ گونگا بہرہ کچھ نہ سمجھتا۔ گاموں فن کشتی سے ہی آگاہ نہ تھا بلکہ اچھا سیاستدان بھی تھا۔اسے خبر ہوئی کہ پرنس آف ویلز ہند میں وارد ہونیوالا ہے اور اس کے اعزاز میں مختلف ریاستوں میں دنگل کرائے جائیں گے۔
اس نے موقع سے فائدہ اٹھانے کا سوچا۔ 1925ء میں پرنس ہندوستان میں آیا۔اس اثناء میں لاہور شاہ عالمی دروازے میں دنگل کا اعلان ہوا تو گاموں بالی والا نے گاماں کلو والا کو گونگا کیلئے مانگ لیا۔ گاماں کلو پہلوان کا پسر تھا اور امام بخش کی بیگم کلو پہلوان کی بھتیجی تھی۔ گاموں نے امام بخش کے سسرالی رشتہ داروں سے دو دو ہاتھ کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔
یہ کشتی بڑی کانٹے دار تھی۔ فن و طاقت کا ایک ستھرا اور مکمل فن دیکھنے کو ملا۔ بڑی تگ و دو کے بعد گونگا نے گاماں کلووالا کو گرا دیا۔ گاماں کلووالا کا گرنا معمولی نہ تھا۔ امام بخش نے سوچا کہ گونگا اب کس طرف سے اس پر حملہ آور ہونا چاہتا ہے۔اس نے اپنی تیاری جاری رکھی اور وقت کا انتظار کرنے لگا۔
دن اچھے گزر رہے تھے۔ دونوں بھائی اب مستقل پٹیالہ میں رہ رہے تھے۔ ان کے لاہور میں بھی مکانات تھے جہاں سال میں کچھ مہینوں ہفتوں کیلئے آ جاتے تھے۔
گاماں کے چار بیٹے فوت ہو چکے تھے لیکن بیٹیاں حیات تھیں۔امام بخش کی دو بڑی بیٹیاں اور دو بیٹے بھولو، حسو پیدا ہو چکے تھے۔ یہ 1926ء کا دور تھا۔ جب امام بخش اور گونگے کا تیسرا مقابلہ آن پڑا۔
ریاست پٹیالہ میں ایک عظیم الشان نمائش کا اہتمام کیا جا رہا تھا۔قدیم دنیا کو جدید دنیا کے نئے رنگوں سے متعارف کرایا جا رہا تھا۔ انگریز سرکار نے مہاراجہ پٹیالہ بھوپندر سنگھ کو ایام دسہرہ 1926ء میں ایک صنعتی اور زراعتی نمائش لگانے کا کہا تھا۔ ستلج کے اس پار ریاست پٹیالہ سکھوں کی سب سے بڑی ریاست تھی۔ یہ زراعت اور صنعت کے حوالے سے بھی ترقی کی طرف گامزن تھی۔ لہٰذا سرکار نے اس ریاست سے زرمبادلہ حاصل کرنے کیلئے خصوصی توجہ دینی شروع کر دی۔ مہاراجہ بھوپندر سنگھ نے اس نمائش کا تمام خرچہ برداشت کیا اور دوسرے ریاستی راجوں، نوابوں کو بھی مدعو کیا۔ اس دنگل کی تشہیر تمام ریاستوں میں ہوئی۔گونگے اور امام بخش کی کانٹا جوڑ دیکھنے کیلئے دور دور سے لوگ آئے۔ اس کشتی کے اشتہاروں میں گونگا پہلوان کو ’’ہندوستان کا مشہور پہلوان رستم زماں میاں گونگا‘‘ لکھا گیا۔ گو یہ اظہار عقیدت کا نیا رنگ تھا مگر گونگا رستم زماں نہ تھا۔
دنگل سج گیا تو امام بخش اور گونگا میدان میں اترے۔ گاموں بالی والے کا خیال تھا کہ امام بخش گزشتہ کشتی میں اپنی کسر پوری کر چکا ہے۔ لہٰذا اس بار اس کے ’’دموں‘‘ میں پہلے سا دبدبہ نہ رہے گا مگر جب گونگے نے امام بخش کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے تو گاموں بالی والے کی امیدوں پر پانی پھر گیا۔ امام بخش نے گونگے کو آناً فاناً نیچے رکھا اور تھوڑی دیر رگیدنے کے بعد چت کر دیا۔(جاری ہے)

وہ پہلوان جنہوں نے تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر35 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں